کچھ ذکر ریاست پاکستان کے موسموں کا


پہلی قسط میں سلطنت سیاست کے حدود اربعہ پر بات ہوئی تھی جبکہ آج کی قسط میں مذکورہ سلطنت کے موسموں پر بحث کیا جائے گی۔

جمہوریت کے موسم

اقلیم سیاست میں کہنے کو تو جمہوریت کے بہتیرے موسم آئے مگر غیر جمہوروں کو نابالغ جمہوریت کے گن بھائے نہیں اور نہ ہی انہوں نے اسے بلوغت کا موقع دینے کا سوچا۔ یہ موسم سب سے کم دورانئے کا موسم ثابت ہوتا رہا۔ جمہوریت کی عمر کا جام ہمیشہ ہی کف دست ساقی چھلکتا رہا۔ یہی وہ موسم رہا جہاں دنوں میں سورج گرہن اور راتوں کو چاند گرہن دیکھے گئے۔ یہاں راتوں نے کئی سیاسی سہاگنوں کے ماتھے کے جھومر لوٹ کر خود سجائے۔ یہ موسم ہمیشہ پت جھڑ میں آیا اور بہار آنے کے قریب لپیٹ دیا گیا۔

لہٰذا جب کبھی بھی جمہوریت کی بلبل چہکی، صیاد و باغباں میں ملاقات قومی مجبوری ٹھہری۔ دوسری جانب جمہوری آوارگی کا اعجاز ہی کچھ ایسا رہا کہ داستاں چھوڑے بن نہ رہی۔ ایسے ایسے گل کھلے کہ عوام کا ڈنڈا عوام کے سر ہی رہا۔ اکثر و بیشتر جمہوریت کے موسم میں anarchy اور monarchy کا راج رہا۔ ا سی لئے تو جمہوریت کو بہترین انتقام بھی سمجھا جاتا ہے۔ جمہوریت لہٰذا ابراہیم لنکن کی جمہوریت سے کچھ ایسے مختلف رہی :

” Government off the people، buy the people and far the people۔“

اقبال کو اس طرز حکومت میں بندوں کو تولنے کی بجائے گنے جانے پہ شدید اعتراض تھا۔ قوم نے اقبال کی نہ مان کر اچھا ہی کیا ورنہ آ ج کے چند مذہبی اور کچھ خاتون سیاستدانوں کی شکم پروریاں اور فربہ اندامیاں کافی مشکلات کا موجب بن سکتی تھیں حتیٰ کہ ترازوؤں کا ٹوٹنا بعید از امکان نہ رہتا۔ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے موسم میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس آ جاتا ہے اور یلغار اعلیٰ کسی اور کے پاس۔ جبکہ انتشار اعلیٰ کا سر چشمہ وکیل، عوام اور صحافی ہیں۔

جمہوری اور اکثریتی فیصلے اکثر غلط ہوتے ہیں مگر رد فساد کے لئے قبول کرنا بہتر ہے۔ افرادی قوت کی حامل برادریاں ووٹوں کی لاٹھی سے جمہوریت کی بھینس کو اندھا دھند ہانکتی ہیں۔ ووٹوں کی قوت کے سامنے سب ایم پی ایز، ایم این ایز جرم کا ساتھ دینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ بصورت دیگر آئندہ انتخابات میں ووٹ ملنے کے امکانات جاتے رہتے ہیں۔ وڈیرے، پیر، مشائخ، اور علماء جمہوریت میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے پیرو کار اور عقیدت مند مرشد کے اشارے کے غلام ہیں۔ اور جہالت کے باعث ان کی ہر بات اور ہر حکم حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ہم لوگوں کو پرکھنے میں عیب آشنا ہیں اور بھینگے پن کا شکار بھی ہیں۔ اب ہماری قوم اورسیاستدانوں کونہ جانے کون سی ٹیوشن درکار ہے جو انہیں ملک کا کونسٹی ٹیوشن سمجھنے کے قابل بنائے۔

آمریت کے موسم

یہ موسم ریاست کا قومی موسم شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ قیام سے لے کر تا حال اسی موسم کی روح کی تاثیر محسوس کی جاتی ہے۔ یہ مارشل لاء نامی وبا پھیلنے کی وجہ سے وارد ہوتا ہے۔ ریاست کی مجموعی عمر کا نصف آمریت کے موسموں کے زیر سایہ گزرا ہے۔ ان کے علاوہ کہنے کے جمہوری ادوار بھی حقیقت میں آمرانہ ہی تھے۔ آمریت کے بڑے لمبے لمبے موسم بیتے ہیں۔ اس موسم کی امتیازی تاثیر یہ بھی ہے کہ یہ اپنی بقا کی جنگ خوب جانتا ہے اور اپنی حفاظت خود کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔

اک سیانے کا قول ہے۔ ”اس موسم کی یہ عادت عجیب ہے کہ جہاں یہ ایک بار آ جائے تو پھر بار بار آتا ہی رہتا ہے“ ۔ تین بار تو یہ موسم دس دس سال پہ محیط رہے۔ دو تین بار اس موسم کی چھوٹی چھوٹی وبائیں بھی پھیلیں۔ ویسے بھی من حیث و القوم ہم آمریت کے موسموں کے مداح ہیں اور ”بائی ڈیفالٹ“ ان کی مدحت حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق یہ ان خطوں کو لپیٹ میں بآسانی لیتا ہے جہاں جمہوریت کا immune system کمزور یا نا کارہ ہوتا ہے۔

یہ دنیا کے اکثر پسماندہ ممالک میں اکثر ہی براجمان رہتا ہے۔ بعض اوقات جمہوری آمریت کا ماحول بھی حاوی رہے ہیں۔ پہلی با ر یہ موسم ساٹھ کے عشرے کے لگ بھگ وارد ہوا۔ یہ موسم ریاست کے بعض باشندوں کے لئے موافق اور کچھ کے لئے مضرسیاست رہا۔ خاص کر اس موسم سے الرجک حضرات کو PODO اور EBDO جیسے سیاست کش مسائل سے دو چار ہونا پڑا۔ اس موسم کی تندی کا مقابلہ کرنے والی خواتین پہ لطیفوں اور پھبتیوں کی برساتیں کر دی گئیں۔

اس گیارہ سالہ موسم میں متعدد بار نا خوشگوار طوفان آئے، کئی آلودہ ہوائیں چلیں، عوامی نمائندگی کے قحط پڑے اور ہمسائیوں کے ساتھ خون خرابوں کی نوبت بھی آئی جس کا شافی علاج شفا خانہ تاشقند جاکر ممکن ہوا۔ تاہم بیماری کی رپورٹ کی بلی تھیلے سے آخر تک باہر نہ نکل سکی۔ اس طویل موسم میں کئی مرتبہ بد اعتمادیوں، شکوؤں، محرومیوں کے گلوں اور مزاحمتی بھونچالوں کی شدت سے سلطنت سیاست کا ایک خطہ کٹ کر الگ ہوگیا اور اس کا ریاست سے زمینی، فضائی، بحری، آئینی، اخلاقی اور قلبی رابطہ یکسر منقطع ہو گیا۔

مآل سیاسی و انتظامی کسمپرسی کا سامنا کرنا پڑا اور بات سرینڈر تک جا پہنچی۔ اس دور میں ماحول پہ پڑے مضر اثرات کی تحقیق کے لئے ایک مشہور ”کمیشن“ بھی بنایا گیا مگر اس کی رپورٹ وسیع تر ملکی مفاد کی خاطر شائع نہ ہو سکی اور ٹاپ سیکرٹ رہی۔ ا لبتہ اس موسم میں لاکھ نقصانات کے باوجود ثمرات بھی ہاتھ لگے۔ مالی تمول اور خوش حالی کی شروعات ہوئیں۔ ڈالروں کی موسلا دھار بارشیں برسیں۔ جن میں بسا اوقات اولے بھی پائے گئے۔

ریاستی ترقی کے بے شمار منصوبے پنپے اورپانی کے ذخیروں کی تعمیر کے معجزات بھی اسی موسم میں رونما ہوئے۔ مزے کی بات یہ رہی کہ ہر آمرانہ سیزن نے اپنی کوکھ سے اک جمہوری سیاسی وارث کو جنم دیا جنہوں نے سلطنت کی سیاست میں ہمہ قسم رنگ بکھیرے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ آمریت نے قربانی و ایثار کی مثالیں قائم کرتے ہوئے کئی مرتبہ جمہوریت کو پانچ سال رہنے کا تحفہ دیا اور اکثر معصوم اور سہمے ہوئے جمہوریت زادوں کو مسند پہ بٹھایا۔

مگر جمہوریت بھی تشکر، احسان مندی اور نمک حلالی کے طور پر آمریت کو ”EXTENSION“ کا ہدیہ پیش کرتی رہی۔ ساٹھ کی دہائی کا طویل آمرانہ موسم ابھی باقی تھا کہ اک اور موسمی آمریت نے آگھیرا۔ رومان پرور باد نسیم بھی چلی کہ ”اقلیم“ ریاست کے جنرل کے آنگن میں رات کی ”رانی“ مہک اٹھی۔ اس موسم کے خاتمے کے چھ برس بعد ایک بار پھر سلطنت سیاست کو ان آمرانہ فضاؤں نے پوری آب و تاب سے گھیر لیا۔ اس باریہ موسم مذہبی اقدار کے دعوؤں سے لیس ہوکرآیا۔

جس کا آغاز ایک تختہ دار سجانے سے ہوا کیونکہ سنا ہے اس وقت تخت صرف ایک تھا، قبر بھی ایک ہی تھی جبکہ امیدوار دو تھے۔ لہٰذا تقدیر کے قاضی نے حسب سابق جرم ضعیفی کی پاداش میں مرگ مفاجات کا فتویٰ صادر کیا۔ اس موسم کے شاکی افراد پہ اس موسم کی سختیاں قہر بن کر نازل ہوئیں۔ کچھ کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے تو باقی کو موسم کی شدت سے بچنے کے لئے ولائیت پناہ لینی پڑی۔ اس موسم میں اس موسم کے تسلسل کے لئے ایک تاریخی خود رو ریفرنڈم کا اہتمام ہوا جو بفضل تعالیٰ کامیاب رہا۔

اس سیزن میں آفاقی موسمیات میں بدلاؤ آیا اور بات سرد جنگ سے نکل کر گرم جنگ تک جا پہنچی۔ یہی وجہ تھی کہ اس موسم کو پھر سے چار چاند لگ گئے اور ڈالر بھری پھوہاروں کا سلسلہ چل نکلا۔ مونگ پھلی کی ضرورت ہی نہ رہی۔ انہیں موسموں میں ایک بہت بڑے ”کیمپ“ کے ”اوجڑنے“ کی تاریخ بھی ملتی ہے۔ اس موسم میں بھی اک مرد حق کی ”ضیائی تالیف“ کی بدولت سیاسی اشجار کی آبیاری کی گئی۔ یہی اشجار بعد میں تناور درخت بنے۔ اگلے گیارہ سال ادھورے ادھورے سے جمہوری موسموں کی آنکھ مچولی چلی۔

اسی دوران سلطنت کی مغربی حدود (چاغی ) میں جوہری گرج چمک کی تکبیر گونجی۔ مگراگلے گیارہ سال ایک بار پھر آمریت کا موسم ”مشرف با اقتدار“ ہوا جس کے مضراثرات سے بچاؤ کی خاطر چند مخصوص باشندوں کو زندان میں رکھا گیا جو بعد ازاں حفاظتی ڈیل کے تحت عرب سدھار گئے۔ اس بار اس موسم کا چھوٹے موٹے موسموں سے سخت بیر رہا۔ اس میں راگ ملہار، دیپک اور راگ درباری کا خوب چرچا رہا۔ امبوا کی ڈالیوں پہ خوب جھولنے جھلائے گئے طبلے، سارنگی اور ہارمونیم کے ساتھ ساتھ حریفوں کے باجے بھی بجائے گئے۔

بارود کی مہک نے بھی اس موسم کو کافی پراگندہ کیا۔ آخر کار یہ موسم نیلے نیلے، کالے کالے پیرہنوں کی مزاحمت پہ نو سال بعد بادل نخواستہ رخصت ہوا۔ اگرچہ ان موسموں کے ادوار جا چکے لیکن ریاست کی فضاؤں میں ان کے آفٹر شاکس کی صدائیں تاحال گونجتی رہتی ہیں اور ہروقت ان موسموں کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ مذکورہ موسم میں ریاست کی خلائی سر گرمیاں قابل ستائش حد تک بڑھ جاتی ہیں۔ خلا سے خلا میں اور خلا سے زمین پہ وار کرنے والے جن و انس متحرک ہو جاتے ہیں اور ان کی کارروائیاں مخفی رکھی جاتی ہیں۔

دشمن کے خلائی مشنوں کی ناکامی پہ خوب جشن منائے جاتے ہیں کیونکہ ہمارا ”خلائی پروگرام“ ہمیشہ ہی دشمن کے خلائی پروگراموں سے پہتر اور موثر رہا ہے۔ ہم نے بھی ان موسموں میں بہت سے لوگوں کو خلا میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے لئے کامیابی سے بھیجا اور اپنے مشنز کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ان کی روحوں کو بھی منزل مقصود تک پہنچایا۔

الیکشن کے موسم

یہ واحد موسم ہے جس میں عوام الناس جھومتے، بل کھاتے اور اتراتے دیکھے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے مہابلی، ظل سبحانی اور بادشاہ گر اچھوتوں کی دہلیز پہ سوالی کی حیثیت سے آتے ہیں۔ ووٹ کی عزت کی معراج ہوتی ہے۔ یہی وہ خوش نصیب موسم ہے جس کے نتیجے میں اس ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن ریاست کے قیام کے بعد یہ موسم ایسے گیا، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بڑی کاوشوں اور منتوں کے بعد 70ء میں الیکشن کا پہلا صاف شفاف موسم آیا۔

تاہم اس کے حاصلات کو مس ہینڈل کرکے اس موسم کی تمام رعنائیت اور شفافیت کا مز ہ یوں کرکرا کیا گیا کہ پھر یہ موسم تو آئے پر شفافیت کی بجائے دھاندلاہٹ اور آلودگی میں لت پت ہوکر ہی آئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ موسم تاریخ کا شفاف ترین موسم تھا پر اس کے باوجود اس کے تنائج ہولناک رہے۔ ان موسموں کی آمد کے جشن منائے جاتے ہیں اور ”رائے دہی“ کی ایکسچینج میں خرید و فروخت اور حصص میں بہت تیزی دیکھنے میں آتی ہے۔

دھرنوں کے موسم

اپنے من پسند نتائج کے حصول کے لئے انسانی ہجوم کو استعمال کرنے کے موسم کو دھرنوں کا موسم کہتے ہیں۔ اس موسم کی ابتدا 1212 ء میں صلیبی جنگوں کے دوران ہوئی جب معصوم بچوں کو جنت کا لالچ دے کر استعمال کیا گیا۔ خلیجی جنگ میں بھی انسانی آبادی کوڈھال بنایا گیا۔ سلطنت سیاست کے معرض وجود میں آنے کے ایک طویل عرصہ بعد تک دھرنوں کے موسموں کا رواج نہ تھا۔ ریاست میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موجب پہلی بار 80 کے عشرے میں اس موسم کا ہلکا پھلکا ظہور ہوا اور چونکہ اس وقت آمریت کا موسم عروج پہ تھا لہٰذا دھرنے کا یہ مختصر موسم بغیر کسی پہ گراں گزرے، گزر گیا۔

دھرنے کے موسموں میں احتجاج اور ہڑتالیں ریاست میں سیاسی، معاشی اور سماجی عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو احتجاج کرنے کے اسباب اور طریقہ ہائے کار سب سے نرالے ہیں۔ وجوہات میں ذاتی مفادات اور انائیں جبکہ طریقہ کار میں ریاستی اداروں، شاہراہوں اور جملہ عوامی معاملات کو مفلوج کرنا شامل ہیں۔ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ موسم دھرنا کے گرویدہ گروہوں کے پاس دھرنوں کے خوشگوار ہونے کے جواز اور دلائل بھی ہوتے ہیں۔

ریاستی آئین کی رو سے اس موسم سے لطف اندوز ہونا شہریوں کا حق ہے مگر یہ موسم عوام کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اس سیزن میں راستے بند ہو جاتے ہیں اور مخرب الاخلاق تقاریر سے فضا مکدر ہوجاتی ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں متعدد مذہبی و سیاسی دھرنوں کی رتیں آئیں۔ 1980 کے بعد 1992 میں انتخابی دھاندلی کے گناہ کی پاداش میں اور پھر 93ء میں احتجاج آلود ہوائیں چلیں۔ 1999 میں اک پوربی راج کمار واجپائی کی آمد پہ اسلامی دھرنا چلا۔

جبکہ 2012 میں اک اور اسلامی و انقلابی دھرنے کا اختتام ”مبار ک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو کے مبارک الفاظ سے ہوا۔ لیکن 2014 ء میں سیاسی، انتخابی اور کچھ نا معلوم آلودگیوں کی وجہ سے دھرنوں کے موسموں اور ان کی شدت میں تاریخی اضافہ ہوگیا۔ پولیٹیکل اور گلوبل وارمنگ کے موجب دھرنوں کے خطر ناک لہروں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صالحین کے گروہوں نے اس موسم کو اللہ کی رضا کی خاطر خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا بلکہ اس سے خوب محظوظ ہوئے۔

ہر روز، روز عید اور شب، شب برات ٹھہری۔ یہ جشن بہاراں سے کم نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پہ ہم ایک شغلیہ قوم ہیں لہٰذا حکمرانوں کا شغلیہ ہونا تعجب کی بات ہرگز نہیں۔ تبھی توسلطنت سیاست کو سلطنت شغلیہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اس لئے ہم دینی و د نیاوی تمام امور میں شغل میلے کا جواز نکال ہی لیتے ہیں۔ دھرنوں کے دوران بہت سی قلبی و جسدی بیماریوں کا شافی علاج بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ مثلاً عدت کی مدت پہ پھیلے دھرنے میں وٹامن ڈی، سی، وٹامن“ شی” اور وٹامن“ہی” کی کمی کے شکار نوجوانوں کوانتہائی مجرب نسخے مفت ہاتھ آئے۔

علاوہ ازیں دھرنے ثقافتی فنون کی ترویج کا ذریعہ بھی بنے جہاں کلاسیکی، کتھک اور بریک ڈانس ڈنکے کی چوٹ اور ڈھول کی تھاپ پہ ہوتے رہے بھلے اس ایک سو چھبیس روزہ موسم میں ریاست کو چونسٹھ ارب ڈالر کا چونا لگ گیا۔ دھرنا ایک خوش کن تصور ہے اور سیاسی میلے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اب تشدد کی بجائے ثقافتی رنگ نمایاں ہونے لگا ہے۔ قائدین کی کنٹینرز پہ جلوہ آرائیاں اور شاملین کی دھرنا آرائیاں قابل دید ہوتی ہیں۔

اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہر مذہبی و سیاسی قائد کے اندر ایک “دھرنا پسند” انسان پوشیدہ ہوتا ہے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق یو ٹرن بھی پایا جاتا ہے۔ اس موسم کی تند و تیز گرد آلود آندھیوں ریاستی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ غیراخلاقی جھکڑ چلے اور سول نافرمانی کی ژالہ باری تک ہوئی۔ البتہ اس موسم میں نوجوانوں کی امیدیں خوب بر آئیں اور اکثر امید سے بھی ہو چلے۔ اس کے ساتھ ساتھ اک معاصر دھرنوں کا موسم بھی برپا ہوا۔

جس میں امکانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قبروں کی کھدائی اور کفنوں کی سلائی کروا کر دھرنوں کی کیمسٹری میں جدت پیدا کی گئی۔ بیس روزہ فیض آباد دھرنے نے بھی ریاست کو مفلوج کیا اور بانی دھرنا کے غیراخلاقی للکاروں کی باز گشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ جس میں قوم خطابات رضویہ سے فیض یاب ہوئی۔ ان موسموں میں ہر طرف نفرت کے لاوے پکتے ہیں جس سے نفرت کی وبا عام ہو جاتی ہے۔ کہیں ریلیوں کی باد صبا تو کہیں جلوسوں کی باد سموم چل پڑتی ہے۔

اس کی گرد آلود اور قانون شکن ہوائیں شاہرات، قومی عمارات اور ٹال پلازوں کو بھی بد نما کر دیتی ہیں۔ طوفان بد تمیزی کے ہزاروں کیوسک امڈ آتے ہیں اور سیاسی و اخلاقی درجۂ حرارت بڑھ جاتے ہیں۔ 2019 ء میں ملا بٹالین کے رحمانی مراقبوں کی بدولت پھر یہ موسم آٹپکا ہے جو ملک کے جنوب مشرقی شہر سے شاہراہ اعظم سے ہوتا ہوا وزیر اعظم تک جا پہنچا۔ دھرنوں کے موسم کی توضیح و تشریح کے بارے میں موجودہ دور میں فلسفۂ دھرنیات ٹاپ ٹرینڈ ہے اور ماہرین نے اس فلسفے کو چار بڑے فرقوں میں تقسیم کیا ہے۔

جن میں دھرنا عمرانی، دھرنا رحمانی، دھرنا رضویہ اور دھرنا قادریہ شامل ہیں جبکہ دیگر دھرنا“ نواز” شخصیات اپنے شہبازوں کی پروازسے مایوسی کی وجہ سے حالت یاس میں رہے۔ کچھ دھرنوں کے مراکز ڈی چوک اور فیض آباد رہے تو کچھ ملک کے طول و عرض سے متعلق رہے۔ رحمانیہ، قادریہ اور رضویہ دھرنے چونکہ مذہبی پس منظر کے حامل رہے ہیں لہٰذا وہ راہ حق کے شہدا ہونے کے دعویدار رہے۔ ملاؤں کی اتنی کثیر تعداد کے پیش نظر جنت کی حوروں میں سخت اضطراب و تشویش رہی۔

فیض احمد فیض کو عالم بالا میں پریشانی لا حق رہی کہ کہیں مولانا اپنے دھرنے میں ان کی نظم“ ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے ”پڑھ کر نا حق بدنام نہ کردیں۔ ادھر حبیب جالب سہمے رہے کہ اہل دھرنا“ ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا کو بھی دھرنوں کا حصہ نہ بنالیں۔ ماہرین کی رو سے دھرنوں کے بعض موسم جمہوریت اور بعض آمریت کی فصلوں کے لئے ضرررساں ثابت ہوئے۔ لہٰذا ہمارے دیس کو ”دھرنا ناری پبلک“ کہہ کے الاپ کو دھرنے کا حصہ نہ بنالیں۔

قرضوں کے موسم

یہ موسم سدا بہار موسم ہے اس اقلیم ریاست کے منصہ شہود میں آتے ہی قرضوں کا موسم بھی چل نکلا۔ سال میں کسی بھی وقت یہ موسم برپا ہو سکتا ہے۔ اس موسم کے آتے ہی ارباب اختیارسکھ کا سانس لیتے ہیں اور عوام کوڈنگ ٹپاؤ پروگراموں اور سبز باغات میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ کچھ نو آورد اس موسم کو ناپسند کرتے ہیں اسے ریاست سے ختم کرنے کے دعوے بھی کرتے ہیں مگر واعظ کی یہ سب باتیں نا تجربہ کاری پہ مبنی ہوتی ہیں اور بالآخر منتیں مان کر ان روٹھے موسموں کو منایا جاتا ہے۔

پہلی بار اس موسم نے ہمارا دروازہ ساٹھ کی دہائی میں کھٹکھٹایا۔ بادی النظر یہ خاصا خوشگوار موسم ہوتا ہے مگر یہ قوموں کے ہاتھوں میں کشکول تھما جاتا ہے۔ ریاستوں کی کوری کوری چنریا پہ معاشی داغ لگ جاتے ہیں اور وہ داغ چھپائے بھی نہیں چھپتے۔ مستزاد قرضوں سے بھری جھولی کیا سنبھلے کہ سو سو چھید سینے پہ لئے ہے اور پھر رفو گری کی صورت بھی ناپید ہو۔ جس سے ریاستوں کی ننگے پاؤں والی ماؤں کے ہر بلاول کا مقروض ہو جانا مقدر ٹھہر جاتا ہے ۔

ان موسموں میں اڑتی پرچیوں پہ ”Beggars are not choosers“ لکھا ملتا ہے۔ تاہم کبھی کبھار ”فرینڈز، ناٹ ماسٹر“ کی سرگوشیاں سننے کو ملتی رہیں۔ اس موسم کی دلپذیر و ہوش ربا سوغات قرض کی مئے ہے جسے پی کر اپنی فاقہ مستیوں میں رنگ بھرنے کی سعی لا حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح قرضوں کی واپسی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ریاست کے تھنک ٹینک کے مطابق سلطنت سیاست کے قرض کی ادائیگی تو گدھے کی آنکھ پہ جوتے کے برابر یعنی انتہائی آسان کام ہے۔

تجویز عام ہے کہ آئی ایم ایف کی مائی سے قرض کی بھیک لینے کی بجائے اپنے گزیٹڈ افسران، ججز، ضلعی افسران، وکیل، ڈاکٹر، پٹواری، بیورو کریٹس، فوجی افسران، فیکٹری مالکان، وزیر مشیر اور پچیس ایکڑ سے زائد زمین کے حامل زمینداروں سے بیس بیس ہزار قرض لیا جائے۔ مذکورہ بالا حضرات دو کروڑ کے لگ بھگ ہیں اور ان سے کشید کی گئی رقم تقریباً چار کھرب بنتی ہے۔ اسی طرح نان گز یٹڈ سرکاری ملازمین سے دو دو ہزار لئے جائیں۔ اور یہاں پانچ کروڑ سے زائد افراد بیس ہزار ماہانہ کماتے ہیں ان سے صرف پانچ پانچ سو وصولا جائے تو قرض کا آسیب ٹالا جا سکتا ہے۔

اک عالم بے بدل نے تو قرض اتارنے کا کمال بے مثال نسخہ دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر قرض کی رقم کی ادائیگی کی صورت نہ نکل پائے تو قرض خواہ ممالک کو ٹھوٹھا دکھا دیا جائے۔ اس طرح ان ممالک کے قرض کی واپسی کا تقاضا جاتا رہے گا۔ قرض لیتے وقت بھی ہماری خود داری قائم ہے۔ اس بات پہ ایک خود دار شاعر کا شعر یاد آ گیا :

قرض جو مانگو تو مانگو اتنی خود داری کے ساتھ
قرض دینے والا دے کے تجھ سے شرمندہ رہے

مگر اس موسم میں ارباب کشت و بساد اقبال کی خودی کی بجائے امریکہ کے ڈالر کو بلند کرنے میں جان لگاتے ہیں اور ڈالر کا اقبال اس قدر بلند ہو جاتا ہے کہ اقبال کے شاہین کی پرواز ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ قرض کے موسم میں مختلف سائز کے کشکولوں کے لحاظ سے سلطنت خود کفیل ہو جاتی ہے۔ کبھی کشکول اعلیٰ تو کبھی کشکول اعظم ڈالر، لیرے، یوآن، ین، پونڈ، درہم، اور دینار سے لیس دکھائی دیتے ہیں۔ اس سیزن میں مانگی پینی کے جہاز اور تیل بھی دستیاب رہتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود ہمارا کوئی حکمران بھی وضع قطع کے لحاظ سے کبھی بھی مقروض نظر آیا۔ ہمیشہ قرض حسنہ کی آس رہی جو ہمیشہ ہی جگ ہنسائی کے باعث ”قرض ہنسنا“ ثابت ہوا۔

ضمانتوں کے موسم

احتساب، پکڑدھکڑ اور سزاؤں کے فوراًبعدآنے والے موسم کا نام ضمانتوں کا موسم ہے۔ ہر قسم کے فیصلوں پہ ضمانت کا حصول اس موسم میں عین ممکن ہوجاتا ہے ۔ تاہم احتساب ایک مسلسل عمل ہے اور ضمانت پہ رہا ہونے کے بعد اور نوعیت کے مقدمات اہلیان ضمانت کے سر ہولیتے ہیں۔ یوں سزاؤں اور ضمانتوں کی آنکھ مچولی چلتی ہی رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).