عورت کا بیوپار اور معاشی خود انحصاری



اگر پیدائش سے موت تک کسی ذی روح کا وجود بوجھ سمجھا جاتا ہے تو وہ عورت ہے۔ رشتوں کے نام نہاد سنہرے لفافوں میں لپیٹ کر کتنا ہی اس حقیقت کو جھٹلایا جائے اس سے معاشرے میں عورت کے کم حیثیت وجود پر کوئی فرق بہرحال نہیں پڑتا۔ کتنا ہی چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا دھوکا دے عورت کے ہاتھ پاؤں باندھے جائیں اس کی حیثیت گھر میں بندھے جانور سے کچھ زیادہ نہیں ہوتی جو نہ ہی اپنی مرضی سے آزاد فضا میں سانس لے سکتا ہے اور نہ ہی بحیثیت انسان اپنی زندگی کے فیصلے اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو گھر میں رہنے والی ”شرفا“ عورتیں بھی ایک طرح سے اپنے وجود کا بیوپار کر رہی ہیں بچپن سے لے کر باپ بھائی کے ٹکڑے پر پلنے والی بہن یا بیٹی شادی تک اپنے کھلانے والے مردوں کی محکومیت میں ہوتی ہے جسے تحفظ کے نام پر مختلف رسوم میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے اور جس کی زندگی کے فیصلے وہ خود نہیں بلکہ اس کے نام نہاد ”ان داتا“ کرتے ہیں اب یہ اس کی قسمت کے اس کا باپ بھائی اگر پڑھا لکھا مثبت سوچ کا حامل انسان ہے تو وہ کسی حد تک لڑکی کو تعلیم دلائے یا شادی کے وقت اس کی رضا پوچھ لے ورنہ دیہی علاقوں میں تو لڑکی کی قسمت کا فیصلہ اس کے گھر کے مردوں سے زیادہ گاؤں کے ان پڑھ دقیانوسی بوڑھوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو تعلیم تو دور بلکہ گاؤں کی بچیوں کو قبیح رسم و رواج کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اجتماعی زیادتی کے لیے پیش کرتے بھی نہیں ہچکچاتے۔

دیہی علاقوں کی صورتحال یہ ہے کہ عورت چند روٹی کے ٹکڑوں کے لیے کسی رئیس زادے کی من مانی تلے اپنا جسم بھنبھوڑے جانے پر مجبور ہے۔ شہروں میں صورت حال البتہ اتنی ابتر نہیں لیکن کچھ خاص بہتر بھی نہیں۔ عورت کو آج بھی ایک مکمل اور برابر انسان کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب بھی عورت اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہے اسے ان دیکھے بہلاوے، فریب اور اگر ان سے بات نہ بنے تو ڈرا کر یا سزا دے کر خاموش کرادیا جاتا ہے۔

بندھن کے نام پر عورت کا بیوپار شادی کے وقت بھی جاری رہتا ہے۔ چند رائج الوقت سکوں کی ضمانت پر عورت ایک دوسرے مرد کی جاگیر میں اضافہ کرتی ہے پھر اس عورت کو زندگی کے فیصلے تو دور اپنے سونے جاگنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی نہیں رہتا۔ میٹھی زبان میں پیار بھرے رشتوں کا نام دے کر یا ڈرا کر خوف دلا کر ایک جیتے جاگتے، سوچتے وجود کو اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کا پابند ہو کر جینا پڑتا ہے۔

لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسی غلامی کی زندگی سے خود عورت بھی گھن نہیں کھاتی۔ اگر مرد کے ظلم و ستم کی وجہ سے زندگی کا تلخ گھونٹ بھرتی عورتیں ہیں تو ایسی عورتیں بھی کم نہیں جو محض تن آسانی اور مفت کی روٹی کے لالچ میں اپنے حالات بدلنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود خوشی خوشی مردو‍ں کی غلامی میں راضی ہیں۔ برابری کا حق صرف اس لیے نہیں لینا چاہتیں کیونکہ برابر کی ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتیں یہی وجہ ہے کہ مردوں کی جوتیاں سیدھی کرنا فریضہ سمجھ کر سر انجام دیتی ہیں اور اپنی بیٹیوں کو بھی غلامی کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔

عورتوں کے تمام مسائل کی اصل جڑ معاشی طور پر کمزور ہونا ہے۔ عورت اپنی زندگی کے فیصلے کے لیے مرد کا منہ دیکھنے کے لئے اس لئے مجبور ہوتی ہے کیونکہ وہ معاشی طور پر مرد پر انحصار کرتی ہے۔ مرد کے ہی آگے ہاتھ پھیلاتی ہے جو اسے محکومیت کے مقام پر لا پٹختا ہے اور مرد اپنی مرضی اور سہولت کے حساب سے عورت کو وہی زندگی دیتا ہے جس سے وہ خود راضی ہو۔ وہ عورتیں جو شادی سے پہلے باپ، بھائی اور شادی کے بعد شوہر اور بڑھاپے میں بیٹے کی کمائی پر انحصار کرتی ہیں وہ تا عمر ان مردوں کے آگے سر جھکا کر ان کے حکم کی تعمیل کرنے کی پابند رہتی ہیں جس میں ان کی اپنی ذات کی نفی کرنا ان کا سب سے پہلا فرض سمجھا جاتا ہے۔

اب وقت ہے کہ عورت اس صدیوں پرانے غلامی کے طوق کو اتار پھینکے اور ایک جنس بن کر نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے معاشی خود انحصاری۔ اپنی ضروریات کے لئے باپ بھائی اور شوہر کا منہ تکنے کے بجائے اپنے وجود کی ذمے داری خود اٹھائیں تاکہ چند روپیوں کے عوض آپ کی زندگی کی ڈور آپ جیسے ہی کسی انسان کو آپ کا مالک نہ بنا دے اور ان وہ تمام مرد حضرات جو عورت ذات کو کسی بھی نظریے کے تحت اپنا پابند دیکھنا چاہتے ہیں یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایک ہوش مند وجود کا کسی کے ماتحت ہو کر جینا نا ممکن امر ہے جو جلد یا بدیر فطرت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہو کر رہے گا اس لئے آپ بھلے اپنی عورتوں کو ان کے پیروں پر کھڑا ہونے کے عمل میں ان کا ساتھ دیں یا نہ دیں مگر ان کے پیروں میں بیڑیاں بھی نہ ڈالیں اگر آپ کا ظرف عورتوں کی حوصلہ افزائی کا متحمل نہیں ہو سکتا تو ان کی حوصلہ شکنی بھی مت کریں۔ یاد رکھیں محض ایک عضو تبدیل ہونے سے انسان کی قابلیت یا صلاحیت میں کوئی فرق نہیں آ جاتا ہر انسان میں دل، دماغ، ہاتھ، پاؤں کام کرنے کے لئے مخصوص جنس کے محتاج نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).