چالیس سال کی محنت اور عمران خان


پتا نہیں کیوں میرا دل چاہتا ہے کہ دانش ور سے پوچھوں ”آپ کو صرف عمران خان کی بائیس سال کی محنت نظر آتی ہے، ہماری چالیس سال کی محبت اور محنت کی رائیگانی کا حساب کون دے گا؟“

80 ء کی دہائی کے آخری برسوں میں پی ٹی وی پر Bionic Woman، chips اور Six Million Dollar man جیسی انگلش موویز بڑی مقبول تھیں۔ سکول نوٹ بکس پر ان موویز کے اداکاروں کی تصویریں چھپتیں یا کرکٹ ٹیم کے اسٹارز کی۔ جاوید میانداد، ظہیر عباس، آصف اقبال، سرفراز نواز، وسیم باری، مدثر نذر وغیرہ۔ ہم جماعت دوست ان تصویروں والی کاپیاں خرید کر فخر کرتے۔ موویز کی مقبولیت اپنی جگہ، ہمیں ان کے اداکاروں سے کیا غرض، ہم کاپیاں خریدتے وقت صرف ایک ہی سٹار کی تصویر تلاش کرتے، جس کے ساتھ لکھا ہوتا تھا، چھکے مارنے والا تیز ترین باؤلر، عمران خان۔ خوبرو، عقابی آنکھیں، سنہری زنجیر گلے میں لہراتی ہوئی، کبھی باؤلنگ ایکشن میں کبھی ہنستے ہوئے، ہر نوٹ بک پر عمران :۔ یعنی گھر ہو یا اسکول عمران کی تصاویر سے بستہ بھرا ہوا، گویا ؂

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

کالج جا کر یہ محبت جنون میں بدل گئی، کرکٹ تو کھیلنی ہی ہوتی تھی اپنا حلیہ بھی عمران کا سا بنا لیا، لمبے بال، وہی باؤلنگ ایکشن۔ عمران خان پر ہونے والی کوئی تنقید ہمیں مطلق گوارا نہیں تھی۔ اخبارات میں کبھی کوئی اسکینڈل چھپتا، ہم بغیر فیس کے وکیل کی طرح ہمہ وقت دفاع کے لیے تیار۔ کبھی کسی اخبار میں کوئی فلم اسٹار، خان صاحب سے عمر بھر کی رفاقت کی خواہش لیے سسکیاں بھر رہی ہوتی تو ہمیں خان صاحب کے اساطیری حسن میں کئی فسوں کاریاں نظر آنے لگتیں۔

خان صاحب کی ٹانگ کا فریکچر ہوا تو نہ جانے کیوں ہمیں پوری کرکٹ ٹیم لنگڑاتی، لڑکھڑاتی محسوس ہونے لگی۔ 1992 ء کا ورلڈ کپ جیتا تو مقبولیت اور شہرت کی دیوی خان صاحب کے قدموں میں ڈھیر ہو گئی۔ خان صاحب پوری قوم کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ 42 سالہ ادھیڑ عمرے کے لیے حسینائیں اپنا دل ایسے لیے پھرتیں تھیں، جیسے ؂

ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف
بہ امید آن کہ روزی بہ شکار خواہی آمد

(جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر ہتھیلیوں پر رکھ لیے، اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کے لیے آئے گا) خان صاحب نے سب کو نظر انداز کر کے ازدواجی زند گی کے لیے دختر گولڈ سمتھ کا انتخاب کیا تو حاسدین و ناقدین کو بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا، مگر ہمارے سامنے جس نے ایسی بات کی، منہ کی کھائی۔ ہمارا موقف یہی تھا کہ ایک باشعور لڑکی کو مسلمان کر کے خان صاحب نے کون سا گناہ کیا ہے۔ جمائما سے علیحدگی ہوئی تو ہم نے امر ربی کہہ کر طعنے دینے والوں کے یہ کہہ کر منہ بند کیے کہ ناموافق حالات میں ایسا ہونا ہی بہتر ہوتا ہے، اس قدر شائستگی کے ساتھ علیحدگی کی مثال کم ہی ملے گی۔

بڑی سیاسی پارٹیاں سایہ ہما کی خواہش میں خان صاحب کو اپنی اپنی سیاسی پارٹی میں لانے کے لیے کوشاں تھیں۔ مگر اس دیدہ ور کا دماغ کچھ اور سوچ رہا تھا۔ شوکت خانم کی داغ بیل پڑی تو لوگوں نے تن من دھن قربان کر دیا، چندہ وصولی کا جو ہدف ہمیں دیا گیا ہم نے اس سے کہیں زیادہ چندہ جمع کیا۔ ملکی حالات کی بدحالی دیکھ کر دل سے یہ خواہش دعا بن کر نکلتی تھی کہ کاش، خان صاحب سیاست میں قدم رکھ دیں تو قائد اعظم کے بنائے پاکستان کی تقدیر سنور جائے۔

مگر خان صاحب سیاست سے دور ہی رہنا چاہتے تھے۔ آخر دعائیں رنگ لے آئیں۔ 1996 ء میں پی ٹی آئی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ الیکشن میں ناکامی یا سنگل سیٹ کے طعنے کوئی دیتا تو ہمارا جواب یہی ہوتا کہ بے وقوفو! کامیابی کیا راتوں رات مل جاتی ہے۔ شیخ رشید نے ایک ٹاک شو میں خان صاحب کی پارٹی کو تانگہ پارٹی کہنے کی پھبتی کسی، تو خان صاحب نے کھرے داموں انھیں چپڑاسی نہ رکھنے کا کہہ کر حساب برابر کر دیا۔ شیخ رشید اس وقت تک ہماری نظروں سے گرا رہا جب تک کہ خان صاحب نے خود انھیں سر کا تاج نہیں بنا لیا۔

خان صاحب پر مشرف کا ساتھ دینے کا اعتراض ہمیں بہت بودا لگتا تھا، اگر مشرف نے کتے کا پلا تحفے میں دے ہی دیا تو کیا آفت آ گئی۔ ریحام خان سے شادی اور علیحدگی سراسر ان کا ذاتی معاملہ تھا، پتا نہیں کیوں بعض لوگوں کے پیٹ میں بل پڑنے لگے، چہ میگوئیاں سن کر ہم یہی کہتے تھے، جاہلو! تم نمل اور شوکت خانم کی کارکردگی دیکھو لوگوں کے ذاتی معاملات میں ٹانگ مت اڑاؤ۔ ایک دفعہ بد لحاظی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بابر غوری نے ایک بچی کی تصویر دکھا کر جب الٹے سیدھے سوالات کیے، تو ہمارے غصے کی انتہا نہ رہی، دل سے بد دعا نکلی کہ، جا! بابر غوری تیرا منہ کالا ہو۔ میرا خیال ہے اس کہے کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا۔

2013 ء کے الیکشن میں عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا، تو کچھ تجزیہ نگاروں نے اسے میں نہ مانوں کی رٹ قرار دیتے ہوئے اسے شکست کی خفت مٹانے کی کوشش کہا۔ مگر ہم خان صاحب سے متفق تھے کہ یہ آر۔ اوز کا الیکشن تھا، دھاندلی کیسے ہوئی، کچھ علم نہیں مگر ہم خان صاحب کے ساتھ سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار تھے۔ جلسے جلوسوں، لانگ مارچ، دھرنے ؛ یہ سب ہماری نظر میں جمہوریت کی بقا کے لیے تھا، پاکستان عوامی تحریک سے احتجاجی اتحاد ہو یا پی ٹی وی پر چڑھائی، کرینوں کے ذریعے رکاوٹیں بلڈوز کرنے سے لے کر سرکاری پولیس افسروں کی پٹائی تک سب کچھ جائز تھا۔

ایک سو چھبیس روز کا دھرنا، غیر ملکی سربراہان مملکت کے دوروں کی منسوخی، حکومتی مشینری کا انجماد، سٹاک مارکیٹ کی تباہی، سیاسی تحریک کے نام پر نوجوان نسل کی جذباتی حرکات، تقاریر اور گفتگو میں درشت زبان کا استعمال، سب وقت کا تقاضا تھا۔ پانامہ لیکس کے آتے ہی خان صاحب کا ہر عمل اپنا جواز خود فراہم کرنے لگا۔ نا اہلی کی وبا نے نواز شریف کو نگل لیا، مقدمات، ریفرنسز کا چلن ہوا تو خان صاحب اقتدار کی سنگھاسن کے قریب تر ہوتے گئے، 2018 ء کے الیکشن کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تو یوں لگا جیسے ملک کی اوورہالنگ کا آغاز ہو گیا۔

ہماری کم بیش چالیس سالہ پرانی محبت اور محنت ثمر بار ہونے کی امید قوی ہوئی، ۔ مگر کچھ جلد باز پہلے دن سے ہی تبدیلی تلاش کرنے لگے، اچھا کیا، خان صاحب نے کہا کہ سو دن کے بعد کارکردگی دیکھنا۔ سو دن کیا پورے ہوئے شکست خوردہ لوگ، ایسے بات کرنے لگے جیسے سو سال بیت گئے ہوں۔ ہماری طرح خان صاحب سے دیگر محبت کرنے والوں نے ترت جواب دیے کہ درست منزل کا تعین ہو گیا جو تبدیلی کی جانب پہلا قدم ہے۔ دن مہینوں میں بدلتے گئے، ایک سال بعد منتخب وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہنے والوں کی زبانیں اس قدر دراز ہوئیں کہ یہ عوام کو ترقی معکوس سمجھا کر احتجاجی دھرنوں کے لیے تیار کرنے لگے۔

ہر چند سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ دیکھو، کرپٹ لوگوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے، ہر کرپٹ منہ پھٹ پر ریفرنس قائم ہے، انکوائریاں ہو رہی ہیں، کوئی جیل میں سڑ رہا ہے تو کوئی ہسپتال میں کراہ رہا ہے، نیب غیر جانب داری سے اپنا کام کر رہا ہے، فوج سیاست سے بے نیاز سرحدوں کی نگرانی اور ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں مصروف ہے۔ ملکی اخراجات کم کرنے کے لیے سرکاری بھینسیں تک بیچ دی گئی ہیں، سادگی کی روش کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی دورے مختصر اور عام پروازوں پر کیے جاتے ہیں۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کی افتتاحی تختیاں نصب ہو چکی ہیں، ان سب تبدیلیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سدا بہار مولانا ایک جم غفیر کے ساتھ اسلام آباد فتح کرنے کے لیے آ دھمکے، اپنے بھاری بھر کم جسموں کے ساتھ پارکوں کے جھولوں کی چیخیں نکلواتے، اور خوبصورت سڑکوں کو گندا ہوتے دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹتا کہ ایک سو چھبیس دنوں کے دھرنے میں اگر درویشوں نے صاف ستھری شلواریں محض سوکھنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے جنگلوں پر لٹکا ہی لی تھیں تو دشمنان تبدیلی نے کیا واویلا مچایا تھا۔

خیر اس دھر نے کا اختتام بھی ہر دھرنے کی طرح ناکامی پر ہوا، ملکی وسیع تر مفاد میں سپہ سالار کی توسیع ملازمت کا مرحلہ بھی نہایت خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ سمندر سے تیل کے ذخائر نکالنے کے لیے کیکڑا پراجیکٹ پر دن رات کام ہو نے لگا، مگر ڈالر بے قابو ہو کر اڑانیں بھرنے لگا اور ساتھ پٹرول کی قیمتوں کو بھی آگ لگنی شروع ہو گئی۔ سارے معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے مرکز اور پنجاب کی بیورو کریسی میں پے در پے تبدیلیاں کی گئیں اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ کرونا نے آ لیا، اس کے مضر اور ناقابل تلافی نقصانات نے جہاں روزمرہ کے اور معمولات کو متاثر کیا وہیں حکومت گرانے کی افواہیں اور تھوڑی بہت ہونے والی کوششیں بھی تعطل کا شکار ہو گئیں۔

اب کرونا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، خان صاحب کی حکومت کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ ایک بار پھر حکومت کے رخصت ہونے یا مائنس ون کی خبریں نمو پا رہی ہیں، کبھی صدارتی نظام کی صدا بھی سنائی دیتی ہے۔ ہمارے خواہ مخواہ منہ لگنے والے معترضین ہوشربا مہنگائی، معاشی بدحالی، کرپشن و رشوت کے قصوں، قانون و انصاف کے فقدان، دن دیہاڑے اغوا، اداروں کی تباہ حالی، اقربا پروری، بلدیاتی اداروں کی معطلی کے باعث چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کی حالت زار، روایتی تھانہ کلچر اور پٹوار کے اذیت ناک نظام کی باتیں سنا سنا کر ناک میں دم کرتے ہیں تو جواباً کہنا پڑتا ہے کہ میاں ستر سال کا گند پلک جھپکتے میں کیسے صاف ہو اور ویسے بھی یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کا کیا دہرا ہے۔

مگر کیا کیجیے کہ ان فسادیوں نے چند چیزیں ازبر کر رکھی ہیں۔ مالم جبہ اسکینڈل، بی آر ٹی منصوبہ، فارن فنڈنگ کیس سے بات شروع کر کے یہ وزیروں مشیروں کی دوہری شہریت، پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کی آمدنی سے زیادہ اثاثوں، کیکڑا پراجیکٹ میں کروڑوں جھونک دینے، ریلوے، اسٹیل مل اور پی آئی اے کی بدحالی تک کے قصے دہرانے لگتے ہیں۔ اب انھوں نے ایک نئی طرز ستم ایجاد کی ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے سے پہلے اس کے رہنماؤں بالخصوص مراد سعید، اسد عمر اور خان صاحب کی تقریروں کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے شروع کر دیے ہیں۔

کہیں مراد سعید کہہ رہے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم بنتے ہی لوٹے ہوئے اربوں ڈالر واپس لائے گا۔ اسد عمر کہہ رہے ہیں، پٹرول کی قیمت ساٹھ روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، اس طرح بجلی، گیس سستی ہونے کی باتیں ہیں۔ اسٹیل مل کے ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ان کو نکالنا معاشی قتل کے مترادف ہے۔ خان صاحب کی باتوں کے ویڈیو کلپ تو پتا نہیں یہ لوگ کہاں کہاں سے چن چن کر نکال لائے ہیں : کہ میں بھیک نہیں مانگوں گا، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا۔

ملک میں نوکریاں اتنی ہوں گی کہ دوسرے ملکوں سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آیا کریں گے، پچاس لاکھ گھر بنیں گے، لاکھوں درخت لگیں گے، بجلی، گیس، پٹرول کم قیمت پر دستیاب ہوں گے، ہسپتالوں میں تمام سہولیات اور دوائیں وافر ہوں گی، سستا انصاف یقینی بنایا جائے گا، سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی، کرپشن، منی لانڈرنگ کا خاتمہ ہوگا، تھانا کلچر تبدیل ہو گا، ادارے آزاد اور اور ان کو تمام سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا، احتساب بلا تفریق ہو گا، ناجائز تجاوزات اور قبضہ گروپ سے زمینیں واگزار کروائی جائیں گی، طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں گی، نوزائیدہ بچوں کی صحیح نشو و نما کے لیے ہر ممکن انتظامات کیے جائیں گے تاکہ وہ صحت مند قوم کے باوقار شہری بن سکیں، خان صاحب کا ویژن تھا کہ جس ملک میں ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہوں اس ملک کا وزیراعظم چور ہوتا ہے۔

وہ مہاتیر محمد کی مثال دے کر کہا کرتے تھے کہ میں پاکستانیو کو ایک ایسی قوم بناؤں گا جو سر اٹھا کے جیے، دنیا جس کی مثال دے۔ اب جب کوئی یہ وعدے طعنوں کے انداز میں ہمارے سامنے دہرا کر یہ سوال کرتا ہے کہ بتائیے کیا بہتری آئی، کون سا وعدہ پورا ہوا تو ہم کرتار پور کوریڈور اور کچھ منصوبوں کے افتتاح و تکمیل کی مثالیں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کیا کریں ان دنوں تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر آل پنجاب گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے قائدین ٹیکسوں میں اضافہ زدہ بجٹ مسترد کر کے شہر شہر پھر کر لوگوں کو تحریک کے لیے متحرک کر رہے ہیں، باصلاحیت طلبا سابقہ ادوار میں لیپ ٹاپ حاصل کرنے والوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مہنگائی نے غربت کی لکیر کے نیچے عوام کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے، بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ آئے روز کا معمول ہے، پٹرول کی قیمت نیچے کیا آئی، پٹرول اس وقت تک غائب رہا جب تک قیمتیں پھر سے نہیں بڑھ گئیں، کرپشن اور رشوت نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے، سرکاری پوسٹوں میں کمی کی خبریں اخبارات میں چھپ چکیں ہیں، ملک چلانے کے لیے چندہ اور قرضہ لینے میں سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں، ہسپتالوں میں سہولیات زیادہ کیا ہونی تھیں الٹا کچھ چیزوں کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں، قانون سازی کی بجائے شور شرابا اور سخت جملوں کا تبادلہ ایوانوں کا معمول بن چکا ہے۔

احتساب کا شور شرابا تو ہوا مگر کسی کرپٹ سے کچھ بر آمد نہیں ہوا لہذا نیب کا ادارہ مذاق بن کر رہ گیا، اظہار رائے کی آزادی جرم تصور کی جاتی ہے، آرٹ اینڈ کلچر سے منسلک لوگ اپنی بد حالی کا رونا رو رہے ہیں، میڈیا ہاؤسز بند ہوتے جا رہے ہیں اور کچھ میں ویرانی کا راج ہے، یکساں نظام تعلیم کا پہلا قدم صرف بیان کی حد تک ہے، اس تمنا کے دوسرے قدم کے لیے آنکھیں منتظر ہیں، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی تلواروں کے سائے ہر وقت آنکھوں کے سامنے لہراتے نظر آتے ہیں۔

۔ چالیس سال تو ہم نے خان صاحب کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کا رخ جیسے تیسے دلائل سے موڑا ہے، اب ذہن کچھ پتھرا سا گیا ہے کہ اس گمبھیر صورت حال کا جواب کیا دیا جائے؟ لوگوں کو بہتری کا یقین دلا کر مزید ایک سال کے لیے آمادہ کیا جائے یا خان صاحب کی ایماندار اور کرشماتی شخصیت پر آنکھیں بند کر کے بھروسا کرنے پر زور دیا جائے۔ ستائی ہوئی قوم کوئی تاویل سننے کو تیار نہیں۔ جب بھی ٹیلی ویژن پریا پارلیمنٹ ہاؤس میں پی ٹی آئی کے کسی دانش ور کو گرجتے برستے یہ کہتے سنتا ہوں کہ: ”عمران خان کو حکومت پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی، اس کے پیچھے ان کی بائیس سال کی محنت شامل ہے“

پتا نہیں کیوں میرا دل چاہتا ہے کہ دانش ور سے پوچھوں ”آپ کو صرف عمران خان کی بائیس سال کی محنت نظر آتی ہے، ہماری چالیس سال کی محبت اور محنت کی رائیگانی کا حساب کون دے گا؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments