جنس تبدیل کرنے والی اولاد اور باپ کے درمیان مکالمہ


 ”ہائی کڈ، میں ہوں ‌ تمہارا باپ۔ میں شام کو تمہیں کال کروں گا۔ مجھے ابھی ابھی تمہارا نمبر ملا ہے۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں“۔

 ”اوہ واؤ، آخر کار تم جان گئے کیا کہ تمہارا کوئی بچہ ہے؟ تم ایک خوش قسمت انسان ہو کہ میں دو برس پہلے تب مر نہیں گئی تھی جب مجھے فالج ہوا تھا جس نے میری ساری زندگی برباد کر دی“۔

 ” تم میرے چھ بچوں میں سے ایک ہو۔ میں بھلا تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میں کبھی نہیں بھولا۔ میں ہر سال تمہیں سالگرہ کی مبارک باد کے لیے ای کارڈ بھیجتا رہا جو مجھے لوٹ آتے تھے۔ میرے پاس کوئی فون نمبر نہیں تھا۔ تاحتٰی میں نے تو ٹی وی پروگرام“ انتظار کیجے ”کو بھی لکھا۔ بالآخر مجھے فیس بک پر تمہارا ماموں مل گیا جس نے مہربانی کی اور تمہارا نمبر دیا۔ مجھے تمہاری مرض بارے سن کر گہرا صدمہ ہوا اور میں بہت بے چین ہوں۔ تم اب کیسی ہو؟ کیا فالج کے اثرات اب بھی ہیں یا کم پڑ گئے ہیں؟

میرے فون کی بیٹری تمام ہو رہی ہے۔ چارج کر لوں تو تم سے بات کرتا ہوں ”۔

 ” تم نے کارڈ کہاں بھیجے تھے۔ میں اب نانی کے ہاں نہیں رہتی۔ اور تمہارے پاس تو ماما کا نمبر تھا، تم نے اسے کال کیوں نہیں کی؟ اور ہاں، برسبیل تذکرہ، میں اپنا نام بدل چکی ہوں، اور صرف نام ہی نہیں بلکہ مستقبل کے لیے بہت کچھ۔ پرانا نام میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ تو بات یہ ہے کہ میں اب معذور ہوں۔ البتہ جیسے پہلے تھی اس سے کافی بہتر ہوں۔ سرجن نے میرے دماغ کی دو غیر متعلقہ وریدوں کو نقصان پہنچا دیا تھا اور میرے دماغ کے بائیں حصے کو 30 منٹ خون نہیں ملا تھا۔ یہ مرض نہیں بلکہ کرب ہے۔ میں نیم نابینا ہوں، اس طرح بہتر تصویر کشی نہیں کر پاتی جیسے پہلے کیا کرتی تھی۔ وائلن نہیں بجا سکتی۔

فالج سے پیشتر میں گہری یاسیت کی شکار رہی اور میں نے خود کو مار دینے کی بارہا کوشش کی۔ مجھے وہم آ گھیرتے تھے۔ میری زندگی مشکل تھی۔ ہمارے پاس علاج کے لیے کافی رقم نہیں تھی۔ میرے دوست مجھے چھوڑ گئے۔ صرف اب میں کچھ بہتر محسوس کرنے لگی ہوں ”۔

 ”میرے پاس تمہاری ماں کا نمبر تھا مگر مجھ سے وہ فون سیٹ کھو گیا جس میں نمبر محفوظ تھا۔ میں کربناک اذیت میں۔ جب تم آن لائن ہو تو مجھے کال کرنا۔ تمہیں اللہ کا واسطہ“۔

باپ نے فون کیا تو جواب ملا، ”میں ٹریننگ کر رہی ہوں۔ اگر چاہتے ہو تو مجھے ایک گھنٹے بعد کال کرو۔ بہتر ہوگا وڈیو کے بغیر۔ ۔ ۔ ۔ البتہ اگر دیکھنا چاہتے ہو کہ میں کیسی دکھتی ہوں تو میں اپنی تصویریں بھیج دوں گی“۔

 ”کیا میں کال کر سکتا ہوں؟ “

 ”اوکے! “

باپ نے مردانہ آواز سن کے پوچھا، ”کیا تم نے اپنی جنس تبدیل کر لی؟ “

 ” جنس نہیں کہتے آج کل جینڈر کہتے ہیں، ہاں میں اب آئینہ نہیں اردژ ہوں“

 ” تمہارے چھوٹے بہن بھائی تمہیں سن رہے ہیں“۔

 ” میں ان کو اپنے بہن بھائی تصور نہیں کر پاتی، خیر میری طرف سے انہیں ہائی بول دو“

 ” کیا تم میرے انٹرنیٹ کا بیلنس کروا سکتے ہو، پلیز؟ “

 ” تم تصاویر میں بالکل مجھ ایسے ہو اردژ۔ یقینا“ میں بیلنس بھر سکتا ہوں مگر کیسے؟ ”۔

 ” انٹرنیٹ کے ذریعے، ایل او ایل۔ میرے پاس ایک ہفتے سے انٹرنیٹ نہیں ہے اور میں اپنا کام نہیں کر سکتا“

 ” کتنی رقم؟ انٹرنیٹ کے ذریعے کیسے؟ تم دوسرے ملک میں ہو، کیا فون کرکے بتا سکتے ہو؟ “

 ” کیوی ویزا ویلیٹ سے جمع کروا دو“

 ” میں الیکٹرونک بینک سے استفادہ نہیں کرتا۔ خیر میں تمہیں دس ہزار بھیج رہا ہوں مگر دو گھنٹے بعد“۔

 ” شکریہ“۔

 ” کوئی بات نہیں۔ مگر خیال رکھنا۔ ہارمون لینا نقصان دہ ہوتا ہے“۔

 ” میں تمام خطرات سے آگاہ ہوں اور یہ میں ڈاکٹروں کی زیر نگرانی کروں گا۔ ماما بھی ڈاکٹر ہے“۔

 ”گڈ لک“

 ” شکریہ“

 ” میری بیوی نازیہ نے بینک کے تین چکر کاٹے۔ رقم بھیجنے کی کوئی راہ نہیں نکلی۔ اس نے“ گولڈن کراؤن ”منی ٹرانسفر کے ذریعے دس ہزار بھجوا دیے۔ کمیشن کاٹنے کے بعد تمہیں 9850 ملیں گے۔

جب تمہیں وقت ملے تو مجھے لکھو کہ اگر تم اعضاء کے کسی نقص کے بغیر مکمل لڑکی تھیں تو تمہیں کیا بات صنف کی تبدیلی کی جانب لے گئی؟ ”۔

 ”میں بالکل پریشان نہیں ہوں۔ مجھے تمہاری صحت درکار ہے۔ تاہم اس نوع کے رجحان کی اپنی نفسیاتی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ باہمت رہو۔ کوشش کرو کہ ایک کامیاب انسان بن سکو“۔

 ” ٹھیک ہے۔ بہرحال یہ تمہارا اپنا فیصلہ تھا۔ میں نے تو انٹرنیٹ کے لیے صرف ایک ہزار مانگے تھے، شکریہ۔ اور ہاں میرا مشورہ ہے کہ ڈک سویب کو پڑھ لیں۔ ہم سب اپنے دماغ ہیں۔ لوگ صنف کی تبدیلی اعضائے تولید کے سبب نہیں کرتے۔ یہ دماغ کی ایک خصوصی بناوٹ ہے۔ یہ کسی خاتون کے دوران حمل بننا شروع ہوتا ہے جب ابھی بچہ پورا بنا نہیں ہوتا، پیدا ہونا تو دور کی بات۔ آخر کار انسان اپنے اصل وجود سے تو انکاری نہیں ہو سکتا۔

 اس نوع کی دماغی ساخت والے افراد کو گہری یاسیت، وجود کی نفی اور تقدیر کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہو سکتا ہے اگر ایسے بچے کی ماں دوران حمل ذہنی دباؤ کا شکار رہے۔ دماغ میں نیورونز کا ارتباط حمل کے ساتویں سے نویں مہینے میں ہوتا ہے جب بچے کا بدن مکمل بن چکا ہوتا ہے۔ اس ارتباط میں گڑ بڑ بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی بچہ اس طرز ارتباط کو بدل نہیں سکتا یا اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ یہ دماغ کا معاملہ ہوتا ہے۔

 میری ماں اپنے والدین، بہن بھائی اور بلاشبہ تمہاری وجہ سے دوران حمل بہت ذہنی دباؤ میں تھی۔ میری ماں نے مجھے قبل از وقت جنم دیا، اس کا بھی کچھ تو اثر ہوا ہوگا۔ پھر تمہاری آرزو بھی اثر پذیر ہوئی ہوگی۔ ماما کو بیٹی کی خواہش تھی اور تم بیٹے کی پیدائش کے خواہاں، اس طرح بچے کی ماں کی نفسیات متاثر ہوتی ہے۔ جنین عورت کے بدن کے ساتھ، اس کے دماغ کے ساتھ، اس کی آرزووں کے ساتھ، مضبوطی سے پیوست و وابستہ ہوتا ہے۔ میں جو ہوں، اس میں میری کوئی رضا ہے نہ میرا کوئی فیصلہ۔ میں ایک مناسب عام فرد ہونے کا خواب دیکھتا ہوں۔ لیکن قدرت میں بھی تو کئی کمیاں ہوتی ہیں ِ۔

مجھ میں کچھ درست نہیں بنا۔ یہ موروثی معاملہ ہوگا۔ ماما نے بتایا تھا کہ تمہارے خاندان کے کچھ لوگ فالج کی وجہ سے مرے۔

اگر یہ درست ہے تو اپنے دوسرے بچوں کا بھی معائنہ کروا لو تاکہ مجھ ایسے معاملے کے خطرے سے بچا جا سکے۔ ”

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments