بچوں پر بڑھتا جنسی تشدد اور معاشرتی رویہ


پاکستان میں جنسی تشدد کے واقعات تواتر سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں تاہم اس سلسلے میں نہ تو سکول اور کالج کی سطح پر کوئی تعلیم دی جارہی ہے اور نہ ہی مدرسہ کی سطح پر کوئی تدارک کا رحجان ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اس طرح کے اہم معاشرتی مسائل سے کنی کتراتے ہیں اور بقول شخصے اگر کوئی ایسا واقع ہو بھی تو کچرے کو قالین کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔ اس روش کا بڑا نقصان یہ ہے کہ نہ تو ہم اس طرح کے مسائل سے جان چھڑا پاتے ہیں اور نہ ہی اس کے لئے کوئی حکمت عملی وضع ہو پاتی ہے لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقتی خاموشی کے بعد یہ ایشو پھر شدت سے سر اٹھانے لگتا ہے۔

جہاں تک میری یاداشت کام کر رہی ہے اس کے مطابق کئی سال پہلے لاھور میں ایک شخص نے 100 بچوں کو تشدد اور زیادتی کے بعد تیزاب سے جلا کر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ دو سال پہلے قصور شہر میں 500 سے زائد لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد ان کی فلمیں بنائیں گئیں تھیں۔ اور پھر زیینب زیادتی کیس تو زبان زدعام ہوگیا کہ کس طرع معصوم بچی زیادتی اور ہوس کی نذر ہوگیں۔ زیینب کیس کا چونکہ میڈیا میں شور رہا اور مجرم بھی اکیلا تھا لہذا سزا ہوئی لیکن قصور شہر والی زیادتیوں اور ڈارک ویب سائٹس کے لئے بنائی جانے والی فلموں کے مجرمان کے نیٹ ورک کو شاید ابھی تک کوئی بڑی سزا ملی ہو۔

کچھ دن پہلے سندھ کے ایک استاد کا اپنے معصوم طالب علم کے ساتھ زیادتی کی فوٹیج سوشل میڈیا میں عام تھی۔ متذکرہ استاد نے گرفتاری کے بعد بڑے انکشافات کیے کہ کس طرع وہ معصوم شاگردوں کی عصمت دری کرتا رہا ہے۔

جولائی 2020 ء کے مہینے میں سکردو شہر میں ایک دردناک داستان منظر عام پر آئی، ایک نہایت غریب سبزی فروش کے کمسن لڑکے کو چند اوباش جوان نہ صرف خود جنسی استحصال کرتے رہے بلکہ اطلاعات کے مطابق اس لڑکے کو بلیک میلنگ کے تحت دوسرے جنسی مریضوں کو بھی سپلائی کرتے رہے۔ درندگی یہی تک نہی رکی بلک ان مجرموں نے پورن ویڈیوز بھی بنائی اور رقم بھی بٹورتے رہے۔ پولیس ان کو گرفتار کر چکی ہے اور سول سوسائٹی کے سخت احتجاج پر انٹی ٹیررسٹ ایکٹ کے تحت کارروائی جاری ہے۔

یہ کچھ منتخب مثالیں شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں نوعمر بچے بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کا کیا رحجان ہے۔ مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ بچے سب سے پہلے اپنے قریبی احباب کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں کیونکہ گھروں میں آنا جانا رہتا ہے اور ایک لحاظ سے ہم اپنے احباب کے حوالے سے خوشی فہمی یا حد سے زیادہ اعتماد میں رہتے ہیں۔ انہی حالات میں جنسی مریض بچوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر ہوس کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں بچے سکول اور پھر کالج میں درندگی کا شکار ہوتے ہیں اور استاد کا اتنا خوف ہوتا ہے کہ وہ اس زیادتی کا ذکر کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ پھر مدرسہ میں، گھر پالنے والے بچے مزدوری کرنے کے دوران اور پھر منظم گینگ کے ہاتھوں شہروں اور ملکی سطح پر بردہ فروشی میں کیا کچھ نہی ہوتا ہے، روز کے اخبارات یہ شرمناک کہانیاں سنا رہی ہوتی ہیں۔

”ساحل“ نامی ادارہ جو گزشتہ کئی سالوں سے بچوں پر کی جانے والی جسمانی و جنسی تشدد، اغوا و قتل اور کم عمری کی شادی اور زیادتیوں کے اعداد و شمار کی باقاعدہ سالانہ رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ ”Cruel Numbers۔ 19“ کے مطابق 2019 ء میں 2846 کیسسز منظرعام پر آنے۔ رہورٹ کے مطابق پاکستان میں اوسطاً 10 بچے روزانہ کی بنیاد پر جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 53 فی صد پنجاب، 30 فی صد سندھ، 07 فی صد اسلام آباد، 06 فی صد خیبرپختونخوا، 02 فی صد بلوچستان اور 02 فی صد سے کم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں جنسی زیادتیوں کے کیسسز پائے گئے۔ عمر کے حساب سے دیکھا جائے تو رپورٹ بتاتی ہے کہ 6 سے 15 سال تک کے بچے بچیاں زیادہ متاثر ہوئیں جبکہ 5 سال سے کم عمر بھی زیادتی کا شکار رہے۔ رپورٹ کے مطابق پورنو گرافی کیسسز میں قریب کے محرم اور ہمسایہ زیادہ تر ملوث پائے گئے۔

بچوں پر تشدد اور جنسی استحصال کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ریسرچرز کے مطابق اس مظہر کے جو کمیونٹی فیکٹرز ہیں وہ غربت، سوشل کیپیٹل، کلچرل ویلیوز اور معاشی طاقتیں، طبقاتی تقسیم اور ناہمواری، غیر ہموار سماجی تحفظ اور کمزور کرمینل جسٹس سسٹم وغیرہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).