گلگت بلتستان الیکشن اور سیاسی ہجرت کا رحجان


کسی ایک آئیڈیالوجی کو تھامے رکھنا اور اسی کے اندر رہ کر سیاسی جدوجہد کرنے کی پاکستان میں تاریخ کچھ شاندار نہی۔ گو کہ اس ملک کا قیام ایک سیاسی جد وجہد کا نتیجہ تھا مگر بانی پاکستان کی رحلت کے بعد عنان اقتدار زیادہ تر طالع آزماؤں کے ہاتھ رہا اور انھوں نے سیاست کی پنیری میں اپنی پسند اور مرضی کے سیاست دان اگائے۔ اس طرح ایک دور ادوار کو چھوڑ کر پاکستان کی مجموعی سیاسی صورتحال ایک جیسی رہی اور نقب زنی کے ذریعے سیاسی جماعتوں سے حسب منشا ”محب وطن“ سیاست دانوں کی کھیپ تیار کی گئی۔

اس کھیپ نے مقتدرہ کے لئے دامے درمے اور سخنے خوب مدد کی ساتھ ہی اپنی زنبیل بھی خوب بھری۔ یہاں تک تو خیر تھا مگر اس روش نے مفاد پرستی کی بنیاد رکھی اور سیاسی کینوس میں لین دین اور نظریات سے آنکھیں پھیرنے کا وہ رنگ بھر دیا کہ اب اصول، ضابطے اور اخلاقی اقدار دھندلے ہوگئے۔ خیر یہ تو تھی وفاق کی صورتحال ایسے میں گلگت بلتستان کی محدود سیاسی فضا کیسے الگ اور محفوظ رہ سکتی تھی۔ گلگت بلتستان کی انتخابی عمل کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گلگت بلتستان 1948 سے لے کر 1950 ء تک پولیٹیکل ریزیڈنٹ صوبہ سرحد کے ماتحت رہا۔

1950 ء میں اسے وزارت امور کشمیر کے پولیٹیکل ریزیڈنٹ کے انتظام میں دیا گیا۔ 1956 سے لے کر 1959 ء تک ولیج ایڈ یعنی دیہات سدھار کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر کا کیا گیا اس میں کوئی عوامی نمائندگی نہی تھی۔ 1960 ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں پہلی بار بیسک ڈیموکریسی کے تحت یونین کونسل کے الیکشن ہوئے۔ موصوف نے ملک بھر میں ایبڈو قانون کے تحت سیاستدانوں کی کتر بیونت کی تھی اور مقصد جلیلہ تھا کہ اپنا اقتدار مضبوط رہے جمہوریت کی خیر تھی کہ آنے جانے والی شے تھی۔

صدر یحییٰ خان نے 1970 ء میں Village Aid کو ترقی دے کر ایڈوائزری کونسل قائم کی جس کا کام مشورہ دینا تھا اس کونسل کے 12 ارکان براہ راست نامزد کیے جاتے تھے۔ 1971 ء میں ایڈوائزری کونسل کی تعدا بڑھا کر 14 کردی گئی اور ان کا چناؤ مختصر عوامی رائے دھی سے ہوا۔ 1972 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے راجگی نظام، FCR اور ایجنسی سسٹم ختم کیا نیز ناردرن ایریاز الیکشن آڈر 1975 ء کے تحت انتخاب ہوئے اور گلگت بلتستان کو 16 انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔ 1977 ء کو جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا اور گلگت بلتستان مارشل لاء کا زون E قرار پایا اور جنرل چشتی کا دبدبہ قائم رہا۔ 1979 ء میں گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا اور پہلی بار ناردرن ایریاز کونسل کے ساتھ بلدیاتی ادارے بھی قائم کیے گئے۔ ارکان کونسل کی تعداد 16 ہی رہی 82

19 ء کو وفاقی مجلس شوریٰ کے لئے گلگت بلتستان سے تین سیاسی افراد کو ممبر لیا گیا تاہم بعد ازاں انڈیا کے سخت اعتراض پر انہیں مبصر کا نام دیا گیا۔ 1983 ء، 1987 ء اور 1991 ء کے ناردرن ایریاز کونسل کے 16 ارکان کے الیکشن حسب سابق طریقے سے ہوئے۔ 1994 ء میں معین قریشی کی نگران حکومت نے نیا لیگل فریم ورک آڈر جاری کیا اور ممبران کی تعداد 16 سے بڑھا کر 24 کردی نیز خواتین کی 2 نشستیں برقرار رکھا۔ اس دوران ناردرن ایریاز کونسل کے لئے ڈپٹی چیف کا عہدہ متعارف کرایا گیا اور پہلی بار 05 مشیروں کی تقرری ہوئی۔

اس الیکشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر الیکش ہوئے۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت بنائی کیوں کہ پیپلز پارٹی کو 09 سیٹیں، تحریک جعفریہ کو 08 مسلم لیگ کو ایک اور آزاد ارکان 08 منتخب ہوئے تھے۔ یہاں سے آگے کا قصہ بیان کرنا اس تجزیہ کا مقصد ہے کیونکہ 1999 ء کے الیکشن میں میں تحریک جعفریہ نے 05 نشتیں، پیپلز پارٹی نے 06، مسلم لیگ ن نے 04 اور 09 آزاد ارکان کامیاب ہوئے۔ گو کہ اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی تھی مگر وفاق میں چونکہ جنرل مشرف کی حکومت تھی لہذا آزاد ارکان نے تحریک جعفریہ میں شمولیت کی یا تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور یوں تحریک جعفریہ کی حکومت بن گئی۔

بعد میں جب جنرل مشرف نے تحریک جعفریہ پر پابندی لگا دی تو گلگت بلتستان کی تحریک جعفریہ کی حکومت بمعہ ارکان اسمبلی جنرل مشرف کو پیارے ہوگئے اور اپنی سابقہ جماعت سے لاتعلقی اختیار کی۔ 2004 ء میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں جب اگلے الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی کے 09 ارکان، مسلم لیگ ق کے 04، مسلم لیگ ن کے 05 اور آزاد 07 ارکان الیکشن جیت گئے۔ اقتدار کا وھی کھیل کہ آزاد، منحرف اور ٹیکنوکریٹس کو ملا کر مسلم لیگ ق کی حکومت بنائی گی۔

2009 ء میں جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور گڈ گورننس آرڈر 2009 ء کے تحت گلگت بلتستان کو صدارتی آرڈیننس کے تحت کچھ عبوری صوبے کے حقوق دیے تو گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی اس طرح پیپلز پارٹی نے 15 سیٹیں، مسلم لیگ ن نے 02، مسلم لیگ ق نے 02، جمعیت علمائے اسلام نے 02، ایم کیو ایم نے 01 اور 02 آزاد ارکان نے میدان مار لیا اور اپنا پہلا وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا۔

لیکن جب 2015 ء کے الیکشن ہوئے تو گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کو بری طرح شکست ہوئی اور مسلم لیگ ن نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے کیوں کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ ن نے 16، پیپلز پارٹی نے 01 تحریک جعفریہ نے 02 وحدت مسلمین نے 02، پاکستان تحریک انصاف نے 01، جمعیت علمائے اسلام نے 01 اور بلاورستان نیشنل فرنٹ کا 01 ممبر منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے۔ یوں 1994 ء سے لے کر 2015 ء تک کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا گے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں وفاق پر موجود حکومت کی یا اس کے اتحادیوں کی حکومت بن جاتی ہے اور اس عمل کو تقویت دینے کے لئے ان ارکان کا کردار ہوتا ہے جو اپنی پارٹی چھوڑ کر وفاقی حکومتی پارٹی میں چلے جاتے ہیں یا وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آزاد الیکشن لڑتے ہیں تاکہ بہتر ڈیل کی جاسکے۔

اب جبکہ 2020 ء میں نئے الیکشن سر پر ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حسب سابق سیاسی ہجرت اور وفاداری بدلنے کا موسم کس انداز میں آتا ہے اور ملکی اور علاقائی مفاد کا نعرہ پھر کتنا کارگر ٹھہرتا ہے جبکہ وفاق میں اس بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

شجر بے سایہ ہو جائے تو سمجھو
بچھڑ جانے کا موسم آ گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments