اب شاید جمہوریت ہماری مجبوری نہ رہے


سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ وبا کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ پاکستان میں وبا کا آسیب کچھ زیادہ ہی تھا۔ پھر کپتان کی سرکار کم از کم اس معاملہ پر بہت زیادہ فکرمند نظر آئی۔ لاک ڈاؤن کے مسئلہ پر بہت اختلاف نظر آیا۔ ڈاکٹر حضرات اور سندھ کے منتری جی مرکز کے اقدامات سے بالکل مطمئن نہیں تھے۔ مگر دوسری طرف داخلی خودمختاری کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہوتی رہی اور وبا کا زور کراچی اور سندھ کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتا خیر قدرت کا ایک اپنا نظام ہے۔ اور وبا کے لئے جو اقدامات مرکزی سرکار نے کیے ان میں بہتری نظر آئی۔ شہروں میں لوگوں کو کچھ احساس بھی نظر آیا مگر دیہاتی علاقوں میں عوام کا مزاج اور طریقہ کار غیر سنجیدہ ہی رہا۔ اس وبا کا زیادہ زور شہروں میں رہا مکمل لاک ڈاؤن کو نظرانداز کر کے سافٹ لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنایا گیا اور اس سے وبا کے پہلے حملہ میں پاکستان کامیاب ہوا ہے مگر ابھی خطرہ ٹلا نہیں اور خدشہ ہے کہ اس وبا کا ایک اور حملہ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے حفاظتی اقدامات پر مکمل عمل جاری رکھا جائے مگر وبا اور ہماری سیاست دونوں ہی ناقابل اعتبار ہیں۔

وبا کے دنوں میں ہماری سیاست اور سیاست دان دونوں ہی بہت بپھرے بپھرے نظر آ رہے تھے اور ہمارے سیاست دان اپوزیشن میں ہوں یا سرکار میں ان کے قول و فعل پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کو دو سال ہونے کو ہیں مگر اپوزیشن اسمبلی میں شور شرابا کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکی اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کرتی نظر آ رہی ہے۔ جناب شہباز شریف بہت جتن سے اپوزیشن لیڈر بنے تھے اور امید کی جا رہی تھی کہ سرکار کو عوامی مفاد میں بہترین مشورے دیں گے مگر ان کی اپنی جماعت میں ایک علیحدہ سیاسی تناؤ تھا۔ پھر ان کے حلیف بھی غیر سنجیدہ تھے الیکشن کے فوراً بعد ہارے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کوشش کی کہ اس الیکشن کو ہی تسلیم نہ کیا جائے اور اسمبلی میں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ مگر اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے ایسا کچھ نہ ہو سکا اور پھر جمہوریت میں ضروری ہے کہ آپ میدان میں مقابلہ کریں اور اگر آپ بائیکاٹ کرتے ہیں تو جمہوریت بے چاری بیوہ ہو سکتی ہے۔

خیر جیسے تیسے اسمبلی میں سب لوگ آ کر اپنا یومیہ وصول کرتے رہے اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام کی قسمت بدل سکتی دوسری طرف نیب کا ادارہ بھی اپنا کردار موثر طریقہ سے ادا کرتا رہا۔ اپوزیشن کے لوگ نیب پر مسلسل الزامات لگاتے رہے۔ کوئی بھی سیاست دان نیب کی عدالت میں اپنی صفائی دیتا نظر نہیں آیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری پہلے تو بہت بڑھکیں مارتے تھے مگر نیب کی تحقیق اور الزامات کا جواب دینے کی بجائے بیمار ہو گئے۔ ایک زمانہ میں ان کے ایک پیر صاحب صدارتی محل میں ان کے ساتھ رہتے تھے جو ان کو ہر طرح کے شر سے دور رکھتے مگر اب کی دفعہ پیر صاحب کا کشف بھی کام نہ دکھا سکا۔ ایک زمانہ میں زرداری، امریکہ اور ہماری فوج کے بہت قریب تھے اب دونوں فریق ہی بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں امریکہ اب اپنی مشکلات میں مصروف ہے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور پاکستان کی توجہ چاہتا ہے۔ پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور امریکہ اتنا دور تھا اور ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں لگتا۔

ہمارے سابق خادم اعلیٰ اور حالیہ حزب اختلاف کے لیڈر اپنے برادر بزرگ کی وجہ سے سیاست میں قدم جماتے نظر نہیں آ رہے۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے جو کچھ اپنے صوبے میں کیا اور چین کے ساتھ کچھ معاہدے کیے وہ عوام کے لئے اور جمہوریت کے اعتبار کے لئے بہت موثر ہوں گے ۔ عوام کو جمہوریت کا احساس نہیں وہ تو اپنی بنیادی مشکلات کا مداوا چاہتے ہیں اب سکولوں اور تعلیم کے معاملات کو ہی دیکھ لیں نہ سکولوں کا کوئی موثر نظام ہے لوگوں اور اداروں نے اپنی اپنی مرضی سے ذاتی تعلیمی ادارے بنا رکھے ہیں اور جن کی فیس بھی عام آدمی کی بساط سے باہر ہے اور کچھ ایسا ہی حال ہمارے طبی شعبہ کا ہے اتنے اسپتال بنائے مگر لوگ ان سے مطمئن نہیں پرائیویٹ سیکٹر کا میڈیکل مہنگا اتنا ہے کہ عام آدمی تصور نہیں کر سکتا۔ پھر یہ امید رکھنا کہ لوگ ان کے کارناموں کو یاد رکھیں کچھ مناسب نہیں۔ اب بھائی صاحب اور سابق وزیر اعظم ملک سے باہر معالج کے انتظار میں ہیں اور ہمارے سابق خادم اعلیٰ خود بھی بیمار اور مایوس نظر آتے ہیں۔

ایک عرصہ کے بعد ہماری اپوزیشن کچھ بدلی بدلی نظر آ رہی ہے اس میں پہلا بدلاؤ اس وقت نظر آیا جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لئے عمران خان نے اصرار کیا اور یوں لگتا تھا کہ جمہوریت کو خطرہ ہو گیا ہے اور بڑی عدالت نے اس معاملہ پر کچھ زیادہ ہی توجہ دے ڈالی۔ سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ کا ایک نیا روپ نظر آیا۔ فوج اس معاملہ میں لاتعلق سی نظر آئی پھر جسٹس کھوسہ نے مقدمے کی گیند اسمبلی میں پھینک دی کہ آپس میں فیصلے کرو مقام شکر ہے کہ جمہوریت کے کارن تمام لوگ قومی مفاد کے تناظر میں ایک فیصلہ پر متفق ہو گئے اور حالات بھی کچھ ایسے تھے بھارت مسلسل جارحیت کر رہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان دوست ممالک کے ساتھ مشاورت کرتے رہے۔ سعودی عرب کے ساتھ عمران خاں نے بامقصد مذاکرات کیے اور وہ لوگ بھی ہماری سیاست میں کچھ کچھ اچھا کردار ادا کرتے رہے مگر اب ایک نئی صف بندی نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب کو ہمارے مخلص دوست ترکی اور چین پسند نہیں آ رہے اور نہ ہی کشمیر پر وہ ہمارے موقف کی تائید کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

چین بھارت تنازعہ میں اور وبا کے دنوں میں پاکستان اور پاکستان کی سرکار نے بڑا مثبت کردار ادا کیا۔ چین کو احساس ہوا کہ پاکستان کو اندازہ ہے کہ اس کو کیا کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان نے چین کی غیر مشروط مدد کی دوسری طرف بھارت بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کو مسلسل نشانہ بناتا رہا۔ اس کی کوشش تھی اور ہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی طور پر پابندیاں لگ جائیں ایسی پابندیاں اس سے پہلے ایران اور نارتھ کوریا پر لگ چکی ہیں مگر وہ دونوں ممالک بھی گزارہ کر ہی رہے ہیں۔ پاکستان بھی گزارہ کر سکتا ہے مگر اس کے باوجود بین الاقوامی مالی اداروں کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے اور ایسی قانونی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جن سے بین الاقوامی کرپشن کو روکا جاسکے اور یہ سب کچھ عمران کی سرکار اکیلے نہیں کر سکتی۔

شنید ہے کہ عمران کی سرکار بہت ساری قانونی اور انتظامی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے اور نظام میں بدلاؤ آ رہا ہے مگر ہمارے گردوپیش میں تبدیلیاں بھی قابل فکر ہیں۔ ملک میں صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے اور تبدیلی اور ترقی میں کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اب شاید جمہوریت ہماری مجبوری نہ رہے پاکستان کو ایک نئی حیثیت میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اگلے چند ماہ میں یہ تبدیلیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).