لٹل بوائے، فیٹ مین اور موت کا مشروم


آج سے 75 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔ جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے ہیرو شیما پردنیا کا جو پہلا ایٹمی بم گرایا تھا اس کاکوڈ نام لٹل بوائے تھا۔ بم گرائے جاتے ہی لمحے بھر میں 80 ہزار افراد موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ ایٹمی دھماکے کے نتیجہ میں تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

ہیرو شیما کے واقعے کے 3 دن بعد امریکہ نے ناگا ساکی پر بھی حملہ کیا، 9 اگست 1945 کو بی 29 طیارے کے ذریعے ناگا ساکی پر ایٹم بم گرایا گیا جس کا کوڈ نام فیٹ مین تھا۔ جاپانی اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں لگ بھگ 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹمی بم لٹل بوائے اور فیٹ مین کے ٹھیک 75 سال بعد بیروت میں انہی تاریخوں کے درمیان ہولناک دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں مشروم نما بادل بنا جسے موت کا مشروم کہا جا رہا ہے۔ موت کے مشروم نے پورے شہر بیروت کو اپنی پلیٹ میں لے لیا اورچند لمحوں میں آباد شہر کھنڈر بن گیا۔

دھماکہ بیروت کے ساحلی علاقے کے گودام نمبر 12 میں منگل کی شام ہوا، جس کی آواز میلوں تک سنی گئی۔ اس دھماکہ کے بعد ایک اور دھماکہ ہوا، جو پہلے کی نسبت زیادہ شدید تھا اور اس کا بگولہ جسے موت کا مشروم کہا جا رہا ہے، ایسے بلند ہوا جیسے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ایٹمی حملے کے وقت فضا میں بلند ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نے تو اسے فوری طور پر ایٹمی حملہ ہی قرار دیدیا تھا، تاہم یہ ایٹمی حملہ نہیں تھا لیکن اس دھماکے نے ایٹمی حملے کی یاد تازہ کردی۔

بیروت دھماکوں میں اب تک 200 کے قریب افراد جاں بحق، 5 ہزار سے زائد زخمی اور درجنوں لوگ ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جن کو نکالنے کا کام جاری ہے۔ ریکٹر اسکیل پر دھماکے کے بعد تین اعشاریہ پانچ شدت کا جھٹکا محسوس کیا گیا۔ دھماکے کے باعث 30 کلومیٹر تک کے علاقے میں ہر شے زمین بوس ہو گئی۔ سیکڑوں عمارتیں اور گاڑیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں دھماکے کی آواز 250 کلو میٹر دور قبرص تک سنی گئی۔ دھماکے کے نتیجے میں 3 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ شہر کے 90 فی صد ہوٹل تباہ ہو چکے۔

بیروت میں ہونے والے اس دھماکہ کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب چھ سال قبل 2014 ء میں ایک روسی پرچم بردار جہاز ”روسوس“ بیروت کے ساحل پر آن رکا۔ جہاز فنی خرابی کا بہانہ کرکے بیروت کے ساحل پر رکا، جس میں 2 ہزار 750 ٹن امونیم نائٹریٹ لدا ہوا تھا۔ لبنانی حکام نے جہاز کا جائزہ لیا، سامان چیک کیا اور کپتان سمیت عملے کے 4 افراد کو حراست میں لے لیا۔ بعدازاں عملے کو ان کے ملک جانے کی اجازت دیدی گئی، تاہم کسی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لئے جہاز میں لدا ہوا امونیم نائٹریٹ بیروت کی بندرگاہ کے گودام نمبر 12 میں منتقل کر دیا گیا۔ لبنانی حکام امونیم نائیٹریٹ کی منتقلی کے لئے مسلسل جہاز کے مالکان سے رابطہ کرتے رہے، تاکہ بیروت کی بندرگاہ کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے محفوظ بنایا جا سکے مگر لبنانی حکام کی درخواستوں پر بہت کم توجہ دی گئی۔

بیروت میں تباہی پھیلانے والا امونیم نائٹریٹ اس سے قبل بھی صنعتی دھماکوں کا باعث بھی بن چکا ہے حالانکہ امونیم نائٹریٹ بو کے بغیر قلمی صورت میں پایا جانے والا ایک شفاف مادہ ہے جو عام طور پر کھاد کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس کیمیائی مادے کو آگ لگ جائے تو ہولناک دھماکہ ہوجاتا ہے۔ 1947 میں ٹیکساس کے ایک کارخانے میں دو ہزار تین سو ٹن امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ پھٹ گیا تھا اور جس کے نتیجے میں 500 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس دھماکے سے 15 فٹ بلند سمندری لہر بھی پیدا ہوئی تھی۔ چین کے شہر تیانجن میں 2015 میں اسی مادے کے پھٹنے سے ہونے والی تباہی میں 170 سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ 2013 میں امریکی ریاست ٹیکساس کے کھاد کے ایک پلانٹ میں ’جان بوجھ کر کیے جانے والا دھماکے‘ میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایک اور اہم واقعہ 2001 میں فرانس کے شہر ٹولوس کے ایک کیمیکل پلانٹ میں ہوا تھا جس میں 31 افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا۔ 1995 میں اوکلاہوما شہر پر ہونے والے بم دھماکے میں بھی امونیم نائٹریٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).