کشمیر تو آزاد ہو گیا، کیا اب میں اُدھار لے سکتی ہوں؟



پچھلے سال پانج آگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پہ لاگو آئین کی آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے اس کی آزادانہ حیثیت ختم کردی گئی تھی۔ کشمیریوں پہ جبر و ظلم کی داستان تو بہت پرانی ہے، پر حالیہ بھارتی اقدام سے ان مظلوم کشمیریوں کے نہ صرف حق غصب کرلیے گئے، پر تب سے لے کر اب تک نافذ ہونے والے کرفیو میں کشمیریوں نے بہت مظالم جھیلے ہیں، جن کا کوئی شمار نہیں۔ گرفتاریاں، قید و بند کی صعوبتیں اور جسمانی تشدد صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو کہیں نہ کہیں سراپا احتجاج تھے، نعرے بلند کر رہے تھے، اور آزادی کی مانگ کر رہے تھے۔

باقی جو چپ کا روزہ رکھے ہوئے گھر کی چار دیواروں تک محفوظ تھے انہوں نے بھی کم نہیں بھگتا۔ ایک طرف شک کی بنیاد پہ بندے اٹھا لیے جاتے تو دوسری طرف کرفیو نافذ ہونے کے باعث کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی، جس سے عام کشمیری بھی دہری اذیت میں مبتلا ہوگئے۔ کرفیو کے دوران کئی کشمیری بہنوں ماؤں کی عصمت دری کی گئی، بھارتی فوج کے سامنے کوئی چھوٹا، بڑا، بزرگ تھا ہی نہیں، وہ کوئی تفریق کیے بغیر سب پہ ظلم و ستم ڈھاتے گئے۔

تین ہزار سے زائد زخمیوں میں سے چند سو لوگ ایسے بھی تھے، جن کی تشدد کی وجہ سے بینائی چلی گئی تھی، اور وہ اس جنت کی وادی کو اب دیکھنے کے قابل نہیں رہے تھے، سات سو سے زائد جان گنوا چکے تھے۔ باقی انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا سے ان کا رابطہ تو پہلے ہی منقطع ہوچکا تھا، وہ چاہتے تو بھی اپنی آواز دنیا تک پہنچا نہیں پاتے، اور جو بچے کچھے غیرجانبدار صحافی رپورٹر تھے ان کو بھی محدود کر لیا گیا۔ بھارتی میڈیا پہ تو سب وہی دکھایا گیا جیسے کہ کوئی کرفیو نافذ ہوا ہی نہیں، بلکہ کشمیریوں کے لیے آزادی کا پروانہ جاری ہوا ہو، اور سارے کشمیری خوشی سے جھوم اٹھے ہوں۔

پاکستان کے قیام کے دوران جب بٹوارا ہوا تو یہ کشمیر کا حصہ تکراری رہ گیا تھا، کچھ ٹکڑا پاکستان کے حصے میں آیا، جو آزاد کشمیر کے نام سے ہم جانتے ہیں، باقی سرینگر اور اردگرد کے علاقوں پہ بھارت کی حکومت نے قبضہ جما لیا، اور وہاں پہ مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے، نہ ہی آزادی کی تحریک دب سکی، نہ ہی بھارتی فوج کے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا کوئی دنگ رہا۔ یہ خون کی ہولی کا کھیل برسوں سے جاری ہے، اور ہمارے ملک کے تمام وزراء اعظموں نے کشمیر کے اسے حصے کو آزاد کروانے کا عہد تو کیا، پر کوئی بھی آج تک یہ کامیابی اپنے حصہ میں نہیں کر سکا۔

پاک بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر بھی ہے، ماضی میں بھی دونوں حکومتیں جب جب مذاکرات کے لیے راضی ہوئی ہیں، تب تب کوئی ایسا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے، جو مذاکرات دو قدم پیچھے رہہ جاتے ہیں اور ایک غیر معینہ مدت کے لیے ڈیڈ لاک برقرار رہہ جاتا ہے۔ کسی نے سولا آنے سچ کہا کہ برطانوی انگریزوں نہ جان بوجھ کر یہ علاقہ متنازعہ چھوڑدیا، جیسے دونوں پڑوسی ممالک میں نوک جھوک ہوتی رہے۔ پاک بھارت تعلقات تو خونریزی اور جنگی جنون سے بھرے ہیں، پر اس کی شدت میں کمی لانے کے لیے سپر پاور ملک بھی کوئی کردار ادا نہیں کر پایا۔

اقوام متحدہ کی قرارداد میں مذاکرات سے اس مسئلے کا حل نکالنے کو کہا گیا ہے، پر اس طرف سے بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ پر بھلا ہو موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا، جنہوں نے ایک ایسا کام کیا ہے، جس کی دور دور تک توقع بھی نہیں تھی۔ وزیراعظم جو کہتے تھے کہ اس بار انتخابات میں نریندر مودی منتخب ہوکے بھارتی وزیراعظم بنا تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا، انہیں کی مہربانیوں سے چار آگست کو کابینہ اجلاس میں، پاکستان کا ایک نیا نقشہ جاری کیا گیا، جس میں کشمیر کو پاکستان کے حصے میں ڈال دیا گیا ہے۔

اس بات پہ عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ، انہوں نے وہ کر دکھایا جو کبھی کسی پاکستانی نے نہیں کیا، ہاں یاد آیا! ہمارے ملک کے نقشے میں 1971 کو ایک لکیر ضرور کھینچی گئی تھی، جب مشرقی پاکستان ہم سے چھین لیا گیا تھا۔ یہ بات بہت حیران کن بھی ہے، اور تعجب بھی ہورہا ہے کہ، یہ کیسے ممکن ہے کہ نقشے کی تبدیلی سے کوئی فتح حاصل کی جائے۔ ساتھ ہی تمام ملکی ائرپورٹس پر سرینگر کے ٹائم کا گھڑیال بھی لگادیا جائے گا۔

کچھ عرصہ پہلے بھارت نے بھی اسی پاگل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے، پاکستانی علاقے مظفرآباد اور گلگت بلتستان کو اپنے نقشے میں ڈال دیا تھا، پر نقشے میں ڈالنے سے ان کو سوائے اپنی تسلی کے کچھ حاصل نہیں ہوا، اور یہاں ہمارے حکمرانوں نے بھی اپنی دل کی تسلی کے لیے مقبوضہ کشمیر کو اپنے حصے میں ظاہر کر دیا ہے، یہ نقشہ نصاب میں اور سرکاری طور بھی لاگو ہوگا یا نہیں، اس کا فی الوقت کچھ پتا نہیں۔ کچھ دن پہلے ہی وفاقی وزیر علی محمد خان نے یہ اعلان بڑے فخر سے کیا کہ، ہم سرینگر کی جانب بڑھ رہے ہیں، اور جلد ہی دھلی کے تخت پر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑیں گے۔

کیا عالمی حالات، زمینی حقائق یہ عندیہ دیتے ہیں کہ، یہ سب ابھی یا آنے والے کچھ سالوں میں ممکن ہو سکے گا؟ کشمیر پہ جب آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہوا، تب بھی ہم نے دنیا بھر کے تمام حکمرانوں کو خطوط لکھے، اقوام متحدہ میں پرجوش تقاریر کی، پر کوئی بھی ملک ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار نہ ہوا، اور سپر پاور ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ملا کر جھولتے رہے۔ یہ تو سراسر ہماری کشمیر پالیسی کے مذاق اڑانے کے مترادف ہے، کہ ایک طرف نہتے کشمیری اپنی جانیں گنوا رہے ہیں اور آمریکی صدر مودی کے ساتھ جشن منا رہا ہے، جس کے کہنے پر ہم نے دہشتگردی کو اپنی سرحدوں کا راستہ دکھایا، اور بم بارود کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی۔

اس نقشے کے ساتھ ایک اور سوال ذہن میں ابھرا ہے، جو حل طلب ہے۔ جب کبھی میں شاپنگ کے لیے مارکیٹ کا رخ کرتی ہوں تو کچھ دکانوں کی دیواروں پہ لکھا ہوتا ہے کہ، کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔ تو کیا میں ان دکانوں سے ادھار پہ سامان لے سکتی ہوں، یا جیسا کہ اب ہمارے حکمراں سرینگر کے تخت پہ نہیں بیٹھے تو کچھ دن اور صبر کروں، جب مقبوضہ کشمیر میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments