بیٹی پرائی ہوتی ہے



بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں یہ سوچ کر رضیہ اپنے گھر کی دہلیز پار کرتے کرتے رک گئی۔ عارف کو نہ جانے نشے کی لت کب سے تھی، والدین نے یہ سوچ کر بیاہ دیا شادی کے بعد سدھر جائے گا۔ اپنی تربیت کی کمی پوری کرنے کے لیے نہ جانے والدین کیوں دوسروں کی بیٹیوں کی زندگی کیوں اجیرن کر دیتے ہیں۔

عارف نہ صرف نشئی بلکہ بے کار آدمی بھی تھا جس کی کمائی رشتہ طے کرتے وقت ہزاروں میں بتائی گئی جبکہ شادی کے بعد اس کا کل اثاثہ دن بھر چارپائی توڑنا اور بیوی کو لعن طعن کرنا ہی تھا۔ رضیہ جب ایک بیٹی کی ماں بنی تو سسرال والے جو دو وقت کی روٹی کے ساتھ دس گنا ذلت رضیہ کو دیا کرتے اب بچی کے اخراجات اٹھانے سے انکاری نظر آئے۔ ماں بن کر عورت خود سے زیادہ اپنے بچے کی فکر کرتی ہے اسی ممتا کے احساس نے اسے مجبور کیا کے وہ گھر گھر کام کر کے جو کچھ کماتی اپنی بچی کے لیے ضرورت کی چیزیں مہیا کرتی، کچھ ہی دن گزرے تو عارف نے اس آخری امید پر بھی پانی پھر دیا جو بھی وہ کما کر لاتی نشے کی خاطر اس سے پیسے چھین لیتا۔ مگر رضیہ کی برداشت جواب دے گئی اور وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ ابھی یہاں آئے دو ہی دن گزرے کہ بھابی کی آواز کان میں پڑی جو بھائی کو یہ سمجھانے میں مصروف تھی کہ پہلے خرچے کم تھے کیا جو تمہاری بہن بھی یہاں بوجھ بن کر آن بیٹھی ہے۔ بھائی بھی اپنی بیگم کی ہاں میں ہاں ملانے میں مجبور نظر آیا۔

رضیہ کے پیروں تلے زمین تو نکل ہی چکی تھی یہ باتیں سننے کے بعد سر پر آسمان بھی نہ رہا۔ اور سوچنے لگی جو بیٹیاں ماں باپ کے گھر پلی بڑھی ہوتی ہیں شادی کے بعد اتنی پرائی کیوں سمجھی جاتی ہیں؟

کچھ دن اس نے اپنے میکے میں گونگی بہری بن کر گزار دیے مگر اب تو ماں باپ بھی بہو بیٹے کی باتوں میں آ کر کچھ پرایا سا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ یہ بات رضیہ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔

رات کو جب سونے لگی آنکھوں میں تو نیند کی جگہ کچھ آنسوؤں نے لے لی اور پھر یہ آنسو ٹپک کر اس کی چاند جیسی معصوم بیٹی کے چہرے پہ گرے اور بچی نیند میں چونک سی گئی۔ بیٹی کو تھپکی دیتے دیتے رضیہ لوری کی بجائے وہ سب دکھ سنانے لگی جن کوسننے اور سمجھنے والا سوائے خدا کے کوئی نہ تھا۔

اگلی صبح وہ اپنے سسرال چلی گئی جہاں ساس نے اس کا اسقبال ایک موٹی سی گالی سے کیا۔ مگر رضیہ جہاں اندھی بہری ہو گئی اب گونگا ہونا بھی اس کے لیے مشکل نہ تھا۔ دھیرے دھیرے انسان کی موت کا منظر شاید اس سے بہتر نہ ہو گا۔ گھر میں آتے ہی معمول کے کام کاج میں لگ گئی۔ مگر جیسے ہی عارف گھر میں داخل ہوا تو رضیہ کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو گیا خوب سنا کر اس کے ڈپٹے کے پلو میں کچھ تلاش کرنے لگا۔ ”پیسے دے جو لائی ہے اپنے بھائیوں سے“

میرے پاس کوئی پیسے نہیں ”رضیہ نے پلو جھٹک کر غصے سے جواب دیا۔

یہ سننا تھا عارف بے قابو ہوا اور اس کا سر دیوار میں دے مارا۔ اور باہر چلا گیا۔ رضیہ نے اپنی بچی اٹھائی اور تیز قدموں سے دروازے تک پہنچی جہاں اس کا ایک قدم دہلیز کے اندر اور ایک باہر تھا میکے جانے کے ارادے سے جو قدم اٹے تھے وہیں رک گئے سوچنے لگی ”بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں، بوجھ ہوتی ہیں۔“ پھر وہ دروازہ بند کر کے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ اپنی بیٹی کو سینے سے لگا کر روتے ہوئے کہا ”بیٹیاں اگر پرائی ہی کرنی ہوں تو ہم انہیں اتنا مضبوط کیوں نہیں بناتے کہ وہ ہر مشکل کا سامنا اکیلے کر سکیں؟

انہیں کیوں طوفانوں میں ایک ٹوٹی کشتی کی طرح بہا دیا جاتا ہے؟ ہم آج بھی زمانہ جہالیت میں ہیں جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج ہے ہم آج بھی بیٹیوں کو سرخ جوڑوں میں دفن کر دیتے ہیں اور پھر ان کے جنازوں کو بوجھ سمجھ کر کاندھا دینا تو دور فاتح پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔ سسرال اور میکے دونوں گھروں میں ہی یہ جنازہ پرایا سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).