عہد کرونا میں


دنیا رواں دواں چل رہی تھی ہر طرف رونق اور چہل پہل تھی۔ کاروبار زندگی معمول پر تھے پھر اچانک چین کے شہر وہان سے وائرس کی ایک لہر چلی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر ویران ہو گئے۔

عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

وائرس اتنی شدت سے پھیلنا شروع ہوا ک فوری طور پر تعلیمی ادارے، بازار، مساجد اور ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا گیا اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور یوں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ باہر سے آنے والے لوگ تھے اور اس میں نا اہلی حکومت کی ہے جنہوں نے شروع میں اس سلسلے میں نہ کوئی تیاری کی اور نہ حکمت عملی تشکیل دی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت کو اپنی حکمت عملی اس وقت تشکیل دے دینی چاہیے تھی جب چین میں وائرس کافی حد تک پھیل چکا تھا۔

چونکہ چین ہمسایہ ملک ہے اور پھر چین سے بہت زیادہ لوگ پاکستان آتے ہیں کیونکہ کے چین نے پاکستان میں بہت سے پراجیکٹ شروع کیے ہوئے ہیں اور ان کے لئے چین کے انجینئرز، ورکرز اور حکام پاکستان آتے ہیں تو اس وجہ سے پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ کے ممکنات سو فیصد تھے مگر حکومت نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر بروقت قرنطینہ کا موثر انتظام نہ ہو سکا اور کچھ حد تک جن لوگوں کو قرنطینہ کیا گیا انتظامیہ ان کو بھی نہ سمبھال سکے اور بہت سے لوگ فرار ہوئے اور قرنطینہ سنٹرز میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور سماجی فاصلے کا تصور بس زبانی حد تک نظر آیا۔

انتظامیہ اس وقت بھی بے بس نظر آئی جب بازار سے ماسک، سینیٹائیزر اور ادویات غائب ہو گئیں اور کچھ دنوں بعد جب ان چیزوں کو مارکیٹ میں لایا گیا تو ان کی قیمتیں آسمان تک پہنچ چکی تھی۔ اس صورتحال میں وفاقی و صوبائی حکومت بے بس نظر آئی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ اسی دوران حکومت کی بے بسی اس وقت واضح ہو گئی جب پٹرول بحران شروع ہوا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف انتظامیہ پر کرونا کا پریشر تھا تو دوسری طرف پٹرول بحران نے انتظامیہ کو دبا کر رکھ دیا۔

مگر غلطیوں کے باوجود حکومت نے اچھے فیصلے کیے۔ یہ وہ مشکل صورتحال تھی جب ایک طرف ملک کی 30۔ 35 % آبادی بے روزگار ہو چکی تھی اور دوسری طرف گرتی ہوئی معیشت تھی۔ یہ حکومت کے لئے بڑا امتحان تھا اور اس سلسلے میں حکومت نے اچھے فیصلے کیے۔ اس سلسلے میں احساس پروگرام نے اہم کردار ادا کیا اور بے روزگار ہونے والے شہریوں کو 12000 کی امدادی رقم دی اور دو ماہ بجلی کے بل بھی نہیں لیے مگر اس بجلی کے معاملے میں حکومت نے عوام کو پریشان کیا کیونکہ دو ماہ بعد بجلی کا نرخ بھی بڑھا دیا اور ساتھ ہی سابقہ بل بھی وصول کرنا شروع کر دیا جبکہ لاک ڈاؤن ابھی موجود تھا تو یہ صورتحال بہت پریشان کن تھی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے حکومت نے بجلی کے بل کے معاملے میں عوام سے مذاق کیا تھا۔

لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا غریب، مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ تھا اور چھوٹے کاروباری طبقے بھی کافی حد تک متاثر ہوئے مگر مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ سفید پوش لوگ راشن لائنوں میں لگ کر لینے پر مجبور ہو گئے۔ ایک بار پھر عمران خان نے غریب عوام کا احساس کرتے ہوئے ملک میں لاک ڈاؤن کو ختم کیا اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی شروع کی اگرچہ اس وجہ سے وہ میڈیا، ایلیٹ کلاس اور سندھ حکومت نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا مگر خان صاحب کی یہ پالیسی عوامی مفاد میں تھی اور یہ اس لیے بھی اچھی پالیسی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے ملک بڑے بحران سے بچ گیا ہے۔

یہ بحران خانہ جنگی کا ہو سکتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں تھا افلاس دن بہ دن بڑھہ رہی تھی اور اور جب مفلسی بڑھتی ہے تو جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے کیونکہ جب لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہو گا تو وہ ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے۔ عمران خان نے اچھا فیصلہ لیا اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف چل پڑے جس کی وجہ سے معیشت بحال ہوئی۔ دوسری طرف سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ طالب علم تھے جن کو پڑھائی بہت متاثر ہوئی۔

امتحانات ملتوی ہونے سے بہت نقصان ہوا ہے مگر سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا طلباء کو آن لائن کلاسز میں ہوا کیونکہ ہر طالب علم کے پاس اینڈرائڈ موبائل کی سہولت نہیں ہے اور بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے طلباء شدید مشکلات کا شکار رہے اور ابھی بھی جب تعلیمی ادارے کھولنے کی بات ہو رہی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ فی الحال صرف فائنل ایئر کے طلباء کو یونیورسٹیوں میں آنے کی اجازت دی جائے گی اور باقی طلباء آن لائن سسٹم کے تحت ہی پڑھیں گے جو کہ بالکل غلط فیصلہ ہے کیونکہ آن لائن پڑھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ وقت کا ضیاع ہے اس سے بہتر ہے پھر طالب علم کوئی ہنر سیکھنا شروع کر دیں۔

ہمیں چاہیے تھا ک سب سے پہلے یونیورسٹیوں میں ایس۔ او۔ پیز لاگو کرتے کیونکہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ جب SOPs پر عمل کرتا تو یہ عوام کے لئے بہترین نمونہ ہوتا اور تعلیمی اداروں میں SOPs پر عمل کرانا آسان ہے تو حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو SOPs کے ساتھ کھولا جائے تاکہ تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کیا جا سکے ورنہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).