کرونا عذاب نہیں، پاکستان پر کبھی عذاب نہیں آ سکتا



سن 2005 میں جب زلزلہ آیا اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے ساتھ ساتھ کشمیر میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا تو ایک دن کالج سے واپسی پر بس میں ایک مولوی صاحب کو اس بات پر دلائل دیتے ہوئے سنا کہ پاکستان پر اللہ کا عذاب کبھی نہیں آ سکتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ زلزلہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں وہ غلط کہتے ہیں۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں پر کبھی عذاب نہیں آ سکتا۔ ہاں اللہ کی طرف سے آزمائش آ سکتی ہے۔

کافی عرصہ تک یہ بات میرے کچے ذہن میں راسخ رہی کہ پاکستان پر کبھی اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا۔ ہر بار جب کوئی آفت آئی چاہے وہ مہنگائی کی صورت ہو یا بجلی پٹرول کے بحران کے رنگ میں۔ ذخیرہ اندوزی ہو یا حکمرانوں کے بے اعتدالیاں، ہر بار یہ سوچ کر ٹال دیا کہ ”پاکستان پر کبھی عذاب نہیں آ سکتا۔“

اس سال بھی کرونا وائرس کا شدید حملہ ہوا۔ ملک میں معاشی بحران بھی آیا۔ ٹڈی دل کا حملہ بھی ہوا ہے لیکن دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہے کہ پاکستان پر کبھی اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا۔ بلکہ اب تو اس بات پر یقین مزید پختہ ہو گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز آتی ہیں کہ کرونا کیا آ گیا ہے ہم لوگ اپنی ’اوقات‘ دکھانے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ اللہ کا عذاب ہے ہمیں توبہ استغفار کرنا چاہیے اور لوگوں کی مدد کرنی چاہیے ان کو لوٹنا نہیں چاہیے۔ ان سب لوگوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عوام کو طعنے دینے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ کرونا وائرس ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ تو صرف یہود و نصاریٰ، مشرکوں کو عذاب دینے آیا ہے۔ ہمارے ملک میں تو ویسے ہی کچھ دیر دکھاوے کے لئے آیا ہے۔ اسی لئے تو ہماری عوام نے اس پر توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بلکہ یہ وائرس تو ہمارے لئے خوشیاں اور شادمانی لایا ہے۔

اب دیکھیں! کرونا کا آغاز ہوا تو ماسک اور سینی ٹائزرز بنانے والی کمپنیوں کے خوشحالی کے دن آ گئے۔ وہ کمپنیاں جنہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا انہوں نے تو مہنگائی کر کے خوب پیسہ کمایا ہی لیکن اپنے پیارے ملک میں بہت سے جعلی ماسک اور سینی ٹائزرز مارکیٹ میں آ گئے اس لئے وہ لوگ بھی خوشحال ہو گئے جن کے پاس پہلے روزگار نہیں تھا۔ اس وائرس کے بہانے انہوں نے جعلی کاروبار کر کے خوب کمایا۔ اس لئے یہ وائرس ان کے لئے تو عذاب نہیں ہو سکتا۔

پھر ہسپتالوں والوں کو علم ہوا کہ اس وائرس کے شکار لوگوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں اس کی کمی ہے تو پرائیویٹ ہسپتال والے جو عوام کی ’بے لوث‘ خدمت کرتے ہیں انہیں بھی موقعہ ملا کہ وہ کچھ پیسہ کما لیں تو انہوں نے وینٹیلائر کی قیمت اس حد تک بڑھا دی کہ سوائے امیر لوگوں کے اس بلا کا خیال بھی دل میں نہ لائے۔ جس دوا کے بارے میں علم ہوا کہ یہ کرونا کا علاج ہو سکتا ہے اس کی قیمت منٹوں میں آسمانوں کو چھونے لگی اور دوا بنانے والی کمپنی کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزوں کا بھی فائدہ ہو گیا۔ اصل میں تو ان غریب پنساریوں کا بھلا اس وبا نے ہی کیا ہے جن کی جڑی بوٹیاں مہینوں پڑی رہتی تھیں اور بکتی نہیں تھیں انہوں نے بھی دگنی چوگنی قیمت کر کے خوب دولت کمائی اور اپنی خوشحالی کے سامان کیے ۔ اس بہانے ان کی جڑی بوٹیاں بھی بک گئیں اور انہوں نے پیسے بھی کما لئے۔ پلس اوکسی میٹر جیسا عام ملنے والا آلہ بھی اس وقت کئی سو گنا مہنگا ہو چکا ہے۔ اور یہی حال ہر اس بزنس کا ہے جو کرونا سے وابستہ ہے۔ سب کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ اسی لئے تو میرا ماننا ہے کہ یہ تو ہمارے ملک میں خوشحالی اور پیسہ لے کر آیا ہے۔ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ معیشت تباہ ہو رہی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو عوام کا بھلا بھی تو ہونا چاہیے تھا۔ اس وبا نے عوام کا بھلا کیسے کیا؟ تو جناب! یہ وبا جب ہماری خوشحالی اور ’نیک اعمال‘ کا نتیجہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ عوام کا بھلا نہ کرے۔ اس وبا نے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر کیا ہے اور آگے بھی کرتی رہے گی۔ ہزاروں شفایاب ہو گئے ہیں اور ہزاروں مزید ہوں گے ۔ تو وہ سب لوگ جو عوام ہیں اور اس وبا سے شفایاب ہو چکے ہیں ان کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ سب لوگ بھی لکھ پتی بن سکتے ہیں۔ کیونکہ اس سے ٹھیک ہونے والوں کا پلازما، جس کی پہلے کوئی قیمت ہی نہ تھی، اب لاکھوں میں بک رہا ہے۔ اور مزید یہ کہ چند دن کے وقفہ کے بعد وہ اپنا پلازما پھر دوبارہ بھی عطیہ کر سکتے ہیں۔ گویا عوام تو ککھ سے لکھ پتی ہونے جا رہی ہے۔ پہلے جو پلازما لوگ مفت عطیہ کیا کرتے تھے اس وبا کے آنے سے اس وقت اس کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ یعنی ہر صحتیاب مریض اس ’کار خیر‘ میں حصہ لے سکتا ہے۔

ان سب دلائل کی بنا پر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اللہ کا ہم پر عذاب ہے؟

مزید یہ کہ کیا ہم نے اس کو عذاب سمجھ کر کچھ توبہ و استغفار کرنے کی کوشش کی؟ اگر ہوتا تو ہم ضرور کرتے۔

اس لئے وہ سب لوگ جو ہمیں ’لیکچر‘ دیتے ہیں کہ خدا کا خوف کرو یہ اللہ کی طرف سے عذاب ہے ان کو چاہیے کہ اب وہ ایسا نہ کہا کریں۔ اور ہمیں پیسہ کمانے دیں۔ یہ تو ہمارے لئے ایک خوشحالی کی نوید لے کر آیا ہے۔ یہ عذاب صرف مشرکوں، ہندووں، امریکہ بھارت، یورپ وغیرہ کے لئے ہے۔ ہماری معیشت کو کوئی خطرہ نہیں خطرہ تو یورپ و امریکہ کی معیشتوں کو ہے۔ اس لئے ہم تو ذخیرہ اندوزی بھی کریں گے، دھوکہ دہی بھی جاری رکھیں گے، جعل سازی بھی کریں گے اور پیسہ بھی کمائیں گے کیونکہ ”پاکستان پر کبھی عذاب آ ہی نہیں سکتا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments