گیتوں میں گندھی اردن کی ایک شام!


عجیب سا اشتہار تھا!

” آپ کے ووٹ کی ضرورت ہے، دنیا کے نئے سات عجائبات کے چناؤ ميں حصہ لے کر اپنا ووٹ ڈالیے”

ساتھ دی گئی فہرست میں ڈھیروں ڈھیر مقامات کے نام شامل تھے۔ ہم نے حیرت سے پڑھا اور سوچا، تو کیا وہ عجائبات قصہ پارینہ ہوئے؟

کوئز ٹیم کے کیپٹن ہونے کے ناطے بچپن کے تمام برس دنیا کے ساتوں عجائبات کا محل وقوع اور تفصیل یاد کرنے میں گزر گئے۔ جب ذہنی آزمائش کے مقابلوں میں بابل کے باغات، سکندریہ کا لائٹ ہاؤس، مصر کے اہرام، زیوس کا مجسمہ، آرٹیمس کا مندر، ہیلی کارنیسس کا مزار، روڈز کا مجسمہ کے متعلق سوال پوچھے جاتے تو ہماری یادداشت کے خانے سے سب پھدک کے باہر آجاتے اور فاتح ٹیم کی ٹرافی کہیں اور نہ جانے پاتی۔

ان سات مقامات کے بچے کچھے آثار کو دیکھنے کی خواہش لئے ہم بڑے ہوتے گئے۔ زندگی نے مہلت ہی نہیں دی سوایک بھی نہیں دیکھا تھا اور اب یہ نئے سات عجائبات؟ ہم حیرانی سے بڑبڑائے۔

ہم پاکستان سے سعودی عرب کو رواں دواں جہاز میں بیٹھے وقت گزاری کے لئے رکھے گئے میگزین کے اوراق الٹتے پلٹتے تھے۔ عجائبات کی کہانی نظر آئی، ہمارے ماضی سے کسی نہ کسی طور متعلق تھی سو پڑھ ڈالی۔ ووٹ کا اشتہار دیکھ کے ہم تصویریں تکتے تھے اور ووٹ کن سات عجائبات دنیا کو دیں، کی فکر کرتے تھے۔ یک لخت ایک تصویر پہ نظر جا رکی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

گلاب رنگ پتھروں سے تراشی بلند و بالا پرشکوہ عمارت! حسن مجسم، دل کی دھڑکنوں کو تہہ وبالا کرتی، ایک سحر میں جکڑتی، سنگ تھے کہ اپنے جمال پہ نازاں تھے۔ ہم خاموشی سے تکتے تھے اور سوچتے تھے کیا پتھروں میں بھی دل دھڑکا کرتا ہے؟

اسی دم سوچ لیا کہ یہی نادر روزگار عجوبہ ہمارے ووٹ کا حقدار تھا اور آخری چناؤ ميں بھلے اس کا نام نہ آتا، ہمیں تو دیدار کو جانا تھا۔

یہ تہذیب گم گشتہ کے شہر “پیٹرا” کا محل “الخزنہ” تھا!

خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھلنے میں کچھ دیر تو لگی لیکن ہم نے اس خواب کو درمیانی عرصے میں اپنی یادداشت سے محو نہیں ہونے دیا اور نہ ہی خواہش کی شدت کم ہوئی۔ اسی طرح تو ہم اپنے خوابوں کا تعاقب کیا کرتے ہیں۔

لیجیے صاحب ہم تبوک سے روانہ ہو کے، دمشق کی گلیوں میں سرسراتی تاریخ کی کہانیاں سنتے اردن پہنچ چکے تھے اور دارالحکومت عمان سے پیٹرا جانے کے لئے بے چین بیٹھے تھے۔ بتاتے چلیں کہ ہمارا ووٹ رنگ لایا تھا اور پیٹرا دنیا کے سات نئے عجائبات میں رکھا جا چکا تھا۔

اردن میں ہمارا قیام ایک مقامی خاندان کے ساتھ تھا۔ گو کہ ہمیں ہوٹل میں ٹھہرنا بہتر لگتا ہے لیکن اس دفعہ بات کچھ اور تھی۔ ملٹری ہسپتال تبوک کی ہیڈ نرس اور ان کی بیٹی اسلام جو ہماری صاحبزادی کی قریبی دوست تھیں، کسی طور ہمیں یہ اجازت دینے کو تیار نہیں تھیں۔ ہم نے ان ماں بیٹی کی محبتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ عمان میں گزری وہ شام اب بھی دل پہ لکھی ہے جب گھرانے کے سب افراد وسیع و عریض صحن میں ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہماری تواضع پودینےکی خوشبو لئے قہوے اور انجیر سے کرتے تھے۔ اور وہ لمحہ جب سب بہن بھائی اردو سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی لے اور سر میں انڈین فلموں خاص طور پہ شاہ رخ پہ فلمائے گئے گانے سناتے تھے۔

ہماری میزبان کے صاحب فوج کے کرنل تھے سو اس دن اس گھر میں دو دو کرنل کی بیویاں تھیں، جو خوب ہنستی تھیں۔ اردنی کرنل صاحب نے تجویز پیش کی کہ ہمیں پیٹرا جانے کے لئے ٹوارزم کمپنی کا سیاحتی گروپ جوائن کرنا چاہیے۔ ادھر تجویز، ادھر فون، پھر عربی میں لمبی بحث اور ہمارا وہ حال کہ ٹک ٹک دیدم…

” کل کے ٹرپ میں کوئی جگہ نہیں ہے. پرسوں کا مل سکتا ہے “

“پرسوں…” ہماری چیخ بھری آواز، “پرسوں تو ہسپتال میں واپس جوائننگ ہے”

ہم پانچ دن پہلے تبوک سے نکلے تھے اور دمشق سے ہوتے ہوئے عمان پہنچے تھے۔ پیٹرا ہماری سیاحت کا آخری مقام تھا۔

“اب کیا کریں ؟ پیٹرا دیکھے بنا تو ہم واپس جانے والے نہیں..” ہم بڑبڑائے،

“آپ ڈاکٹر حسنی ملص سے بات کیوں نہیں کرتیں”

ہماری میزبان نے تجویز پیش کی کہ ہمارے ہی ہسپتال میں تھیں۔

“ڈاکٹر حسنی سے بات..” ہمیں کرنٹ لگا،

ڈاکٹر حسنی ملص شامی النسل، قاہرہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، انگلستان سے تربیت یافتہ ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور انتہائی نک چڑھے انسان تھے۔ ہر وقت تیوری چڑھی رہتی اور عینک کے پیچھے سے گھورتی آنکھیں کسی کی بھی روح قبض کرنے کے لئے کافی ہوتیں۔ ان سے بات کرنے سے پہلے بیسیوں مرتبہ سوچنا پڑتا کہ نہ جانے مزاج یار کیسا ہے؟ ان کی فلپائنی سیکرٹری نینسی سے ٹوہ لی جاتی کہ صبح سے اس کی طبیعت کی خبر کتنی دفعہ لی جا چکی ہے؟

اور اب ہم پیٹرا کی محبت میں عمان میں ایک اجنبی گھر میں بیٹھے اس دبدھا میں کہ حسنی ملص سے بات…

بات کیے بنا بات بنتی نظر نہیں آتی تھی، سو بات تو کرنی ہی تھی۔ لیجیے, دوسری طرف فون کی گھنٹی بج رہی ہے اور ہم لرزتی ٹانگوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے مدعا بیان کرنے کے لئے مناسب الفاظ سوچ رہے ہیں۔ ہیلو کے ساتھ ہی ہم نے ایک سانس میں کتھا کہانی کہہ ڈالی کہ کیسے ایک دوسرے ملک میں ہم پیٹرا کے در پہ آ بیٹھے ہیں اور اب ہماری منزل سراب بنتی نظر آتی ہے کہ درمیان میں ایک دن حائل ہو چکا ہے۔ مزید ایک دن کی چھٹی کا سوال ہے بابا۔

دوسری طرف ایک خاموشی کے وقفے کے بعد ہنکارا بھرا گیا اور یک لفظی او کے نے ہماری نس نس میں بجلی بھر دی۔

پیٹرا ہمارا منتظر تھا! ہم اگلی صبح تڑکے روانہ ہونے کو تیار تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments