کیا وزیراعلیٰ پنجاب کی اننگز ختم ہو رہی ہے؟


تحریک انصاف کی حکومت کو بنے ہوئے دو سال کی مدت گزر چکی ہے۔ بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کے باوجود کپتان کی ٹیم پرفارمنس دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ اب یہ ٹیم کی نااہلی ہے یا پھر کپتان کی گرفت کمزور رہی یا پھر اقتدار میں آنے سے قبل ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا۔ وجہ جو بھی ہو اس وقت سیاسی مخالفین حکومت کو ناکام حکومت کا خطاب دے رہے ہیں جبکہ حکومتی حمایتی دھیمے لہجوں میں حکومت کی حمایت تو کرتے ہیں مگر شاید ان کے دل میں بھی حکومتی کارکردگی سے متعلق بہت سے سوالات اور بے شمار گلے شکوے ہیں۔

کپتان کو اپوزیشن کی طرف سے کم اور میڈیا کی طرف سے زیادہ طاقتور اور حقیقی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ ہر حکومتی اقدام پر میڈیا کپتان کی کنٹینر سے کی جانے والی تقریر چلا دیتا ہے جس کے بعد ایک بار پھر طنز کے تیر چلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ کپتان اور اس کی ٹیم کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کس طرح کام کیا جائے کہ عوام کو سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں تبدیلی محسوس ہو۔ عوام کی نظروں میں حکومت کی ساکھ اور کارکردگی پر اعتماد بحال ہو۔

سچ تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی پرفارمنس بہت بری ہے۔ حکومت کے خلاف رات دن تنقید کرنے والی اپوزیشن کی اپنی حالت یہ ہے کہ ہر جماعت اکیلے اکیلے ہوکر زیر عتاب ہے مگر ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے مابین عدم اعتماد کی عکاسی کے لیے اس سے بہتر مثال کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ برفانی علاقوں میں جب برفباری اپنے عروج پر ہوتی ہے تو بھیڑئیے ایک غار میں دائرے کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں اور ایکدوسرے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں جیسے ہی نیند سے کسی بھیڑئیے کی آنکھ بند ہوتی ہے باقی بھیڑئیے اس کو چیرپھاڑ کر کھا جاتے ہیں اور اپنا پیٹ بھر کر دوبارہ دائرے کی صورت میں بیٹھ کر کسی دوسرے کی آنکھ بند ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

اس طرح برفباری کا شدید موسم گزر جاتا ہے۔ کچھ اس طرح کی صورتحال میں عید سے قبل اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقاتوں کے بعد شور اٹھا کہ عید کے بعد اے پی سی بلانے کا عندیہ دیا گیا۔ مگر سینٹ کے اجلاس میں حکومتی بلوں کو جس طرح اپوزیشن نے پاس ہونے دیا گیا اس پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک بیان میں کہا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے ماضی کی طرح حکومت کے خاموش سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

ن لیگ کو ڈر ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جدوجہد کی تو پیپلزپارٹی کو پنجاب میں پاؤں جمانے کا موقع مل جائے گا اور پیپلزپارٹٰی اس جدوجہد کا بھرپور فائدہ اٹھائے گی جبکہ پیپلزپارٹی کو ڈر ہے کہ مشکلات میں پھنسی ہوئی ن لیگ کی اگر کھل کر حمایت کی گئی تو ن لیگ دھوکہ دے گی اور اپنی قیادت کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس ضمن میں جے یو آئی (ف) کے ترجمان حافظ حسین احمد کا بیان اہم ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے ہمارے ساتھ نہیں اپنے ساتھ دھوکہ کیا ہے ان کو بہت جلد اس کا احساس ہو جائے گا۔

میرا خیال ہے کہ اپوزیشن کو اس کا احساس ہے اور اس لیے وہ سوائے بیان بازی کے کسی بھی احتجاجی تحریک کے لیے تیار نہیں ہیں سب کا خیال ہے کہ پہلے نیب کیسز سے جان چھڑائی جائے پھر سیاست کی جائے۔ جبکہ حکومتی وزیر شیخ رشید نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ ن لیگ کے رہنما میاں نواز شریف ڈیل کرکے گئے ہیں کہ حکومت پانچ سال پورے کرے وہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ تو کیا مریم نواز شریف اسی ڈیل کے تحت خاموش ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ن لیگ سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی کوئی توقع کرنا خلاف عقل ہے۔

وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت اور خاص طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار اس وقت لائم لائیٹ میں ہیں ان کو نیب نے 12 اگست کو طلب بھی کر لیا ہے جبکہ مختلف ٹی وی ٹاک شوز ان کے جانے کی خبریں سنا رہے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق کپتان کے حالیہ دورہ لاہور پر ان کے قریبی غیر سیاسی دوست کے ذریعے پیغام پہنچایا گیا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کر لیں اب مزید وقت نہیں دیا جاسکتا۔ اگر یہ بات ٹھیک ہے تو سوال تو بنتا ہے کہ کیا کپتان اپنی ٹیم کے اہم کھلاڑی کی اننگز ختم کرنے کو تیار ہوجائیں گے اور اگر تیار ہوگئے تو میڈیا کو کیا جواب دیں گے کہ انہوں نے دوسال تک یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا اور کیا ایسی صورت میں چوہدریوں کو وعدے کے مطابق پنجاب دیا جائے گا۔ اور اگر کپتان اپنے وزیراعلیٰ کی اننگز ختم نہیں کرتے تو پنجاب کیسے چلے گا شاید اس کا جواب بھی کپتان کے پاس نہیں ہے۔

اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ کپتان کے پاس اپنے کیے گئے فیصلوں کا جواب نہیں ہے۔ رات دن حکومتی پالیسیاں بیان کرتے ہوئے وزیروں مشیروں کے پاس بھوک سے بلکتے  عوام کو دو وقت کی روٹی کیسے میسر ہوگی کے سوال کا جواب نہیں ہے۔ اپوزیشن کے پاس متحد نا ہونے کا جواب نہیں ہے اور ملک کے مقتدر حلقوں کے پاس موجودہ ابتر سیاسی صورتحال کا جواب نہیں ہے۔ اور عوام کا ایک ہی سوال ہے کہ ان کے اچھے دن کب شروع ہوں گے اور عوام کے اس سوال کا ملک میں موجود نظام، حکومت، اپوزیشن اور مقتدر حلقوں کے پاس جواب نہیں ہے یا پھر شاید جواب دینا ضروری نہیں ہے۔

کون سا خلق خدا کا راج ہے عوام کا کام تو نعرے لگانا ہوتا ہے آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے شور میں انتخابی ڈھونگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ کون سا عوام کے فیصلوں سے حکومتیں تشکیل پاتی ہیں کہ ان کے بے تکے اور غیر ضروری سوالوں کے جواب تلاش کیے جائیں۔ مگر اقتدار کی غلام گردشوں میں جینے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک سوال وقت بھی کرتا ہے اور پھر چاہتے نا چاہتے ہوئے اس سوال کا جواب لازمی دینا پڑتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).