جبر کی طویل اور تاریک شب


جس روز یہ کالم چھپے گا سرکاری اور قومی سطح پر ہم اسے ’’یوم استحصال کشمیر‘‘پکاررہے ہوں گے۔مقصد دُنیا کو یاد دلانا ہے کہ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو تاریخی خودمختاری سے محروم کئے ایک برس گزرچکا ہے۔ ڈھونگ یہ رچایا گیا تھا کہ وادیٔ کشمیر کے 80لاکھ باسی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد آبادی کے اعتبار سے ’’دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے باقاعدہ ’’شہری‘‘ بن گئے ہیں۔’’شہری‘‘ بناتے ہوئے مگر انہیں تمام تر انسانی حقوق اور آج کے دور میں انٹرنیٹ اور موبائل فون جیسی روزمرہّ بنیادوں پر میسر سہولتوں سے بھی محروم کردیا گیا۔

وادی کے وہ سیاست دان بھی کئی مہینوں سے گھروں یا ہوٹلوں میں نظر بند رہے جو کم از کم تین نسلوں سے دلی کی اطاعت کررہے تھے۔ اپنی آزادی اور خودمختاری کو تڑپتے ہزاروں نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں گھروں سے اٹھاکر وادیٔ کشمیر سے دور دراز بھارتی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔وہاں موجود شہریوں کو کرفیو اور خاردار تاروں سے بنائے حصار کے ذریعے ایک دوسرے سے سماجی روابط برقرار رکھنے کے حق سے بھی محروم کردیا گیا۔بھارتی فوج کے نرغے میں آئی زمینوںمیں اُگی فصلوں اور پھلوں کو منڈیوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔

سیاحت کشمیری معیشت کی کلید رہی ہے۔اسے تباہ وبرباد کردیا گیا۔کشمیریوں کو معاشی اعتبار سے بے دست وپا بنادینے پر ہی اکتفا نہیں ہوا۔آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ کردلی سے براہِ راست چلائی Union Territoryمیں تبدیل کردیا گیا ہے۔ایسے علاقوں میں ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔’’خودمختار کشمیر‘‘ کی سرکاری زبان مگر ہمیشہ اُردو ہی رہی ہے۔ابتدائی کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی یہ ہی زبان استعمال ہوتی رہی ہے۔

کشمیری زبان کے ساتھ بے پناہ محبت اگرچہ اپنی جگہ برقرار رہی۔کم از کم چھ سو برس سے اسے فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا رہا ہے۔ارادہ اب یہ باندھا گیا ہے کہ اس زبان کو ’’شاردا‘‘ رسم الخط میں لکھا جائے گا جو سنسکرت کی ابتدائی شکلوں میں شمار ہوتی ہے۔کشمیر کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو ایسی وحشت سے کسی بھی سامراجی طاقت نے مٹانے کی کوشش نہیں کی تھی۔فقط فرانسیسی استعمار ہی نے ایسا چلن اپنی نوآبادیوں میں اختیار کیا تھا۔

5اگست 2019سے بہت تواتر کے ساتھ میں نے کئی واقعات مذکورہ بالاتناظر میں جزئیات سمیت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اصل دُکھ میرا یہ بھی ہے کہ غیر تو کیا کئی پاکستانیوں کو بھی ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے تلخ ترین حقائق سے کماحقہ انداز میں آگاہ نہ کرپایا۔اس تناظر میں یک روزہ ’’یوم استحصال‘‘ کیا کردار اداکرے گا اس کی بابت تبصرہ آرائی سے گریز ہی بہتر۔خیر کی دُعا مانگنے کے علاوہ کوئی خیال ذہن میں نہیں آرہا۔پیر کی شام سے سری نگر کے بے تحاشہ محلوں کو قابض افواج نے نرغے میں لے رکھا ہے۔

جیپوں پر لگائے لائوڈسپیکروں سے اعلان ہورہے ہیں کہ دفعہ 144کا نفاذ ہوچکا ہے۔لوگ دوروز تک اپنے گھروں ہی میں محصور رہیں۔جن علاقوں میں ’’بغاوت‘‘ کے آثار دکھائے دئیے وہاں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔کرفیو کا فیصلہ اس بات کی شہادت ہے کہ ریاستی جبر کے بے دریغ استعمال کا ایک برس گزرنے کے باوجود وادیٔ کشمیر کے 80لاکھ مکین’’ بھارتی جمہوریہ‘‘ کے ’’باقاعدہ‘‘ شہری بننے کو ہرگز تیار نہیںہیں۔کرفیو اس وادی کے لئے کوئی ’’نیا‘‘ فیصلہ نہیں۔

آج سے بارہ برس قبل مقبوضہ وادیٔ کے ذہن ترین تخلیق کار-بشارت پیر-نے انگریزی زبان میں “Curfewed Night”کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا۔میں نے اسے اُردو میں ’’کرفیو زدہ رات‘‘ کہا۔یہ رات ایک پنجابی گیت میں بتائی ’’لمبی اور کالی‘‘ ہوتی چلی گئی۔آرٹیکل 370کے خاتمے نے اسے طویل تر اور سیاہ ترین ہی بنایا ہے۔یہ سوال مگر اپنی جگہ میرے ذہن میں برقرار ہے کہ کشمیر کو اپنی ’’شہ رگ‘‘ قرار دینے والے ہم پاکستانی 5اگست 2019کی پیش بندی کرسکتے تھے یا نہیں۔ اگر اس کے امکانات موجود تھے اور ہم انہیں کماحقہ انداز میں استعمال نہ کر پائے تو 5اگست 2020کو ’’یومِ ندامت‘‘ پکارنا ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے میرے لئے صحافیانہ ’’غیر جانبداری‘‘ برقرار رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔اپنے جذبات کو بہت شدت سے قابو میں رکھتے ہوئے البتہ یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ عمران خان صاحب کے جولائی 2019میں ہوئے دورئہ واشنگٹن کے چند ہی دن میں کشمیر کی بابت دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا۔میرا وسوسوں بھرا دل عین اس وقت سے تلملانا شروع ہوگیا جب امریکی صدر نے وائٹ ہائوس میں پاکستان کے وزیر اعظم کو دائیں ہاتھ بٹھا کر یہ ’’تاریخی‘‘ اعلان کیا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے مابین 1947سے موجود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ’’ثالثی‘‘ کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ’’ثالثی‘‘ کی پیش کش نے میرے ذہن میں ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘‘ والے شبہات جگادئیے۔

عملی رپورٹنگ سے کئی برس قبل ریٹائر ہوچکا ہوں۔اقتدار کے ایوانوں تک رسائی میسر نہیں۔نئی دلی میں فیصلہ سازی کی حرکیات سے اگرچہ بھارت کے 1984ء سے بارہا سفر کی بدولت تھوڑی آشنائی رہی۔ اسی باعث احمقانہ اعتماد سے یہ لکھنے کو مجبور ہوگیا کہ ٹرمپ نے ’’ثالثی‘‘ کی پیش کش کرتے ہوئے مودی سرکار کو درحقیقت ’’تیلی‘‘ لگائی ہے۔کاش میں غلط ثابت ہوتا۔ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)نے گزشتہ کئی دہائیوں سے آرٹیکل 370کے خاتمے کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنارکھا تھا۔

بھارت کا سابق وزیر اعظم واجپائی اسی منشور کے تحت پہلی بار برسرِ اقتدار آیا تھا۔ اس نے مذکورہ منشور سے مگر گریز کیا۔ایک بس کے ذریعے لاہور آکر بلکہ اپنے تئیں ’’تاریخ‘‘ بنانے کی کوشش کی۔اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں نریندر مودی نے بھی یہ وعدہ بھلائے رکھا۔اپریل -مئی 2019میں دوبارہ انتخاب لڑتے ہوئے محض اس کا زبانی کلامی اعادہ کیا۔زیادہ توجہ یہ وعدہ دہرانے پر مرکوز رکھی کہ بابری مسجد کی جگہ ’’رام مندر‘‘ بنایا جائے گا۔ٹرمپ نے ’’ثالثی‘‘ کی پیش کش کی تو ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر مؤخر ہوگئی۔

آرٹیکل 370کاخاتمہ اولین ترجیح ہوگیا۔یہ ترجیح طے ہوگئی تو 5اگست 2019سے کم از کم دس روز قبل سری نگر کے ہوائی اڈے پر جنگی طیارے تازہ دم فوجی دستوں سمیت اترنا شروع ہوگئے۔فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے ’’بھارت نواز‘‘ بھی اس نقل وحرکت کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹس کے ذریعے دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ آرٹیکل 370کے خاتمے کی تیاری ہورہی ہے۔

اس کالم میں تواتر سے میں ان ٹویٹس کے حوالے دیتا رہا۔ گزرے وقت کے بارے میں ماتم کنائی کے لئے اس لئے مجبور محسوس کررہا ہوں کہ میری ناقص رائے میں 5اگست2019سے دس دن قبل تک ہمارے پاس سفارتی حوالوں سے وہ موقعہ میسر تھا جسے Window of Opportunity کہا جاتا ہے۔پاکستان کے سفارت کاروں کو اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری دُنیا کو متنبہ کرنا چاہیے تھا کہ ہم آرٹیکل 370کا خاتمہ کسی صورت برداشت نہیں کر پائیں گے۔ایسا مگر ہوا نہیں۔ذاتی طورپر میں ہرگز ان ’’مجبوریوں‘‘ سے آگاہ نہیں جنہوں نے ہمیں اس موقعہ سے فائدہ نہ اٹھانے دیا۔

نظر بظاہر یہ محسوس ہوا کہ ہمارے فیصلہ ساز اس گماں میں مبتلا رہے کہ طالبان کو امریکہ سے افغانستان میں دائمی امن بحال کرنے کے نام پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو آمادہ کرنے کے عوض ٹرمپ ’’ثالثی‘‘ کے ضمن میں اپنا وعدہ نبھائے گا۔ہمارے ساتھ مگر ’’تیرے وعدے پر جئے ہم…‘‘ والا ’’ہتھ‘‘ ہوگیا۔ ایک برس گزر جانے کے بعد مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو دُنیا کے روبرو لانے کے لئے کونسی حکمت عملی تیار ہوئی ہے۔اس کے بارے میں مجھے کچھ خبر نہیں۔ اس کے خدوخال نظر آئیں تب ہی تبصرہ آرائی کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔ فی الوقت میں گزرے وقت کی رائیگانی کا ماتم ہی کرسکتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments