کرب کا قاری



تم میں سے بیشتر ان اوہام میں مبتلا ہیں کہ یہاں سے کچھ دیر آگے ان کو زندگی کی وہ اکائی ملنے والی ہے جو مفہوم حیات کو سمجھنے میں معاون ہے۔ کچھ محو سفر اس گمان میں ہلکان ہوئے چلتے جا رہے ہیں کہ یہ سڑک کچھ دیر میں ایک تنگ گلی بنتے بنتے ایک دیوار پر ختم ہو جائے گی جس کا سہارا لے کر سکون سے آرام فرما سکیں۔ تمہارے بچے تمہاری بوسیدہ شکل دیکھتے اور کرخت جیب میں بے وزن سکوں کی چھنک پر روز ناچ ناچ کر خود سے بے اعتماد عہد کرتے ہیں کہ وہ اس جیب کا بھرم رکھ لینگے لیکن تم اپنے خطے کی بنجر زمین سے واقف ہو جس میں بے شرمی سے بیج تو بویا جاسکتا ہے لیکن پھلدار درخت اور وسیع سائے کی کوئی توقع نہیں چنانچہ تم بیج بھی اس خوف سے بوتے ہو کہ اس کو کیڑا نہ لگ جائے اور یوں تم اس کیڑے کے رزق پر بھی تاخت کرتے اپنی اولاد کو سلب کر لیتے ہو۔

تم اپنے مال و مشقت لٹا کر خود پر کئی بادشاہ مسلط کرتے ہو جو تمہاری بقا کی حفاظت کریں لیکن تم بھول گئے کہ وہ تم میں سے ہی ہیں۔ تمہاری کھوکھلی بوکھلاہٹ و خوف نے تم سے ایک سے بڑھ کر ایک خدا تصوراتی و مجسماتی صورت میں بنوایا لیکن پھر تم اس اکائی کو بھول بیٹھے کہ وہ خدا بھی تمہارے ان کشکول نما ہاتھوں سے بنے اور تم سے منسوب ہیں چنانچہ تم یہاں ہر شے و فعل و قول کے ذمہ دار ہو۔

کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تم ایک اندھیر گھپ، دھند آلود تنگ گلی کے وسط میں اتاردیئے گئے جہاں تم چندھیائی بصارت سے آنکھ کے پپوٹے مسلتے ہوئے اس گلی کا سرا ڈھونڈتے ہو اور جو تم دیوار کھٹکھٹاتے ہو تو تم کو پہلی دستک پر ہمبستری کی لذت سے سرشار عورت کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں، دوسری دستک پر کسی شے کے گرنے کی ناگوار آواز سنائی دیتی ہے جس کے بعد دیوار میں بآواز لرزش شروع ہوجاتی ہے، آواز جس میں سرگوشی کرتی کرخت مردانہ آواز میں حمل گرنے کا ذکر ہوتا ہے۔ تیسری کھٹکھٹاہٹ پر دیوار گرجاتی ہے اور سامنے وسیع اندھیرا نظر آتا ہے جو کسی جنگل میں پھنس چکا ہوں۔

تم دیکھو کہ بپھرتے دماغ سے نکلنے والی سوچ، کانپتی خون کی نالیوں میں اپنی ہیئت الفاظ میں بدلتے بدلتے، انگلیوں کے پوروں تک آتے آتے میرے یہی الفاظ بے رونق اور عمررسیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میری آنکھوں کا توازن بگڑچکا ہے، میرے حلق میں مکڑی جالا بن چکی ہے، میرے بالوں پر کوئی فاختہ گھونسلہ بناکرگئی تھی جس کے ننھے مکین سانپ نگل کر میرے سر پر کنڈلی مارکر بیٹھا ہوا۔ کیا یہ تمہاری حالت نہیں، اور تمہاری، اور تمہاری۔

تم سب ایک دوسرے کے سر پر کنڈلی مارے کسی نا کسی فاختہ کے بچے نگل چکے ہو۔

زار و زبوں کس نے کیوں اور کب لکھا یہ جاننا اہم نہیں ہے، اہم ہے اس کرب کو پڑھنے کے لئے ایسا قاری تلاش کرنا جسے معلوم ہو کہ اس کے باپ نے فاقوں کے خوف سے خودکشی کی، اور جوان ماں کو زیادتی کے بعد در بہ در کر دیا گیا، جس کی محبوبہ کو عزت کے نام پر ماردیاگیا، جس کی گود لی ہوئی اولاد جان لیوا مرض میں مبتلا ہو۔ جس کو مرنے کے لئے سٹیشن میں ریل گاڑی کا انتظار کرنا ہو اور کچھ دیر میں ماسٹر آکر کہہ دے کہ ریل گاڑی میں خودکش حملے کی وجہ سے ریل گاڑی آج اس سٹیشن پر نہیں آئے گی۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).