پانچواں سوار: زبان، ادب، نصاب اور ہم


”کلمہ پڑھ پنڈتا۔“ اور داؤ جی آہستہ سے بولے : ”کون سا؟“ رانو نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے گرتے بچے۔ ۔ ۔ ”سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں۔“ ”کلمہ پڑھ چکے تو رانو نے اپنی لاٹھی ان کے ہاتھوں میں تھما کر کہا۔“ ”چل بکریاں تیرا انتظار کرتی ہیں۔“ اور ننگے سر داؤ جی بکریوں کے پیچھے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے لمبے بالوں والا فریدا چل رہا ہو! ”اشفاق احمد کے افسانے گڈریا کے یہ آخری مکالماتی جملے اپنے متنی سیاق و سباق میں قطب نما کی حثییت رکھتے ہیں۔ اس فطری بیانیے میں ایسے لاتعداد راہنما استعارے موجود ہیں جو متوازن رویوں کی بازیافت میں معاون ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے“ ناصح تجھے آتے نہیں آداب نصیحت ”

پرچار انسانی سرشت کے خلاف ہے۔ انسان کی پہلی جڑت فطرت کے ساتھ ہے۔ اس لیے جو فطرت کے مطابق ہوگا، اسے وہ قبول کرے گا۔ بچے ان کہانیوں کو بڑی رغبت اور دلچسپی سے سنتے اور پڑھتے ہیں جن میں ان کی معصوم فطرت کے رنگ ہوتے ہیں مثلاً پھول، تتلیاں، پرندے اور تجسس سے پر بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں، دیوؤں اور پریوں کے کردار۔ عمر اور تجربے کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت اٹل ہے کہ کسی مخصوص پرچار پر استوار ادب، نصاب کا حصہ بن کر اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔

زبان و ادب کے نصاب کا انتخاب جتنا انسانی فطری کے قریب ہوگا، اتنی ہی طلبہ کی دلچسپی برقرار رہے گی اور وہ تخلیق میں موجود امکانی مفاہیم سے اپنے تخیل کو متحرک رکھنے کا سلیقہ سیکھیں گے۔ یقیناً تخیل متحرک ہوگا تو لفظ کی لغوی حثییت کے روبرو جہان معانی کے نئے در کھلیں گے۔ قارئین یہ سمجھنے کے اہل ہوں گے کہ داستان میں جس دیو کی جان سبز توتے میں ہے، اس کے بین السطور مفاہیم کی دیگر پرتیں کیا ہیں؟ اور غالب کے اس طرح کے مصرعوں کی تفہیم ”ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم“ کے کتنے امکانات ادراک کے پردے پر جھلملا رہے ہیں۔ ادبی مطالب کو سمجھنے کا یہ انداز قاری کی ذہنی بلوغت کا، وہ مرحلہ ہے جو اس کے ذہن سے زبان کی صرفی و نحوی الجھنوں کو رفع کر دیتا ہے اور وہ براہ راست، غیر محسوس انداز میں متعلقہ فن پارے کی لسانیاتی اکائیوں کے ساتھ، تخلیقی سفر میں شامل ہوجاتا ہے۔

زبان جب ابلاغی سطح پر باثروت ہوتی ہے تو اس کی طاقت کا ظہور ادبی تخلیقات میں ہوتا ہے۔ اس لیے اگر زبان سیکھانا مقصود ہے تو جہاں اس امر کے لیے اور بہت سے عوامل درکار ہیں وہاں یہ بھی اہم ہے کہ ایسے تخلیقی شہپاروں کا انتخاب کیا جائے جو طلبہ کی ذہنی بلوغت، ضرورت اور دلچسپی کے مطابق ہوں۔ ایسے انتخاب کے دوران میں یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ موضوعات کی تکرار اور بے جا تنوع سے آموزش بڑھتی نہیں کم ہوتی ہے۔

کم ازکم انٹر تک، جہاں طلبہ نے اور مضامین کے ساتھ بھی نبھا کرنا ہوتا ہے۔ زبان کی تدریس سے متعلق نصاب کی کامیابی کا مدار ضرورت کے ساتھ ساتھ طلبہ کی دلچسی کے برقرار رہنے پر بھی ہے۔ ورنہ عدم دلچسپی کے عناصر دوسرے مضامین کے مقابلے میں زبان کی تدریس کو غیر اہم کر دیں گے۔ موجودہ دور میں علوم کی گہما گہمی نے ہمیں یہ باور کرا دیا ہے کہ تعلیم کے بازار میں ”پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا“ ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اردو انٹر کے نصاب (سال اول اور دوم ) میں وہ اسباق بھی شامل ہیں جو طلبہ کے دیگر لازمی مضامین کا ضروری حصہ ہیں۔ ہر موضوع کا اصل مقام وہ مضمون ہوتا ہے جس سے وہ متعلق ہو۔ اس طرح نہ صرف موضوع کی افادیت بڑھتی بلکہ اس مخصوص مضمون کا ماہر اس کے مندجارت کی وضاحت زیادہ بہتر انداز میں کرتا ہے اور طلبہ بے جا تکرار سے بچ جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ موضوعاتی تکرار اور پرچار سے دور ; معیاری ادب، طلبہ کے فطری میلان کو مہمیز کرتا ہے۔ طلبہ کی رغبت برقرار رہے گی تو وہ زبان و ادب سے جڑے رہیں گے۔ نہیں تو ”اور بھی دکھ ہیں زمانے میں۔ ۔ ۔“

پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا مرتب کردہ انٹر (سال اول اور دوم) کا اردو اور انگلش کا نصاب، موضوعات کی تکرار، بھرمار اور پرچار کی مضحکہ خیز داستان ہے۔ غلام عباس کے افسانے اورکوٹ کے ایک مختصر اور بے ضرر حصے کو اردو کے نصاب میں سنسر کرنے کے بعد شامل کیا گیا ہے جبکہ انگلش میں اسے بغیر سنسر کے من عن دوہرا دیا گیا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا حال انگریزی کے نصاب میں شامل احمد ندیم قاسمی کے افسانے ”الحمدللہ“ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اساتذہ طلبہ کو اس امر کی معقولیت کے متعلق کیا جواب دیں؟

تراجم کی افادیت سے انکار نہیں لیکن (انٹر سال اول) انگلش کے نصاب میں اردو کے دو افسانے اور تقریباً سات نظمیں اور رباعیات دیگر زبانوں سے ترجمہ شدہ ہیں۔ شاید روحانیت کے فروغ کے لیے انھیں نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انگریزی ادب اس قدر تنگ دامن ہو چکا ہے کہ اردو، فارسی اور دیگر زبانوں کے شعرا اور مصنفین کی تخلیقات کے تراجم انٹر سال اول کے نصاب میں شامل ہیں؟ یا اور وجوہات ہیں؟ زبان جس تہذیب و تمدن سے تعلق رکھتی ہے اسی کے روزمرہ اور ثقافت سے جڑے پس منظر سے مضامین ہوں تو زبان کے صحیح تخلیقی جوہر سے آگاہی ملتی ہے۔ ترجمہ میں بہت کچھ ہوتا ہے لیکن وہ بہترین ہونے کے باوجود اصل سے کئی قدم پیچھے ہوتا ہے۔ اگر انٹر لیول پر تراجم شامل کرنا اتنا ہی ناگزیر ہے تو پھر اردو کے نصاب میں بھی ایک آدھ سے زیادہ عالمی کلاسیکی سے ترجمہ شدہ تحریریں شامل کیجیے۔ تاکہ نصاب کی تشکیل کا کوئی معیار تو سامنے آئے۔

بہر کیف اگر کسی زبان و ادب کے نصاب کی تشکیل سے قبل، مرتبین نصاب، طلبہ کے فطری رجحانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے ادبی فن پاروں کا انتخاب کریں جن سے طلبہ کی دلچسپی بحال رہے تو زبان و ادب کی تدریس معلم اورتعلم دونوں کے لیے ایک بھرپور تخلیقی سرگرمی بن سکتی ہے۔ لیکن عموماً نصاب کی ترتیب و تشکیل کے تمام مراحل ”بزم مرتبین“ میں حکم نامے کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ اس لیے ”جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا“ ۔

اب رہے والدین ; وہ کیا کریں؟ روٹی، فیس یا نصاب۔ ۔ ۔ اور اساتذہ؟ انھیں اکیڈمیوں میں بھی جانا ہے۔ باقی رہ گئے عوامی نمائندگان ;وہ بچارے بل یا ایکٹ پر دستخط کرنے سے زیادہ اور کیا کر سکتے ہیں؟ معصوم جانوروں کی بابت کیا کہیے وہ تو چڑیا گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ ان حالات میں کون سے نئے چراغ جلیں گے؟ ”جبکہ“ قاتل ہی میرا منصف ہے ”۔ بہرحال ہم کچھ اور بنے نہ بنے ; پانچواں سوار ضرور بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments