نیب کا زنبور اور ٹین کے سیاستدان


پرویز مشرف سے قبل جتنے بھی خاکی یا سفید آمر اقتدار میں آئے یا لائے گئے، سب کا خواب تھا کہ کسی طرح اپوزیشن قابو میں آجائے یا پھر بغیر ڈنک کے بچھو کی طرح زندہ رہے۔

اس مقصد کے لیے ہر آمر کو دھونس، ترغیب، دیوانی و فوجداری قوانین کے اندھا دھند استعمال، قومی سلامتی سے متعلق ضابطوں اور ڈراوے سمیت ہر حربہ استعمال کرنا پڑتا تھا۔ مگر اپوزیشن ان سب پھندوں سے خود کو کچھ عرصے میں چھڑوا لیتی اور پھر سے ناک کے گرد بھنبھنانے والی مکھی ہو جاتی۔

بھلا ہو پرویز مشرف کا جس نے خاکی و نوری اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کو آہنی و دائمی بنانے کے لیے نیب کا شکنجہ تیار کیا۔ 19 نومبر 1999 سے آج تک جس طرح نیب حسبِ ضرورت محمود و ایاز کو ایک صف میں یا ایک صفحے پر لانے میں حسبِ ضرورت کامیاب ہوا۔ ماضی کا کوئی ادارہ یا ایجنسی اتنے موثر ثابت نہیں ہو سکے۔

شاید آپ کو یاد ہو سنہ 2000 میں نیب نے گجرات کے چوہدری برادران کے خلاف معلوم ذرائع سے زائد اثاثے جمع کرنے کی انکوائری شروع کی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ق پیدا ہوئی اور چوہدری برادران بادشاہ کی ناک کا بال ہو گئے۔ نیا سیٹ اپ جمانے کے لیے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا پیوند بھی لگایا گیا۔

ساتھ ہی ساتھ نونیوں اور پپلیوں کو اقتدار کی مٹھائی پر بھنبھنانے سے روکنے کے لیے خود ساختہ جلا وطنی کا دباؤ، ریفرنس پر ریفرنس، انکوائری در انکوائری۔ گویا معصوم اسٹیبلشمنٹ کو لگ بھگ تیس چالیس برس بعد اچانک سے پتا چلا کہ اوہو بھٹو خاندان، شریف خاندان اور ان کے خوشہ چین اتنے سال سے اتنی کرپشن اور کالا دھن سفید کر رہے ہیں۔

قصہ مختصر اسلام آباد اور لاہور کی خدائی چوہدریوں کے حوالے ہو گئی۔

بدلے میں چوہدری برادران نے نہ صرف پارلیمانی فلمی سیٹ پر آمریت کو شیروانی پہنائی بلکہ یہ بھی کہا کہ حضور دس بار بھی وردی میں صدر بننا چاہیں تو ہم دس بار صدر بنائیں گے۔ اس پارلیمانی فلمی سیٹ پر پس منظر موسیقی متحدہ مجلسِ عمل کی پاکٹ یونین کے پوتر سازندوں نے مہیا کی۔

مشرف کے زوال کے بعد بظاہر چوہدریوں کو بھی سیاسی گوشہ نشینی سہنا پڑی۔ مگر سونا بھلے شو کیس میں رکھا جائے یا الماری میں بند پوٹلی میں، اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

چنانچہ جولائی 2018 میں جو نیا عمرانی سیٹ اپ وجود میں آیا، اس میں ایک بار پھر جڑاؤ نگینہ کاری میں طاق چوہدریوں کی ضرورت پڑی۔ چھوٹے چوہدری صاحب پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے، ان کے صاحبزادے پیڈ باندھ کر پویلین میں بیٹھے اور بڑے چوہدری صاحب خاندانی سیاسی سرپرستوں کی صف میں بٹھائے گئے۔

اس سب مہارت و خدمت گزاری کے باوجود چوہدریوں کے خلاف نیب کا 20 سال پرانا ریفرنس ختم نہیں ہوا۔ بلکہ ایک آدھ ماہ پہلے انھوں نے کسمسانے اور سودے بازی کی کوشش کی اور اسی دوران لاہور ہائی کورٹ کو ریفرنس ختم کرنے کی درخواست دی تو نیب نے درگزر کے بجائے عدالت کو بتایا کہ انیس سو پچاسی سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران چوہدری خاندان کے اثاثوں کی مالیت میں لگ بھگ آٹھ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ نیز منی لانڈرنگ کے الزامات کی بھی چھان بین جاری ہے۔

اس سماعت کے بعد چوہدری برادران ایک بار پھر مناسب موقع کے انتظار میں ٹھنڈے پڑ گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پہلے سے کہیں سیانی ہو گئی ہے اور تجربے نے یہ سکھا دیا ہے کہ دوستوں کو دوست رکھنے کے لیے بھی لگام کھینچ کے رکھنا پڑتی ہے۔

پرویز مشرف

اب کچھ ذکر ہماری ٹین (جست) کی بنی اپوزیشن کا۔

ٹین بہت زیادہ وزن تو نہیں سہہ پاتا البتہ بجتا خوب ہے۔ اس وقت اپوزیشن کا رتھ دو جستی گھوڑے کھینچ رہے ہیں۔ یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن۔

کیا وجہ ہے کہ جس پیپلز پارٹی سے ضیا الحق کی نیندیں حرام رہتی تھی۔ وہی پیپلز پارٹی آج بھرواں بھالو (سٹفڈ ٹوائے) بن چکی ہے۔

وجہ شاید یہ ہے کہ ضیا الحق تمام تر کوششوں کے باوجود پارٹی قیادت پر کرپشن کے کیسز نہیں بنا پایا لہذا لڑنے کے لیے پارٹی کے دونوں ہاتھ کھلے تھے۔

آج کی پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اگرچہ موروثی ہے مگر جیالا غائب ہے۔ قیادت کرپشن ریفرینسز کے رسوں سے جکڑی ہوئی ہے۔ اور یہ سب رسے محض سیاسی انتقام کے سوت سے تیار نہیں ہوئے بلکہ ان میں سے بہت سے اصلی تالہ مارکہ ہیں۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو گلا گھونٹ کر ختم کرنا چاہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بس یہ چاہتی ہے کہ جیسا بھی جمہوری شو چل رہا ہے اس میں پیپلز پارٹی صرف دی گئی لائنیں پڑھے اور اپنی طرف سے سکرپٹ میں کوئی بقراطی نہ دکھائے۔

تھیٹر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر بھلے وہ جس کو جتنی چاہے گالیاں دے مگر جب ہال میں پرفارمنس کا وقت آئے تو صرف کیریکٹر پر دھیان دے۔

کچھ اسی طرح کا بندو بست مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ اب بار بار تو جدہ جلا وطنی ماڈل نہیں دھرایا جا سکتا۔ چنانچہ نیب ریفرینسز ہماری بقا کے لیے ضروری ہیں اور گرجنا برسنا تمہاری بقا کے لیے۔

مگر جب بھی پارلیمان میں اہم قومی معاملات پر ووٹنگ کا وقت آئے تو وی آئی پی گیلری سے ہونے والے اشارے کو فالو کرنا ہے۔

جب تک یہ غیر اعلانیہ انڈر سٹینڈنگ برقرار رہے گی تب تک میاں صاحب اطمینان سے آکسفورڈ سرکس کی بغلی گلیوں میں چہل قدمی کرتے رہیں گے۔ پھرتیاں دکھانے کی بھی اجازت ہے مگر ایک حد میں۔ جب ’ووٹ کو عزت‘ دینے کی ضرورت محسوس ہو گی تب آپ سے بھی باعزت رجوع کر لیں گے۔

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر

مذہبِ نیب اختیار کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).