سنسرڈ خطوط


مشغلہ وہ کام ہے جس سے فارغ وقت برباد کر کے خوش ہواجاتا ہے ۔ لوگوں کے مختلف مشغلے ہوتے ہیں جیسا کہ باغ بانی، سکے جمع کرنا، پینٹنگ، خطاطی، کتابیں پڑھنا۔ مگر ہمارا مشغلہ بے حد دلچسپ ہے۔ ہم خطوط سنسر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ غیر اخلاقی، غیرقانونی، غیر انسانی معلوم ہو مگرخلیل الرحمٰن قمرکے ابا جی اور شاہ رخ خان کی امی جان کہتی تھیں کہ کوئی بھی مشغلہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور مشغلے سے بڑاکوئی دھرم نہیں ہوتا۔ قصبے کا ڈاکیہ اپنا دوست ہے۔ وہ تمام خطوط یہیں لاتا ہے۔ البتہ ہر خط سنسر ہونے والا نہیں ہوتا۔ پیشانی پہ لکھا نام، لفافے کی ہیئت، ہینڈ رائٹنگ، کونوں پہ بنے دل یا دستخط کی شکل کے کوڈ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ خط کو سنسر کرنا ہے یا نہیں۔

پھر یہ محض شغل ہی نہیں، سہ رخہ ثواب بھی ہے۔ اول، ہم سنسرشدہ خطوط کو نئے لفافے میں ڈال کر بیرنگ بنا دیتے ہیں۔ ڈاکیا اسی شرط پہ ہمارے ساتھ ہے۔ وہ مکتوب الیہ سے منہ مانگے دام وصولتا ہے۔ دوم، اگر عشاق ایسی ویسی زبان استعمال کریں یا گھر سے بھاگنے وغیرہ کا پلان لکھ بیٹھے ہوں تو ایسے خطوط ہم خفیہ ذرائع سے امام مسجد صاحب کو بھجوا دیتے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت (یقینی پھینٹی) کام آئیں۔ سوم، چٹھی کی درست پتے پر ترسیل ممکن بناتے ہیں تاکہ کسی عفیفہ کو درج ذیل طرح کی مشکلات نہ اٹھانی پڑیں :

ڈاکیا پڑوس میں تمہارا خط گرا گیا
ندامتیں تمہیں خبر نہیں کہ کس قدر ہوئیں
پچھلے چند ماہ کے دوران سنسر کیے گئے خطوط پیش خدمت ہیں۔ پڑھیں اور سر (اپنا) دھنیں۔
شاعر کا خط
راج دلاری!
آداب۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں خط لکھنے کی وجہ محض یہ ہے کہ تم نے مجھے ہر جگہ بلاک کر چھوڑا ہے۔ طویل لکھنے کے حق میں یوں نہیں کہ نہ تو تم پڑھو گی اورنہ ہی کوئی اور۔ بہرحال، تمہارے ہاتھوں بلاک ہو کر بھی میں بے مزا نہیں ہوا۔ اپنے وزیراطلاعات شبلی فراز کے والد تمہارے لیے ہی کہہ گئے تھے کہ

دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر
اسی کے ہاتھ سے ہونا ”بلاک“ چاہتا ہے
اب شاعر ی کی بات چل نکلی ہے تو اسی غزل کامقطع بھی سن لو جو غالباً میرے لیے لکھا گیا تھا:
ذرا سی گرد ہوس دل پہ لازم ہے فرازؔ
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
تم بھی کہو گی کہ کیا بکواس کر رہے ہو؟ خیر جو جی چاہے کہو۔ میں اپنے دفاع میں بس یہی کہوں گاکہ
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے
یہ بتاؤ دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے؟
بہرحال، ضد چھوڑو اورمجھے ان بلاک کرو۔ تاکہ باقی شاعری وہاں سنا سکوں۔
فقط تم۔ہارا۔
اک شاعر آوارہ!
جماعتیے کا خط
سلام مس نون!

عرض ہے کہ یہ پندرہواں خط ہے۔ گو تم نے پچھلے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔ اس سانحے کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا تو خط تمہیں ملے نہیں یا پھر تم ان پڑھ ہو۔ بہرحال، کوشش کرنے والوں کی ہی آخرش جیت ہوتی ہے۔ تم اگر ان پڑھ نہیں توپھر شاید مجھے ہلکے میں لے رہی ہو۔ جلدی سے اس خط کا مثبت جواب دو۔ ورنہ میں کسی نہ کسی مولانا کے ہمراہ تمہارے گھر کے باہر دھرنا دینے آرہاہوں۔

”نامعلوم افراد“ کا خط

کل ایک دوست کی معرفت تمہارا رقعہ ملا۔ اس سے پہلے کئی مزید لفنٹر بھی پڑھ چکے تھے۔ ویسے تمہارا خط پر کسی کا نام نہ لکھنے اور رقعہ محلے کے کسی بھی بچے کو پکڑا دینے کا، مشورہ خوب رہا۔ نہ صرف یہ کہ ہم پکڑے نہیں گئے بلکہ اس تکنیک نے میرے محلے کے ہر لڑکے کو تمہارے محلے کی ہر لڑکی کا عاشق بنا دیا ہے۔

فلاسفر کا خط
پیاری!

Peonسے معلوم ہوا کہ چند دن بعد تم چھٹی لے رہی ہو۔ مجھے کھٹکا ہے کہ یہ ضروری کام کہیں تمہاری منگنی /نکاح پر منتج نہ ہو۔ تم پوچھ سکتی ہو کہ مجھے اس سب سے، تمہاری چھٹی سے آخر غرض ہی کیا ہے۔ پگلی! کاش تم سمجھ سکتیں کہ مجھے تم سے غرض ہے۔ یہ اظہار لفظوں میں اب ڈھلا ہے وگرنہ آفس میں یہ جو اک دوجے کو سامنے پا کر ہم دونوں جھجک جاتے ہیں، نگاہیں چار کرنے سے ڈرتے ہیں، کسی ان دیکھے خوف کا شکار رہتے ہیں، یہ محبت ہی تو ہے۔ یہ چنگاری کم کم دونوں طرف سلگ رہی ہے۔ پراظہار نہ تم کر سکتی ہو اور نہ میں۔ Peon نے جب سے تمہاری ضروری چھٹی کا بتایا ہے تب سے کسی کروٹ چین نہیں پا رہا۔

دیکھو، شادی سب کی ہو جاتی ہے۔ تمہاری شاید پھپھو کے ڈرائیور بیٹے اجمل سے اور میری آٹھویں فیل خالہ زاد بانو سے ہو جائے گی۔ پر یہ جو کسک دل میں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس کا کیا کریں۔ سو، شادی اگر کرنی ہی ہے تو آؤ اک دوسرے سے کرلیتے ہیں۔ آخر شادی ہی تو ہے۔

تمہارا گھائل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments