دنیا بدل رہی ہے!


عالمی سیاست نہایت تیزی سے رخ بدل رہی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں جہاں طاقت کے مراکز مغرب سے مشرق میں منتقل ہو رہے ہیں، پاکستان ایک بار پھر اس نئی سیاسی بساط پہ اپنے پیر جمانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا یونی پولر ہو گئی تھی۔ یعنی دنیا میں جو ہو رہا تھا وہ ایک ہی سپر پاور کروا رہی تھی۔ وہ پاور اب امریکہ تھی اور ہو یہ رہا تھا کہ وہ جتھا جو روس کے ٹکڑے کروانے کے لیے بنایا گیا تھا، اب اسی کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک برسوں پہ پھیلی جنگ لڑی گئی، جسے ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کا نام دیا گیا۔

کچھ اصطلاحات بہت مضحکہ خیز ہوتی ہیں، جن میں سے ایک دہشت گردی ہے۔ یعنی وہی گوریلا جنگ، جب آپ کسی کے خلاف چھیڑیں گے تو جہاد ہو گی، کوئی اور یہ ہی چال چل گا تو وہ دہشت گرد؟ یہ نام نہاد جنگ چلا کے مکان کھنڈروں میں، شہر خرابوں میں اور ملک ویرانوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ یہ جنگ جاری تھی کہ آخر سویا ہوا اژدھا جاگ اٹھا۔ میرا اشارہ چین کی طرف ہی ہے۔

جس وقت آدھی دنیا کو دہشت گرد اور باقیوں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار قرار دے کے ایک بے مقصد جنگ لڑی جا رہی تھی، چین اپنی جڑیں مضبوط کرتا گیا، حتی کہ آج سب نے دیکھا کہ آخر کار چین نے انجے پنجے نکال لیے ہیں اور اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے انڈیا کی طرف اپنا رویہ بدل لیا ہے۔ چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی جھڑپیں کوئی معمولی جھڑپیں نہیں ہیں۔

چین

چین اور انڈیا کے معاملات بگڑتے ہی خطے کے چھوٹے ملکوں نے بھی انڈیا سے تعلقات خوشگوار رکھنے کی خواہش دل سے نکال پھینکی۔ دوسری طرف تین برس بعد معاہدہ لوزان کی سو سالہ معیاد پوری ہو رہی۔ غالباً اس وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ہم ترکی کا کردار بھی بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ خلافت کو ایک بار پھر بطور خاص موضوع بنایا جارہا ہے جیسے رائے عامہ کو کسی خاص رخ میں ہموار کیا جا رہا ہو۔

حجاز، سعودی عرب بنا اور پھر ایک طرح سے عالم اسلام کا مرکز ہی بن گیا۔ آل سعود کا نظریہ ہی اس وقت اسلام کا چہرہ بن کے رہ گیا تھا۔ لیکن اب یہ صورت حال بھی تبدیل ہو رہی ہے۔بہت سے معاملات جن پہ پہلے بات بھی نہ ہوتی تھی اب وہاں کا نیا نارمل ہیں۔ کتنی بہت سے آزادیاں جو بظاہر ملک میں سیاحت وغیرہ کے فروغ کے لیے دی گئیں وہ کچھ ہی عرصہ پہلے بے حد معیوب سمجھ جاتی تھیں۔ اب یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی سیاحت کا معاملہ عام ملکوں سے بالکل مختلف ہے لیکن خیر۔

ادھر ترکی کو بھی ہم بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اتاترک کا ترکی، اردوعان کا ترکی بنتا جا رہا ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسلامی دنیا میں بھی طاقت کے مراکز تبدیل ہونے کا سلسلہ ساتھ ہی شروع ہو گیا ہے۔

پاکستان کے معاملات امریکہ کے ساتھ بھی کم اچھے نہیں رہے۔ چین سے بھی خوب دوستی ہے۔ اسی طرح ترکی اور سعودیہ عرب کے معاملے میں بھی پاکستان دونوں ہی کشتیوں میں سوار نظر آتا ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کی ‘وورکنگ ریلیشن شپ’ بڑا عرصہ رہی مگر اب ترکی کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔

چین پاکستان کا قریبی دوست اور ہمسایہ ہے۔ جانے یہ پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے یا بد قسمتی کہ پہلے بھی دوسری سپر پاور، یعنی روس پاکستان ہی کے ہمسائے میں واقع تھی اور اب بھی ایسا ہے۔ سونے کی روز افزوں قیمتیں کچھ مخصوص حالات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

لیکن ان سب کے ساتھ سب سے زیادہ چونکا دینے والی خبر، پاکستان کا بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات رکھنے کی نئی حکمت عملی ہے۔ جو بھی ہوگا، سامنے آ جائے گا لیکن پوری دنیا کو بالعموم اور ہمارے خطے کو بالخصوص ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس بدلتی دنیا میں اس بار خود کو کیسے مستحکم کرے گا۔ اگر گزرے واقعات سے سبق لیا گیا تو غیر جانبداری ہی بہترین پالیسی ہے لیکن اس کی امید کم ہی ہے۔

کسی ان ہونے اور بظاہر نظر نہ آنے والے فائدے کے لیے پاکستان کی اشرافیہ یا سٹیبلشمنٹ اگر پچھلے ستر، بہتر برسوں جیسی ہی پالیسیاں بناتی رہی تو انجام بھی پہلے جیسا ہی ہو گا۔ تاریخ سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر اس بار بھی ہم نے سبق سیکھنے سے زیادہ ‘مزہ چکھانے’ کی پالیسی برقرار رکھی تو دنیا کے یہ بدلتے ہوئے حالات ہمیں کہاں لے جا کر چھوڑیں گے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).