چوہدراہٹ کس کی


ہم ایک سرکاری سکول سے فارغ التحصیل ہیں، اس زمانے میں سرکاری سکولوں کی روایت تھی کہ وہ نویں اور دسویں جماعت کے قابل طالب علموں کی ایک علیحدہ کلاس بنا کر تعلیم دیتے تھے۔ ہمارے ساتھ بھی قسمت نے یہ کھیل کھیلا اور ہم بھی اس کلاس کا حصہ بن گئے، حالانکہ وضع قطع سے ہم ویسے نظر نہیں آتے تھے۔ ایک دن جب ہمارے استاد تشریف نا لائے تو ہماری ساری جماعت جو اس زمانے میں سکول کے ہال میں بیٹھا کرتی تھی۔ ہم نے ہال کے دروازے بند کیے اور ہم نے کرکٹ کھیلنا شروع کردی۔ جنوری یا فروری کے دن تھے ہم اپنے بورڈ کے امتحانات کے منتظر تھے۔ ہم نجانے کتنی محنت سے شوروغل کر رہے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہونا شروع ہوگئی۔ ہم سب نے جلدی سے اپنا حلیہ ٹھیک کیا اور ہم میں سے ایک طالب علم دروازہ کھولنے چلا گیا۔

ماسٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئی عرض کرنے لگے تمھاری کلاس کا مانیٹر کون ہے کیونکہ سرکاری سکولوں میں مانیٹر ہی ہوتے ہیں۔ ہم سب (یعنی اپوزیشن والے ) جو اپنے مانیٹر (استاد جی کا لاڈلا) سے خائف تھے، ہم نے جوابا عرض کی کہ سر ہماری کلاس کا کوئی مانیٹر نہیں ہے۔ استاد محترم نے ایک خوبصورت جملہ کہا آج بھی کانوں میں گونجتا ہے،

پتر جس گھر کا کوئی چوہدری نہیں ہوتا اس گھر میں سب ہی چوہدری ہوتے ہیں۔

اس تمہید کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ہمارے ملک میں بھی ہم آج تک ہم فیصلہ نہیں کر پائے کہ اصل چوہدری ہے کون؟ اور فیصلہ کس کا مانا جائے۔ ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے یا آمریت، جمہوریت ہو گی تو نظام پارلیمانی ہونا چاہیے یا صدارتی، پارلیمنٹ مقدس ہے یا نہیں، تعلیمی نظام یکساں ہو یا مختلف، عدلیہ آزاد ہو یا نہیں، بیوروکریسی سیاست سے پاک ہو یا نہیں، ملک کو مذہبی ریاست بنانا ہے یا سیکولر ریاست، بلدیاتی نظام لانا ہے یا نہیں، اداروں میں ریفارمز کرنے ہیں یا نہیں، معیشت کے لئے استعماری معاشی نظام ہو گا، سوشلزم یا اسلامی معاشی نظام، جماعتوں کی سرپرستی وراثتی ہونی چاہیے یا انتخابی، بجلی پانی سے بنانی ہے یا تیل سے، احتساب کرنا ہے یا نہیں، صحت کی سہولیات حکومت نے دینی ہے یا نہیں، فوجی مداخلت ہونی چاہیے یا نہیں، بھارت سے جنگ کرنی ہے یا صلح، افغانستان میں امن لانا ہے یا انتشار، امریکہ کی غلامی کرنی ہے یا باعزت دوستی، نئے صوبے بنانے ہیں یا نہیں، طلبہ اور ٹریڈ یونین ہو یا نہیں، چاند کا فیصلہ سائنسی بنیاد پر ہو گا یا رویت کی بنیاد پر، انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنی ہے یا نہیں، ذرائع ابلاغ آزاد ہونے چاہئیں یا نہیں، یوٹیوب، پب جی اور بیگو کھلنی چاہیے یا نہیں، سوموٹو ہونے چاہئیں یا نہیں، عورت خودمختار ہونی چاہیے یا نہیں، وغیرہ وغیرہ

پرانے وقتوں میں ان سب کا جواب ہاں میں تھا، اگر آپ حزب اختلاف میں ہیں اور جواب نہیں تھا اگر آپ حکومت میں ہیں۔ مگر موجودہ دور میں ان سوالات کو پوچھنے پر پابندی ہے، اور چند ایک لوگ جو شرپسند ہیں اور سوشل میڈیا پر بحث کرتے ہیں وہ بھی حالیہ کچھ واقعات سے ڈرتے ہیں کہیں مبینہ طور پر اغوا نا کر لئے جائیں۔ ہم ایک ایسے ہیجان میں مبتلا ہیں کہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ دائیں جانب جانا ہے یا بائیں جانب، سیدھے جانا ہے یا واپس مڑنا ہے۔

ہمارا حال اس اشتہار کی طرح ہیں جو کسی زمانے میں ملک کی ہر دیوار پر موجود ہوتا تھا، جس کے مطابق اس ملک کی 49 فیصد آبادی مردانہ کمزوری کا شکار تھی اور 100 فیصد بواسیر کے مرض میں مبتلا تھی۔ اس سب کے باوجود پورے خطے میں ہماری آبادی کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے۔

میری اس ملک کے تمام چوہدریوں سے گزارش ہے کہ بیٹھ کر آپس میں کوئی ترجیحات طے کر لیں کہ کرنا کیا ہے، کیونکہ 73 سال میں اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اس حساب سے یہ ملک چل نہیں رہا ہے اور لگتا ہے کوئی چلا بھی نہیں رہا، اور تبدیلی کے بعد کوئی چلانے کو روادار بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments