کا پاکستان 2030


خوش اخلاقی، خوش خلقی اور علم وادب سے لبالب بھرا، بلکہ کسی حد تک چھلکتا ہوا، ہمارا معاشرہ قا بل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ آج اگر اقوام دوعالم علم وادب، سائنس و ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ ’میں من و عن ہماری تقلید میں ہیں تو ظاہر ہے اس کی کوئی وجہ بھی ہے۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے۔ ۔ ۔ ۔ ہم کسی کام کو اگر ایک مرتبہ شروع کر لیں تو اسے پرفیکشن تک لے جائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔ 2020 سے لے کر آج تک ہم نے جو ترقی کی ہے دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں کبھی ملنی ہے، کیونکہ جو کچھ ہم نے کر دکھایا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ یہ ہم ہی تھے جو مشکلات کے اک سمندر سے کامیاب باہر نکلے اور جو جو قربانیاں اس کے لیے ہم نے دی ہیں وہ دوسری اقوام خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتیں۔

سیاست کو ہم خدمت کے ایسے اوج پر لے گئے ہیں کہ کسی جگہ اگر دو لوگ، دو جماعتیں یا دو قومیں بیٹھی ہوں اور اگر ذکر سیاستدانوں کا چھڑ جائے تو شاید پورا دن یا پوری رات بھی کم پڑ جائے ان کا ذکر سمیٹتے سمیٹتے۔ اگر تذکرہ صرف گزشتہ ایک دہائی کے موجودہ اور غیر موجود سیاستدانوں کا بھی کیا جائے تو حیرت و تحسین بھری گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی روانی میں، اور جن کے اوصاف کے بیان میں، وقت خس و خاشاک کی طرح ہمیں بہائے لیے جاتا ہے۔

گفتگو کا اختتام ان ہی حسرت اور یاس بھرے الفاظ پر ہوتا ہے کہ آج وقت اور لفظ دونوں کم پڑ گئے کہ موضوع بحث ہی ایسا تھا۔ یو۔ ٹرن کی ایجاد، پائے اور سیاست، شہید کی وصیت، سب سے پہلے پاکستان، میں ہوتا نہ اگر اس ملک کا وزیر اعظم، لندن اور میں، یہ سب باتیں ماضی کا قصہ ہوئیں۔ اب وسیع تر قومی مفاد میں شائستگی، نفاست اور خدمت خلق کا وہ نرالا انداز ہے کہ جس کا تذکرہ اگر ایک مرتبہ چھڑ جائے تو حاصل بحث مہینوں بھی پورا نہ ہو اور اس پر مستزاد کہ زبان ہماری عوام کی ہو۔ یقیناً ہم اپنے سیاستدانوں کو کچھ ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔

پی۔ آ ئی۔ اے نہ صرف یہ کہ ہماری قومی ائرلائن ہے بلکہ ہماری قومی امنگوں، جذبوں اور رویوں کی عکاس بھی ہے۔ یقیناً جس کسی نے بھی ایک مرتبہ ان کی خوبصورت میزبانی کا لطف اٹھایا ہے وہ عمدہ اور نفیس روایات کی حامل ائر ہوسٹسس، زندہ دل اور بلند اخلاق کریو، کرنچی کرنچی کھانوں کا ذا ئقہ اور پائلٹ حضرات کی سیدھی پروان کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ میں نوجوان اور نوخیز جہازوں کا تذکرہ تو گم ہی کر بیٹھا۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ امریکہ کی قومی ائر لائن یونایٔٹڈ ائر لائن نے اپنے سٹاف کی پروفیشنل تربیت اور عمدہ کارکردگی اور پھر اس کارکردگی میں تسلسل کے لیے پی۔ آئی۔ اے سے رابطہ کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایمرٹس اور اتحاد ائر لائن نے جہازوں کی خریداری کے آرڈر بھی دے ڈالے ہیں۔

خبر یہ ہے کہ ٹوگو، ٹرانزیٹیریا، لائیبیرٔیا، اردن، اردن کے ”ہمسایہ“ ملک، کے اور مصر، مراکش، لیتھوینیا، لٹویا، جورجیا، پرتگال، ادیس ابابا، چاڈ، ارجن ٹینا، برازیل، اور دیگر 22 ممالک کے وفود پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ ان کے یہاں آنے کا مقصد پاکستانی فٹ بال ٹیم سے اس کھیل کی مہارتیں سیکھنا نہیں، بلکہ پاور اور انرجی سیکٹر میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت کو جاننا، پاکستانی ماڈل سے سیکھنا اور ہماری ایجادات کے بڑے بڑے سودے کرنا ان کے ’ٹاپ ایجنڈا‘ میں شامل ہیں۔ پاکستان میں اس ”پاور اینڈ انرجی ایکسپو“ کا اہتمام پاکستانی کمیشن برائے پاور اینڈ انرجی اور واپڈا نے کیا ہے۔

تازہ ترین یہ کہ سعودی حج منسٹری کے اہلکار بھی پاکستانی نظام کی شفافیت، انتظامی صلاحیتوں کی تربیت اور اس عمل میں حاصل ہونے والے پیسے کے بہترین مصرف کے بارے میں جاننے اور آگاہی لینے کے لیے آج کل ہمارے ملک کے دورے کے آخری 22 دن میں داخل ہو چکے ہیں۔ یقیناً اپنے ملک سے 4 مہینے کی دوری انھیں اس دورے سے حاصل ہونے والے علم اور آگاہی کے مقابلے میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوئی ہو گی۔

اور سکاٹ لینڈ یارڈ نے ”سپیشل کرمنالوجی کیسز اینڈ اے سمائلنگ سائیکالوجیکل انسائٹ ان ٹو اٹ“ کے حوالے سے جو ورکشاپ کروانی ہے اس کے چیف ”فیسیلیٹیٹر“ کے طور پر ”دھوپ سڑی“ کے کانسٹیبل کا نام فائنل کر لیا گیا ہے۔ موصوف کو سکاٹ لینڈ کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کی اضافی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں۔ ان کے نائب سکاٹ لینڈ یارڈ اور پاکستانی پولیس کے درمیان فوکل پرسن کا کام انجام دیں گے۔

اس مہینے کے آخر میں وزارت اطلاعات و نشریات اور پاکستان فلم انڈسٹری کے تعاون سے بین الا اقوامی فلم فیسٹول کا آغاز ہو رہا ہے۔ حصہ لینے والے ایک سو اٹھاسی ممالک میں سے 88 ممالک کے وفود پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ حسب روایت فیسٹول کا آغاز، حصہ لینے والی اقوام کو فلم میکنگ کی ٹیکنیک اور نزاکتوں سے آگاہ کرنے کے لیے، پاکستانی فلم سے ہو گا۔ فیسٹول کے اختتام پر شرکأ کو فلم میکنگ اور ڈاکیومینٹری فلمز بنانے کے حوالے سے خصوصی مواد بھی دیا جائے گا۔

ناول کی 22 نئی اقسام، شاعری میں ”توقف“ کے استعمال اور جدید کہانی نگاری کے موضوعات کی وضاحت اور بیان بارے کیمبرج یونیورسٹی کی ورکشاپ کروانے کے لیے پاکستانی وفد کل یو۔ کے پہنچ گیا ہے۔ اس ورکشاپ کا اہتمام کیمبرج یونیورسٹی کی خصوصی درخواست پر کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وفد کا وقت بچانے کی غرض سے اس ورکشاپ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ جب پہلا وفد اپنا کام مکمل کر لے گا تب دوسرا وفد وہاں پہنچ کر اپنا کام شروع کرے گا۔

اس سے پہلے ”لیڈ پاکستانی فیسیلیٹیٹر“ کی یہ درخواست کہ وقت کو بچانے کے لیے اس ورکشاپ کا اہتمام آن۔ لائن کر لیا جائے، اقوام عالم نے مشتر کہ طور پر رد کرتے ہوئے بالمشافہ ورکشاپ کی ہی درخواست کی تھی۔ پاکستانی وفد علم و ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے کی غرض سے اس دورے کے تمام اخراجات نہ صرف یہ کہ خود اٹھا رہا ہے بلکہ اس سے ہونے والی تمام تر آمدنی ایدھی فاؤنڈیشن کو عطیہ بھی کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).