زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے


پیپلز پارٹی کے نوجوان چئیرمین بلاؤل بھٹو زرداری نے جب سے کہا ہے کہ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے اس بات کو لے کر ملک میں کہرام سا مچ گیا ہے۔ یہ مگر اب تک پتہ نہ چل سکا کہ اس جملے میں ایسی کیا بات تھی جس کو ملک کے وزیر اعظم کو بھی دوہرانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بارش جہاں باران رحمت ہے وہاں مصائب کا سبب بھی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں، مقامات کے علاوہ خانہ کعبہ میں بھی کئی بار بارش کا پانی سیلابی شکل اختیار کر چکا ہے۔

2008 ء میں پشاور شہر کے نواح میں سیلاب آیا جس میں 30 لوگوں کی جان گئی اور سینکڑوں بے گھر ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ دریائے چترال افغانستان سے ہوتا ہوا دریائے کابل میں شامل ہوکر یہاں سے گزرتا ہے۔ وارسک ڈیم کا منبع بھی یہی دریا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاری صرف اس لئے زیادہ نہیں ہوئی تھی کہ چار دن پشاور اور نواح میں بارش اور دریائے کابل کے بہاؤ میں اضافہ کے ساتھ وارسک ڈیم کے سپل والو بھی کھول دیے گئے تھے، بلکہ زیادہ تباہی اس لئے ہوئی کہ پانی کے بہاؤ کے راستے میں حیات آباد کے گرد کھڑی کی جانے والی دیوار آ گئی تھی جس کی وجہ سے پانی کا رخ تبدیل ہوا اور ان جگہوں سے سیلابی پانی گزرا جو اس کا راستہ نہیں تھا اور آبادی سے سیلابی پانی کا گزرنا تباہی کا سبب بنا۔

2008ء میں ہی سندھ میں شکار پور سے جامشورو تک سیلاب سے تباہی ہوئی تھی۔ اب بھی انڈس ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے سن اور جامشورو کے درمیان اس سیلاب سے بے گھر ہونے والوں کے لئے بنائے گئے شیلٹر ہومز (پناہ گاہیں) نظر آتے ہیں۔ یہ تباہی بھی پانی کے بہاؤ کا رخ بدل دینے سے ہوئی تھی۔ شکار پور میں ایک با اثر زمیندار جو اس وقت کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے کی زمینوں کو بچانے کے لئے سیلابی پانی کا رخ موڑ دیا گیا جس کی وجہ سے ایک بڑا علاقہ زیر آب آگیا تھا۔ اگر پانی کے بہاؤ کے رخ کو نہیں موڑدیا جاتا تو اپنے فطری راستوں سے گزرنے والا پانی سیلاب نہیں بن جاتا اور نہ ہی تباہی کا باعث بنتا۔

2010 ء کا سیلاب تو ایک تاریخی واقعہ ہے جو ہر جگہ تباہی کی داستان چھوڑ گیا۔ بلتستان میں دریائے شیوک میں تیرتی ہوئی سرحد پار سے آنے والی گاڑیاں دیکھی گئیں۔ گلگت میں ہنا سارا دریا کے گھروں میں گھس آنے کی لوگوں کی شکایت پر گلگت بلتستان کے اس وقت کے چیف سیکرٹری نے تاریخی جملہ کہا کہ اس کے پاس دریا کی لوگوں کے اس کے راستے میں در آنے کی شکایت پہلے سے آئی ہوئی ہے۔ جب لوگ راستے میں گھر بنائیں گے تو دریا گھروں میں گھس آئے گا یہ قانون فطرت ہے۔

شاہراہ قراقرم پر پہاڑوں سے آنے والے ندی نالے سڑک سے جہاں ملتے ہیں وہاں لوگ ہوٹل اور دوکانیں تعمیر کرکے تفریحی جگہ بنا دیتے ہیں۔ بہتے نالے کے شفاف پانی سے گاڑیاں دھوئی جاتی ہیں۔ لوگ نالوں اور آبشاروں سے آنے والی ہوا کی ٹھنڈی فضا میں مشروبات اور کھانے پینے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر 2010 ء جب پہاڑوں پر زیادہ بارش ہوئی تو یہاں بھی زیادہ پانی آیا جو ہوٹلوں، دوکانوں اور گھروں کو بھی بہا کر لے گیا۔ پہاڑی مقامات کی گرج چمک والی بارش سے آنے والا فلیش فلڈ تو انسانوں کو بھی جان بچا کر بھاگ جانے کا موقع نہیں دیتا۔ املاک کے علاوہ کئی جانیں بھی گئیں۔

2010 ء میں جنوبی پنجاب تک دیہاتوں کے دیہات ڈبونے کے بعد سیلابی پانی کے سندھ میں داخل ہونے سے پہلے بہاؤ میں کٹ (شگاف) لگا کر بلوچستان کی طرف موڑا گیا۔ اس کٹ لگانے کی کئی وجوہات بتائی گئیں۔ سکھر سے تعلق رکھنے والے ایک با اثر سیاست دان کو جو اس وقت وفاقی وزیر بھی تھے ذمہ دار قرار دیا تو انھوں نے کہا کہ پانی کے بہاؤ سے راستے میں پڑنے والی چھاؤنی کو بچانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔

کٹ لگانے کے بعد پانی بلوچستان کی طرف چلا تو گیا مگر اس کو واپس آنے کا راستہ نہ ملا۔ دریائے سندھ کو کھارا پانی کے زہر سے بچانے کے لئے اس کے دونوں کناروں پر رائٹ بنک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) اور لیفٹ بنک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) بنا دی گئی ہے۔ یہی ڈرین سیلابی پانی کے واپس دریا میں واپس آنے میں رکاوٹ بنی تو پانی نے اپنا راستہ بنا لیا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور سندھ کے ساتھ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ بھی زیر آب آگیا۔ بلوچستان میں پانی کے بہاؤ میں آر بی او ڈی کی رکاوٹ کی وجہ سے سال بعد تک پانی کو کھڑا دیکھا جا سکتا تھا۔

ریلوے ٹریک، موٹر وے اور بڑی بڑی شاہراؤں کی تعمیر کے دوران بارش اور سیلابی پانی کی نکاسی کا بندوبست نہ ہو تو مصیبت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سری نگر میں 2014ء کا سیلاب جس کی اس شہر کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی وہ بھی اس شہر میں ریلوے ٹریک کی تعمیر کے بعد آیا۔ ریلوے کے ٹریک کی تعمیر سے بارش اور پہاڑوں سے آنے والے سیلابی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ آئی تو شہر میں گھس آیا اور چار سے چھ فٹ تک مکانوں اور دوکانوں میں گھس آیا تھا۔ سال بعد جب میں وہاں گیا تو لوگ سیلابی پانی سے خراب ہوئی اشیا کو سستے داموں بیچتے ہوئے اپنی تباہی کی داستان سنا رہے تھے جو ہمارے ہاں سے مختلف نہ تھی۔

ترقی یافتہ ممالک میں دریا کے کنارے سڑکوں، عمارتوں اور ڈیموں اور پن بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبوں کی منصوبہ بندی کے دوران کم از کم گزشتہ سو سال میں ہونے والی بارش، طغیانی اور سیلابی پانی کے بہاؤکا اعداد و شمار حاصل کیا جاتا ہے اور ممکنہ اونچی اور نچلی سطح کا تعین کیا جاتا ہے تاکہ پیش بندی کی جا سکے۔ ہمارے ملک میں ایسی منصوبہ بندی بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور نجی شعبے کے اشتراک سے بننے والے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں دیکھی گئی ہے۔ پانی کے بہاؤ کے علاوہ سالانہ اوسط بارش کے اعداد و شمار بہت آسانی سے دستیاب ہیں جو شہری منصوبہ بندی میں کام لائے جاسکتے ہیں۔ مگر ایسا کرے گا کون یہاں تو ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے سے کسی کو فرصت نہیں۔

ترقیاتی انفراسٹرکچر جس میں ڈیم، سڑکیں، عمارتیں اور ریلوے ٹریک وغیرہ شامل ہیں، عموماً بارش اور سیلاب کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں پانی اکھٹا ہوکر زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ بارش اور سیلابی پانی کے فطری راستوں پر تعمیرات پر پابندی لگانے کے علاوہ ندی نالوں کی گزشتہ کم از کم سو نہیں تو پچاس سالوں میں بہاؤ کی انتہائی سطح کو خالی رکھنے پر قانون سازی کرنا چاہیے۔ نجی اور سرکاری تمام ترقیاتی سکیموں کی ماحولیاتی جائزہ رپورٹ میں اس علاقے میں پانی کے بہاؤ پر منصوبے کے اثرات اور تحفظ کو شامل کرنا چاہیے۔

کرہ ارض پرموسمیاتی تبدیلی کے ساتھ جہاں بارش کی فریکوینسی اور شدت دونوں بڑھ جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے وہاں شدید خشک سالی بھی متوقع ہے۔ ایسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ بارش ہو تو زیادہ پانی نہ آجائے اور زیادہ تباہی نہ ہو۔ ہم زیادہ بارش ہونے کو نہیں روک سکتے مگر بارش کے پانی کو راستہ دے کر خود کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ کراچی ہو یا لاہور یا کوئی اور شہر گزشتہ دو دہائیوں میں طغیانی اور برساتی پانی کی گزرگاہوں پر سڑکوں، عمارتوں اور نئی رہائشی سکیموں کو بننے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر بار باران رحمت ہمارے لئے افتاد کا سبب بن جاتی ہے۔ ہر سال بارش جتنی زیادہ ہوتی ہے نقصان بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو کی زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے والی بات تکنیکی طور پر تو غلط نہیں مگر لگتا ہے اعتراض لسانی بنیادوں پر ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کا لہجہ و تلفظ غلط ہے یا اہل زبان کو ان کی گرامر سے مسئلہ ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan