کراچی! ”پرابلم“ کیا ہے؟


کراچی جسے پاکستان کی شہ رگ بھی کہا جاتا ہے تو کسی زمانے میں ”روشیوں کا شہر“ بھی اسی کی پہچان تھی۔ لیکن کیا ہوا؟ اس شہ رگ پہ یہ ضرب کس نے ماری؟ اس کی آنکھیں کیوں چندھیا گئی ہیں؟ کیوں اس شہر پر سیاہ سایوں کا راج بڑھتا جا رہا ہے اور روشنیاں، جو کہ زندگی کی علامت ہیں، اس سے روٹھتی جا رہی ہیں!

ان سوالوں کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں۔ ایک جواب تو وہ ہے جو آپ ہر چند دنوں بعد نام نہاد قومی و جانبدار میڈیا پر سنتے رہتے ہیں۔ نام نہاد اس لئے کہا کہ کثیر القومی ملک میں صرف وہ چیز ہی قومی ہو سکتی ہے جس میں تمام اقوام نہیں تو بھی کثرت الاقوام کی شمولیت ہو اور جانبدار اس لئے کہ غیر جانبداری صحافت کا جزو بنیادی ہونے کے باوجود پاکستانی میڈیا میں ناپید ہے۔

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات ایک ڈھونڈھو ہزار ملتے ہیں۔ لیکن کبھی سیاسی، کبھی لسانی، کبھی گروہی تو کبھی کچھ اور تعصبات (Biases) کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔

یہ جواب میرا ہے۔ اس میں بھی جانبداری ہو سکتی ہے لیکن کوشش ہے کہ اسے کم سے کم ترین سطح پر رکھوں اور زیادہ سے زیادہ غیر جانبدار رہنے کی کوشش کروں۔

کراچی کے پرابلم کی جڑ ارتقاء میں ہے۔ جی ہاں! ارتقاء ہی کراچی کے مسئلے کی جڑ ہے۔ آپ سب جانتے ہیں ارتقا کیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ارتقاء سلسلہ وار، دھیمے دھیمے، قدم بقدم تغیر و تبدل و افزائش کا نام ہے۔ اور یہی اس شہر کا اصل مسئلہ ہے۔

اب اگر کوئی پوچھے کہ ارتقاء کراچی پرابلم کی وجہ کیسے ہو سکتی ہے؟ تو میرا جواب بہت ہی سادہ ہوگا کہ اگر کوئی چیز ارتقا کے قدرتی طریقے سے ہٹ کر یعنی ابنارمل یا غیر فطری طریقے سے بڑھنے لگے تو وہ نارمل نہیں ہو سکتی۔

کراچی کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اب دیکھئے قبل از قیام پاکستان کراچی ایک خوبصورت، صاف ستھرا، پر امن سا شہر تھا۔ اس کی آبادی 1931 کی مردم شماری کے مطابق 2 لاکھ 63 ہزار 565 تھی۔ یہ شہر فطری انداز سے بڑھ رہا تھا یعنی ارتقاء پذیر تھا۔ 1941 میں اس کی آبادی 3 لاکھ 86 ہزار 655 تک پہنچی۔ اہلیان کراچی کو تمام تر بنیادی سہولیات میسر تھی۔ نہ گندگی کے ڈھیر تھے، نہ بارشوں میں گٹر کا پانی سڑکوں پر آتا تھا۔ نہ برساتی نالوں پر تجاوزات تھی نہ کوئی کچی آبادیاں تھیں۔ بڑا پرسکون شہر! اس کی سڑکوں پر ٹرام چلتی تھی، تو کہیں بگھیاں شہریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا رہی تھیں۔ شہر کا خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہر وقت مسافروں سے بھرا رہتا تھا۔ ایسا شہر جہاں خوشبوئیں رقص کرتی تھیں۔

پھر ایک دم سے اس شہر کی قسمت نے کروٹ بدلی۔ اور 1951ء میں اس کی آبادی 10 لاکھ 68 ہزار 459 تک جا پہنچی۔ یہ شہر جس کی ترتیب و سہولیات ہی چار یا پانچ  لاکھ لوگوں کے لئے تھی اچانک سے اس پر اتنا بوجھ ڈال دیا گیا کہ شہر اس بوجھ تلے دب کر کراہنے لگا۔ اس شہر کو غیر فطری طریقے سے انسانوں کے سمندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب یہ شہر ساڑھے 10 لاکھ لوگوں کو لے کر چلنے لگا۔ لیکن اس پورے دور میں اس شہر کو سدھارنے کے لئے کوئی کوششیں نہیں ہوئی بس حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

تقسیم ہند میں کہیں بھی اتنی بڑی ہجرت کی بات نہیں کی گئی تھی، نہ ہی سندھ کو ہجرتوں کا مرکز بنانے کی کوئی قرارداد کہیں پیش کی گئی تھی۔ اکابر پاکستان کو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سہانے تصور سے ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گیا بالکل تبدیلی کے سہانے راگ کی طرح۔

اب کراچی میں کچھ بھی ویسا نہ رہا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ کوئی پلان نہیں۔ کوئی وسائل نہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ جیسے تیسے کراچی نے خود کو سنبھالا۔ کچی بستیاں، بے ترتیب آبادیاں، بے روزگاری اور بھوک اس شہر کا مقدر بن گیا۔ جس شہر کے بلدیاتی اداروں کی صلاحیت 4 یا 5 لاکھ لوگوں پر محیط تھی اب اسے ساڑھے دس لاکھ لوگوں کا بوجھ ڈھونا تھا۔

میں اسے سازش تو نہیں سمجھتا لیکن سنا ہے کہ بانی پاکستان برطانوی وفاقی نظام سے متاثر ہو کر اس نوزائیدہ۔ ملک۔ میں بھی وہی نظام نافذ کرن چاہتے تھے جہاں حلقے ہوں گے، حلقوں کے منتخب نمائندے بھی ہوں گے۔ اب میں نہیں کہتا کہ یہ کوئی سازش تھی لیکن 1941 میں اس شہر کی 61 فیصد آبادی سندھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھی جو 1951 میں صرف 8 فیصد رہ گئی۔ اداروں کا ارتقاء رک گیا لیکن 1961 میں کراچی کی آبادی اسی غیر فطری طریقے سے بڑھتے ہوئے 19 لاکھ 12 ہزار 598 تک جا پہنچی۔ 1971 میں اس نے ایک اور جمپ مارا اور 35 لاکھ 15 ہزار 655 آبادی اس شہر میں سکونت اختیار کر چکی تھی۔ اس شہر میں وسائل تو فطری طریقے سے بہت دھیمے دھیمے بڑھتی رہی لیکن آبادی بڑی ہی تیزی سے غیر فطری انداز میں بڑھتی رہی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

چلئے اب بوجھ بڑھ گیا سو بڑھ گیا اب آپ بھی آگے بڑھئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھتے اور اپنے سب سے اہم شہر کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے کوششیں کرتے لیکن ہم نے کیا کیا کہ اس شہر پر ایک اور قیامت ڈھا دی۔ 1972 سے 1978 کے دوران سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ شہر ایک بار پھر آبادی کے دباؤ کا شکار ہوگیا۔ اور اچانک سے 3 لاکھ پچاس ہزار بنگالی، برمی اور بہاری کراچی میں آگئے۔ اور ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن وجود میں آ گئی۔ 1981 تک اس شہر کی آبادی 35 لاکھ سے 54 لاکھ 37 ہزار 984 تک پہنچ گئی۔

1978 سے 1998ء تک 6 لاکھ افغان مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا جنہیں پہلے بلوچستان کے مہاجر کیمپوں میں رکھا گیا بعد ازاں انہوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ نیشنل ایلیئن رجسٹریشن اتھارٹی ( NARA) اور افغان رفیوجی ریپاریئیشن سیل کے اعداد شمار کے مطابق بھی صرف کراچی میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین موجود ہیں۔

1981 سے لے کر 1998 تک مزید 21 لاکھ 50 ہزار لوگ اس شہر میں آباد ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 40 فیصد کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تھا۔ ان میں 43 فیصد ان پڑھ تھے اور 58 فیصد صرف مرد تھے۔ 1981 سے 1998 تک کراچی میں آئے لوگوں میں سے 55 فیصد کو ملیر اور غربی اضلاع نے پناہ دی۔ ان اعداد و شمار کو دیکھیں تو 1972 سے 1998 تک کراچی کا رخ کرنے والوں کی تعداد کراچی کی کل آبادی کا 40 فیصد بن چکی تھی۔

1998 کی 98 لاکھ 56 ہزار سے 2010 تک کراچی کی آبادی 1 کروڑ 85 لاکھ 2900 سے تجاوز کر چکی تھی۔ اور 2020 تک یہ 2 کروڑ 75 لاکھ 50 ہزار کا ہندسہ بھی عبور کر چکی ہے۔

اس شہر کی صلاحیتوں میں اضافہ کیے بغیر ملک کے منصوبہ سازوں نے اس کے دروزے کھلے رکھے، اتنی آبادی یہاں آباد تو کرلو گے لیکن بنیادی شہری سہولیات کہاں سے دو گے؟ اتنے وسائل کہاں سے لاؤ گے؟ کسی نے کبھی نہیں سوچا اور اپنوں کی اس بے حسی اور لاپرواہی کو پچھلے 72 برس سے کراچی بھگت رہا ہے۔

اب دیکھئے اگر ایمانداری سے کراچی کی تباہی کی ذمہ داری کسی پر عائد ہوتی ہے تو وہ وہی لوگ ہیں جو اس شہر کی غیر فطری آبادی بڑھنے کا سبب بنے یا خاموش رہے۔ جو بولتے تھے وہ ملک کے غدار ٹھہرائے جاتے تھے۔ جو بولتے ہیں وہ تعصب پرست کہلاتے ہیں۔

چلیں اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ وسائل کی کمی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس قدر غیر فطری ارتقاء پذیری کو کوئی کیسے کنٹرول کر سکتا ہے؟ کوئی کیسے مینیج کر سکتا ہے؟

میں نہیں کہتا لیکن اعداد و شمار کہتے ہیں کراچی کا پرابلم اس کا غیر فطری ارتقاء ہے۔ اس شہر کی صلاحیتیوں کا ادراک کیے بغیر اس شہر پر آبادی کا اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ اب یہ شہر اپنی آبادی کے بوجھ تلے مکمل طور پر دھنس چکا ہے۔ اب یہ شہر سانس بھی نہیں لے پا رہا۔ اگر اب بھی اس غیر فطری بڑھوتری کو نہ روکا گیا تو نہ جانے اس شہر کا کیا حال ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments