وزیر زادے کی رسوائی


ہمیں تفویض کردہ کام غیر سرکاری تھا، خالصتاً۔ کام سونپنے والے سرکاری افسر بڑے تھے۔ اتنے بڑے کہ گریڈ بائیس میں منڈلاتے تھے۔ سب کی عزت کرتے تھے۔ کا م البتہ ناپ تول کر سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ شیریں گفتار ایسے کہ لگتا تھا جہانگیر ترین نے اپنا چینی کا اسٹاک مہنگا کرنے کے لیے ان کے گلے میں چھپا رکھا ہے۔ درخواست کرنی ہوتی تو ایرانی قالین بن جاتے تھے۔ حکم چلانا ہو تو حجاج بن یوسف کا سرائیکی ایڈیشن۔

ہمیں گھر پر خود فون کیا۔ ناشتے کی دعوت دی۔ یہ جان کر بھی کہ یہ وقت ہمارا لنچ کی فکر کرنے کا تھا۔ نرمیلی شرماہٹ سے کہنے لگے اچھا پھر دفتر آجائو۔ ان کے دفتر پہنچے تو Koffee with Karan کا سا تو ماحول نہ تھا۔ (اسٹار پلس کا ایک بے حد پر لطف پروگرام) نہ وہ دل عاشق کے سے سمٹے بلائوز اور اسکرٹ، نہ وہ غزنوی تڑپ والی مسکراہٹیں، نہ وہ اودھی دھانی ساڑھیاں اور کوندے لپکاتی انگریزی۔ نظر دوڑائی تو دفتر میں سامنے صوفے ایک فربہ اندام نوجوان بے زاری سے ڈھیر پڑا تھا۔ فرمانے لگے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کس کو بھیجوں پھر اظہار( پی اے صاحب) نے تمہا را نام لیا تمہاری انگریزی اچھی اور خود اعتمادی Suicidal ہے۔ تم یہ کام ضرور کرسکتے ہو۔

عامر، ہمارے جگری دوست وزیر صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ میں جب پنجاب میں پوسٹڈ تھا تو وزیر صاحب نے کبھی ویک اینڈ فارم ہائوس کے علاو ہ کہیں اور نہیں گزارنے دیا۔ ہماری فلموں سے لگاوٹ کو مد نظر رکھ کر سنانے لگے کہ وہ نرگس (انہیں والد صاحب سنیل دت یاد نہ رہے )کا لفنگا بیٹا بھی وہاں آکر رہا تھا۔ فارم ہائوس کے موج میلے اور مہمانداری دیکھ کرکے پاگل ہوگیا تھا۔ کام یہ تھا کہ وزیر زادے کو فلانے کونسلیٹ لے جائو۔ ویزہ درکار ہے۔ انشا اللہ اندر کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ باہر کے لیے میری ڈی آئی جی سے بات ہوگئی ہے اس نے ایس ایچ او سے سیٹ کر لیا ہے تمہیں لائین میں نہیں لگنا پڑے گا۔ وزیر صاحب نے اسلام آباد فارن آفس سے بھی فون کرا دیا ہے۔

شیکسپئر کے ایک ڈرامے ہیلمیٹ میں اس کا کردار Marcellus ایک ایسا جملہ کہتا ہے جو ان کے کے مشہور جملوں میں شمار ہوتا ہے

Something is rotten in the state of Denmark.

(ریاست ڈنمارک میں کوئی چیز سڑ رہی ہے)

ہمیں بھی ایسا ہی کچھ لگا۔ میں ایتھے تے، ڈھول کشمیر وے قسم کی گڑ بڑ، مرکزی وزیر، اسلام آباد، فارن آفس سے کراچی کونسلیٹ فون، وزیر صاحب خود بھی جنوبی پنجاب کے اس علاقے کے جو اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں۔ ہم نے بھی چوھدری شجاعت حسین کا شہرہ آفاق واحد قابل فہم مقولہ دل ہی دل میں دہرایا کہ سانوں کی۔ مٹی پائو۔ ہمیں اس پرانے خاک آلود شلغم جیسے بیٹے کو دیکھ کر لگا کہ وزیر صاحب سے یہاں کراچی میں کسی کے آستانہ پرلطف پر جوانی میں کوئی بھول ہوئی ہے جس کا ازالہ وہ اسے بیرون ملک بھیج کر کرنا چاہتے ہیں۔

دفتر سے باہر آئے تو افسر بااختیار کا پی۔ اے بھی کم بخت فارملین (وہ کیمیائی محلول جس میں مردہ جانور محفوظ کیے جاتے ہیں) میں بجھا بچھو تھا۔ باہر نکل کر ایک ہی سانس میں تین راز سرگوشیوں میں بتا گیا کہ بڑے صاحب انڈر ٹرانسفر ہیں۔ یہ ساری مہربانی اس لیے ہے کہ وزیر صاحب کے زیر انتظام ایک ادارے میں افسر عالی مقام کے اپنے بھائی کا پرموشن ڈیو ہے۔ تیسرا اور مہلک ترین راز یہ تھا کہ کچھ بچوں میں پیدائش کے وقت بہترین والدین کا انتخاب کرنے کی One Time صلاحیت بہت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ وزیر زادے کو بھی اسی گروپ میں رکھیں۔

طے شدہ انصرام کے مطابق ہمیں ویزہ ہال میں پہنچنے میں کوئی مشکل نہ ہوئی۔ چار عدد کھڑکیوں پر ویزہ عطا کرنے والوں کے پاس اردو انگریزی میں مدعا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹ پکڑے جانے پر کھل کر بے عزتی کی سہولت بھی میسر تھی۔

 نیلے boat- neck بلائوز میں ملبوس ایک گوری تو ایسی ہی تھی کہ لگتا تھا گھر سے کنری (تھر پارکر کا علاقہ جہاں کی مرچیں بہت عمدہ اور تیز ہوتی ہیں )کی مرچیں اور صافی کی پوری بوتل کے ساتھ گُٹھکا کر آئی ہے۔ ویزے کا ہر متمنی بلاوے پر اس کے پاس حاملہ عورت جیسے بوجھل قدم اٹھاکر بادل ناخواستہ پہنچتا تابڑ توڑ سوالات پر پہلے تو ہکلاتا ہشیار بننے کی کوشش میں جھوٹ بولتا اور ویزہ کے انکار کا سن کر زیر لب ماں بہن ایک کرتا ہوا چل پڑتا۔ ہم تا دیر تھرڈ ایمپائیر بنے جائزہ لیتے رہے۔ سوچتے رہے کہ اللہ نظر بد سے بچائے تلخ نوا نہ ہوتی تو جواں سال نہ ہوتے ہوئے بھی دل فریب لگتی۔ امڈی امڈی، شدت پسند، چھا جانے والی۔

وزیر زادے نے اعلان کیا کہ ہم اس کم بخت کے پاس نہیں جائیں گے۔ بہت بے عزتی کرتی ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ اس میں اپنی مرضی سے زیادہ کمپیوٹر کے ذریعے نکلنے والے نمبر کا د خل ہے۔ وہ اس کے بلاوے کی بلا ٹالنے کے لیے آیت کریمہ کا ورد کرنے لگا۔

اس آسودہ حال بچوکڑے کو ویزہ کی دیالو ایک پاکستانی نژاد خاتون کے لیے کی کھڑکی پر زیادہ احساس تحفظ و شائستگی محسوس ہوا۔ وہ بات بھی بالکل شاہ محمود کی طرح امرائو جان کے لہجے میں کرتی تھی مگر معاملے کو سو موٹو کی طرح سسی بنا کر تھل کے صحرا میں رول دیتی تھی۔ باری کا انتظار جاری تھا  کہ ایک قیامت ہوئی بیدار خدا خیر کرے، آئی زنجیر کی جھنکار خدا خیر کرے قسم کا ماحول پیدا ہوا۔ ایک نوجوان سفید شلوار قمیص، پیروں میں اسفنج کی نیلی ہوائی چپل اور پاکستان کے ایک مشہور عالم دین کے نام پر اشرفی برانڈ آٹے کی خالی تھیلی جس میں ضروری کاغذات اُڑسے ہوئے تھے ہاتھوں میں تھامے بلا کی خود اعتمادی سے داخل ہوا۔

اللہ نہ کرے آپ کبھی غریب رہے ہوں تو آپ کو بھی یہ چمتکار ضرور آتا ہوگا کہ بہت سے مرد آستین کے کف میلے ہونے سے بچانے کے لیے انہیں اوپر کی جانب موڑ لیتے ہیں۔ اسے دیکھ کر وزیر زادے نے جو لفظ استعمال کیا وہ انگریز وں کے زمانے میں بنگال کی ایک چھوٹی ذات کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر کراچی میں انتہائی احمق کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔

وزیر زادے کا خیال تھا کہ یہ اس کا وہی حال کریں گی جو اسد عمر کے کاندھے پر بیٹھ کر ڈالر نے پاکستانی روپے کا کیا ہے۔ وہ نوجوان ہال میں داخل ہوکر اپنی جگہ ایسے رک گیا کہ جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ، نہ عجلت، نہ کوئی چنتا، سپاٹ چہرہ، دنیا کو بے اعتباری سے دیکھتی Geek (کمپیوٹر کے دھتی ماہر نوجوان) آنکھیں۔

وہ انگارہ دہن ایک بڑی بی کو ویزہ دے کر فارغ ہوئی تو اس ظالم عورت کی نگاہ اس پر پڑگئی۔ وہیں سے مسٹر سعید کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ اومانی بدو عورتوں کے چمڑے جیسے نقاب والی شیشے کی کھڑکی کھینچ کر پرے کی اور جھک تقریباً آدھی باہر کی جانب جھک گئی۔ اہل نظر نے تب پہلی دفعہ دیکھا کہ سلطنت برطانیہ کے کچھ حصے اب بھی ایسے ہیں جہاں سورج غروب نہیں ہوتے۔ اپنا رس ملائی جیسا ٹھنڈا، اُجلا ہاتھ اس کی جانب بڑھا دیا۔ مسٹر سعید نے وہ ہاتھ یوں تھاما کہ جانو وہ کوئی ید بیضا نہ تھا بلکہ دھلائی کی پرانی رسید جو پرس میں کہیں اتفاقاً برآمد ہوئی ہو۔

بریشم کی طرح نرمی اختیار کرکے کہنے لگی کہ ہم چار دن سے آپ کے منتظر تھے۔ اس بڑے لفافے میں تین لفافے ہیں۔ ایک میں یونیورسٹی کے کاغذات، دوسرے میں ٹکٹ اور تیسرے میں سفری اخراجات ہیں۔ ایک ٹوکن بھی ہے جو آپ کو یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ اگر آپ زمینی یا سمندری راستے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں تو کسی سرحدی چوکی پر آپ کو مشکل نہیں پیش آئے گی۔

مسٹر سعید نے کسی خصوصی جذبات کا اظہار کیے جب واپسی کے قدم لیے تو وزیر کا بیٹا کہنے لگا کہ اللہ میاں کی قدرت دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوتی ہے کہ’’ وہ کیسے کیسے لوگوں پر بلاوجہ مہربان ہوجاتا ہے اور کیسے کیسے اعلیٰ خاندان کے بچوں کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے‘‘۔

اس دوران اسی بت سنگ دل کے سامنے پیش ہونے کی پکار سنائی دی تو وزیر بچے نے میری آستین ایسے کھینچ کر تھام لی جیسے چھوٹے بچے کسی غریب بستی کے کلینک میں بھوتنی جیسی نرس کے ہاتھ میں سرنج دیکھ کر ماں کے دامن کو تھام لیتے ہیں۔

 اس نے پہلے ہمارا پوچھا کہ کون ہے رے تو؟ ہم نے وزیر زادے کی طرف اشارہ کرکے انگریزی میں کہا کہOn His Majesty   Service  تو نرم سی، کومل مسکراہٹ لبوں پر بکھیر کر کہنے لگی Poor you۔ نوجوان رعنا کا پاسپورٹ دیکھ کر کمپیوٹر پر نگاہ ڈالی اور آخری صحفے پر پہنچ کر بغور دیکھا۔ وہاں ایک چھوٹی سی مہر کے درمیان میں مقام درخواست، نمبر، تاریخ اور Rejected  لکھا تھا۔ تائو کھا گئی کہنے لگی تم ہمیں اپنی طرح بے وقوف سمجھتے ہو۔ دو ہفتے پہلے تمہارا کیس اسلام آباد میں پیش ہوا تھا۔ اب کی دفعہ میں سامنے بڑی سی مہر لگا دیتی ہوں تاکہ تمہارا دماغ درست ہوجائے۔

اس نے مہر نکالی تو ہم نے کہا  Wait بین الاقوامی قانون کے حساب سے آپ اس پر صرف ویزہ لگا سکتی ہیں اور آپ کی امیگریشن اتھارٹی برائے ریکارڈ و تصدیق دخول اور خروج کی مہر۔ یہ پاسپورٹ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ملکیت ہے۔ دیگر ممالک کی دسترس کا دائرہ کار محدود ہے۔ ان کے والد وزیر ہیں اگر آپ نے اس پر کوئی مہر لگائی تو ہم وزارت خارجہ کے ذریعے آپ کے فارن آفس سے معاملہ اٹھائیں گے۔ اس نے ہمیں گھور کر دیکھا اور پاسپورٹ بغیر مہر کے لوٹا دیا۔ ساتھ ہی مائیک پر Next کا نعرہ گونجا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا اس سلسلے میں ہمارا ڈپٹی ہائی کمشنر سے ملنا سود مند ہوگا تو کہنے لگی کہ ’’بغیر نمبر اور فیس کے آپ کا کیس انہیں کی مہربانی اورمداخلت پر Take -up ہوا ہے۔ وہ ہمارے ملک کی وزارت داخلہ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ وہ کیا ہمارے وزیر اعظم جان میجر بھی ہماری وزارت داخلہ کی منظوری کے بغیر ویزہ نہیں دے سکتے۔ ہمیں ایک ویزہ کلرک کی یہ جسارت اور خود اعتمادی ہمیں بالکل ایسے ہی پانی پانی کرگئی جیسے قلندر کی بات علامہ اقبال کو گاہے گاہے کرتی رہتی تھی کہ

تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ تن تیرا نہ من

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments