جا چھوڑ دے میری وادی


پچھلے سال ہندوستا ن نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے مقبوضہ کشمیمر کو باقاعدہ ہندوستان میں شامل کرنے کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے انتہائی جارحانہ قدم آٹھایا۔ بعد ازاں، طویل لاک ڈاؤن اور جبر کی جو نئی داستانیں رقم ہوئیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ پانچ اگست کو اس جارحیت اور بربریت کا ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ اور باقی دنیا کا اس معاملہ میں کردار خلاف توقع نہیں تھا۔ لہٰذا ایک سال مکمل ہونے پر کہیں کہیں کوئی رسمی سا احتجاج اور گھسا پٹا مذمتی بیان نظر آ جائیں تو نہ تعجب ہونا چاہیے نہ خوش فہمی۔

لیکن ہم باقی دنیا کی طرح بے حس اور مفاد پرست نہیں۔ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ ہم اپنے نہتے کشمیری بہن، بھائیوں کو اکیلا کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ لہٰذا، ہم نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ہندوستان کو منہ توڑ جواب دیا اور پانچ اگست کو ”یوم استحصال“ قرار دے کر آئی ایس پی آر نے فوراً ایک نغمہ ریلیز کرکے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ جا چھوڑ دے میری وادی/ ہم چیخیں گے آزادی۔

نغمہ کے الفاظ، الفاظ نہیں شعلہ ہیں جو کانوں سے ہوتے سیدھے دل کی شریانوں میں بہتے لہو کا درجہ حرارت گرم کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ وژولز ایسے معنی خیز اور مقصد آفریں کہ مرد ناداں ہو یا مرد مردہ ضمیر، اپنی سنگ صفت خشک آنکھوں کو چشم نم بننے سے نہ روک پائے۔ شفقت امانت علی اپنے فن کے ماہر تو ہیں ہی لیکن اس نغمہ میں جس جذبہ حب الوطنی کے ساتھ انہوں نے تان لگائی اگر آج تان سین بھی زندہ ہوتا تو اگلے دن مائیگریشن سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں لیے نادرا کے دفتر کے باہر قطار میں کھڑا نظر آتا۔

خیر سے اس نئے بزنس وینچر میں مووی پروڈکشن کے ذریعے ذہن سازی کے فکری ایڈوینچر کا کام تو کافی عرصہ پہلے شروع کیا گیا تھا جس کو شان شاہد جیسے تجربہ کار اداکار بھی وار اور یلغار جیسی موویز میں فقط دیر ہضم ڈائیلاگز کی بنیاد پر متوقع کامیابی سے ہمکنار نہ کرواسکے۔ تاہم اس بزنس وینچر کی نشاط ثانیہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے کے لیے دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے عزم کا اظہار نغموں کے ذریعے کیا جانے لگا۔ بعد ازاں، ہر بڑے سانحے پر عوام کے زخموں کی اندمالی نغموں و ترانوں سے کی گئی۔ پروردگار! ظلم پر پرچم نگوں کیا/ ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر نغمہ سازی کا یہ کام بھی فقط کاروباری مقاصد اور عوام کی نظر میں امیج بلڈنگ کے لیے ہے تو چلیں کوئی بات نہیں، آج کل یہی جنس بازار میں بکتی ہے۔ لیکن اگر اس سے نظریاتی نتائج کا حصول اور سرحد پار اپنا موقف منوانا مقصود ہے تو پھر دیکھ لجیے کہ جب ہندوستان کثیر وسائل کی حامل بالی ووڈ جیسی مضبوط صنعت کو استعمال کرکے اور بارڈر اور سرفروش جیسی موویز بنا کر ہمیں اپنے موقف کا حامی نہیں بنا سکا تو ہم اپنا دفاعی بجٹ نغموں پر صرف کرکے کیا حاصل کر پائیں گے؟

نغموں اور ترانوں کی اس دلکش دنیا سے باہر آکر عملی طور پر دیکھا جائے تو حقیقت کا آفتاب ذہن سازی کی ہر بچگانہ کوشش کو اپنی تمازت سے جھلسا کر حقیقت پسندانہ و مربوط لائحہ عمل کی چھتری تلے آنے کا مشورہ دیتا دکھائی دیتا ہے۔

بیشتر ممالک ہندوستان کے جارحانہ قدم پر پہلے ہی چپ سادھ چکے تھے، جو کہ کشمیر پر ہندوستان کے جبری استحقاق کو تسلیم کیے جانے کا واضح اشارہ تھا۔ رہی سہی کسر کورونا کے باعث معاشی تباہ کاریوں نے پوری کردی۔ ہر چھوٹا اور بڑا ملک کورونا سے نمٹنے اور پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی سطح پر کسی شنوائی کی توقع رکھنا دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ پچھلے ایک سال میں حکومتی اقدامات کو دیکھا جائے تو وہ خان صاحب کی اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقریر سے سمٹ کر شاہ محمود قریشی کے بد دعاؤں کی طرز کے رسمی بیانات تک محدود رہ گئے۔ گویا صاف ظاہر ہے کہ ہم اس معاملہ میں یا تو خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں یا سنجیدگی نہیں رکھتے۔

تاہم، ہماری غیر فعالی اس مسئلہ کو بالواسطہ حل کرنے کی حکمت عملی اپنائے جانے کا عندیہ بھی ہو سکتا ہے۔

چین اور ہندوستان کے مابین لداخ پر حالیہ کشیدگی اور چین کی وقتی برتری سے شاید ہندوستان کشمیر پر اپنی جارحیت کے قدم پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ چین کی جارحیت صرف لداخ تک محدود نہ رہے اور کشمیر یا لائن آف ایکچیویل کنٹرول پر دیگر علاقوں کی جانب پیش قدمی سے ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر پر اپنی سابقہ پوزیشن پر پسپائی پر مجبور کیا جاسکے (گزشہ روز چین نے لداخ کے باہر، اتارکھنڈ کے علاقے لیپولیک پاس کے قریب اپنی بٹالین کے ذریعے پیش قدمی کی ہے ) ۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس سطح پر اپنے خیر خواہ پر انحصار کرتے ہوئے یہ سوال ذہن میں رکھا جانا چاہیے کہ کہیں مستقبل میں ہم کشمیر کے مسئلہ میں اپنی فریق کی حیثیت تو نہیں کھو بیٹھیں گے؟

اس سوال کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال اور ایشیا کے اقتصادی تعاون کے تبدیل ہوتے منظر نامہ سے ریجنل سپریمیسی کی تصویر کا جو نیا رخ سامنے آتا ہے، وہ بہت کچھ تبدیل کر سکتا ہے۔ ماہ جولائی میں بیجنگ اور تہران کے درمیان 25 سالہ اقتصادی معاہدہ کی خبریں گرم رہیں۔ امریکہ تاحال کورونا سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے اور اس افتاد کے باعث آنے والے وقتوں میں معاشی طور پر غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔

ہندوستان، جس نے تاحال اپنی خارجہ پالیسی کو کافی حد تک نیوٹرل رکھا ہے، امریکہ کو کمزور ہوتا دیکھ کر ریجنل سپریمیسی کے خواب دیکھنا بند کر سکتا ہے۔ ایشیا میں متحدہ عرب امارات اور نئے معاہدہ ہوجانے کی صورت میں ایران، چین کے اقتصادی منصوبوں کے اہم شراکت دار کے طور پر موجود ہوں گے۔ یہ دونوں ممالک ہندوستان سے قریبی تعلقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ روس بھی اس خطے میں اپنے حصے کے لیے چین سے محاذ آرائی کا رسک مول نہیں لے سکتا۔

ایسی صورت، بعید از امکان نہیں کہ یہ ممالک چین اور ہندوستان کو اختلافات کے دیر پا حل کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایسے میں اربوں ڈالر کے اقتصادی معاہدے اور اس کے نتیجہ میں متوقع تجارتی حجم کے تخمینے میز پر ہونے کی صورت میں پاکستان کی کشمیر سے جذباتی وابستگی اور دعوٰی استحقاق غالباً چین کی نظروں میں شاید اپنی اہمیت نہ رکھ پائیں۔

لہٰذا اگر ہم واقعی کشمیریوں کا درد محسوس کرتے ہیں تو اس درد کو سروں میں ڈھالنے کے بجائے اس کا درماں کرنا ہوگا۔ کشمیر کی اسٹریٹجک اور جذباتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے فریق ہونے کے حق سے کسی بھی وعدے اور خوش فہمی کی بنیاد پر دستبردار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی چین سے اپنا اور کشمیریوں کا حق دلوانے جیسی غیر منطقی توقع رکھنی چاہیے۔ بلکہ ہندوستان سے براہ راست مذاکرات کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ ورنہ ہو سکتا کہ جب ہندوستان اور چین اپنے مفادات کی بنیاد پر کشمیر کے حل کو حتمی شکل دے رہے ہوں تو ہمارے حکمران کمرے کے باہر ہاتھ باندھے فیصلے کے منتظر ہوں اور آئی ایس پی آر ایک بڑے سانحہ کے پیش نظر ایک اور نغمہ کی پری پروڈکشن میں مصروف ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments