شعیب اختر، آرمی چیف اور گھاس


یہ عید الاضحٰی کے دن آئے آر وائی نیوز پر وسیم بادامی نے شعیب اختر سے عید سپیشل پروگرام میں انٹرویو کیا اور وہاں میزبان نے شعیب اختر سے ان سے ان کے کیرئیر کے بعد جب سیاسی سوال پوچھے تو ان میں سے ایک سوال پوچھا کہ آپ اگر وزیر اعظم ہوتے تو کیا کرتے؟ راولپنڈی ایکسپریس کا جواب تھا کہ میں گھاس کھا لیتا مگر دفاعی بجٹ بڑھاتا اور آرمی چیف کو ساتھ بٹھا کر ملک کے اہم فیصلے کرتا۔ یہ خواب ان کر مجھے ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی آیا۔

اب آپ لوگوں کو یقیناً تجسس ہوگا کہ مجھے بیک وقت غصہ اور ہنسی کیسے آ گئی؟ غصہ اس لئے آیا کہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ عوام اور حتی کہ شہرت دار لوگ جن کو اللہ رب العزت نے کافی ممالک پھرنے کا موقع دیا اور ان کے نظام کو سمجھنے کے بعد اس طرح کی بے سروپا باتیں کرنا وہ بھی قومی ٹیلیویژن پر عوام کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال ایک رپورٹ کے مطابق 50 لاکھ ننھے مہمان پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں کہ ان کے لئے خوراک، رہائش، لباس، تعلیم اور روزگار کون مہیا کرے گا؟ حالانکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

کسی بھی ملک کا دفاع نہایت اہم ہوتا ہے اور یہ جانی مانی حقیقت بھی مگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا 20 % بجٹ دفاع کے لئے مختص ہوتا ہے۔ اوپر سے ہر سال 500 سے 1000 ارب روپے تک گرانٹ کی صورت میں چلے جاتے ہیں۔ یوں تقریباً 35 فیصد دفاع کے لئے مختص ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ مفاد عامہ، تعلیم اور صحت اور دیگر امور کے لئے نہایت کم حصہ مختص ہوتا ہے۔

کوئی بھی ملک جس نے ترقی کے زینہ پر چڑھ کر اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کیا ہے وہ صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع دے کر آج دنیا کی اہم معیشتوں اور اہم ممالک میں شامل ہیں۔ جنگ عظیم دوئم میں جرمنی اور جاپان دنیا کی طاقتور فوجوں کے باوجود ہارے اور ان کا بہت نقصان ہوا۔ مگر انہوں نے ترقی کی تو صنعتی انقلاب، تعلیم اور صحت پر پیسہ لگایا تو آج دیکھئے کہاں کھڑے ہیں۔ سوویت یونین نے اپنی معیشت کا 25 فیصد دفاع کے لئے مختص کیا ہوا تھا مگر 1990 میں بھوک ہر طرف تھی اور سوویت یونین سے 16 ممالک وجود میں آ گئے۔

عوام گھاس ہی تو کھا رہے ہیں۔ 73 سال بعد بھی وہی بنیادی مسائل ہیں۔ دفاع ضروری مگر دفاع تب مضبوط ہوگا جب معیشت مضبوط ہوگی اور جب عوام مضبوط ہوں گے۔ خواندگی مضبوط ہوگی۔ بے روزگاری کمزور ہو جائے گی۔ حالانکہ اس بار سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں۔ مگر افواج پاکستان سے وابستہ افراد کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ ہر چیز عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہے۔ اب تو گھاس بھی کھانے کو نہیں مل رہی۔

ہنسی اس بات پر آئی کہ آرمی چیف کو ساتھ بٹھا کر فیصلہ کروں گا۔ حالانکہ یہاں تو آرمی چیف فیصلے کرتے ہیں وزیر اعظم کو ساتھ بٹھا کر اور کبھی کبھی خود ہی فیصلے کر لیتے ہیں۔ یہاں سب جانتے کہ وزیر اعظم کی کیا وقعت ہے مگر یہاں اس عہدے پر پہنچنے کا گر وہی جو شعیب اختر نے بتایا۔ راولپنڈی کے ہیں جانتے ہیں طاقت کا مرکز کون ہے۔ مگر پھر اس ملک میں عوام کا کیا کردار ہے؟ قومیں اپنی عوام سے بنتی ہیں۔ اپنے ہاں ایک نظام کو من و عن سے نافذ کر کے اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔

قوم کو مبارک ہو کہ ان کو ایک نیا متبادل وزیر اعظم مل گیا۔ یہ یوٹرن بھی نہیں لے گا اور ایک صفحہ مثالی ہوگا۔ شاہد آفریدی بھی قطار میں ہیں۔ انہیں بھی نا بھولئے گا۔ ایک عرض ہے کہ ایک صفحہ پر ریاست اور عوام کو ہونا چاہیے کیونکہ اصل کرتا دھرتا عوام ہوتے ہیں۔ ملک کچھ اداروں یا افراد کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ تمام اس ملک کے باسیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ عوام مضبوط تو ریاست مضبوط، ریاست مضبوط تو دفاع مضبوط۔ عوام کے دم سے ہی ریاست ہے ریاست عوام کے بغیر وجود ہی نہیں رکھ سکتی۔ اب خدا کے حضور دعا ہے کہ اس ملک کو وہ رہبر ملے جو اس بات کو سمجھے کہ عوام مضبوط ہوں گے تو وہ مضبوط ہوں گے اور ریاست بھی مضبوط ہوگی اور وہ اقوام عالم سے مقابلہ کر سکتی ہے ورنہ وقت و تاریخ آپ کو مزید پیچھے دھکیل دے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).