ہم اور سمندر



ہاتھوں میں پھول پکڑے سگنل پہ کھڑا ہوں

مہنگی گاڑیوں میں دہلے اور صاف صاف لوگ۔ رات اتنی دیر سے بھی ہشاش بشاش ہنسی خوشی بے پرواہ سیدھے ہاتھ پر مڑ جاتے ہیں۔

اور پل سے آگے ”ہم“ آجاتے۔
ہم کون؟
پتہ نہیں! جب بھی میں پوچھتا ہوں کہ رحیم گدھا گاڑی والا کہاں سے آیا تھا؟
تو وہ منحوس شکل والا شخص گالیاں دینا شروع کرتا ہے۔
’ابے چل نکل حرام خور لعنت ہے تیری شکل پر‘
اس کے پاس تو خود سوال ہے کہ رحیم گدھا گاڑی والا یہاں آیا کیوں تھا؟
یہ گاڑیوں میں لوگ کہاں سے آئے ہیں۔
رحیم گدھا گاڑی والا کیوں فقط گاڑی والا نہیں بن سکا۔
چھوڑو اس چکر کو۔
میں پھول کیوں لے کر کھڑا ہوں!
کہ شاید کوئی آ جائے۔
گاڑیوں کے سائلینسرز سے اٹھتا ہوا دھواں، تیز رفتاری کی آوازیں گاڑیوں کا شور۔

مگر یہ میرے ہاتھ میں پکڑے پھولوں کے ہار زندگی کا احساس دلاتے ہیں میری آنکھوں میں خواب اور جاگ کے سپنے ہیں۔

میں اتنے شور میں بھی میں بھاگتے دوڑتے سپنے دیکھتا ہوں۔
خوابوں میں کتنی نرماہٹ ہے، کسک ہے۔
جاگ کے یہ سپنے اور سنگل پر رات دیر تک میں یہ ہاتھوں میں پھولوں کے ہار پکڑے کھڑا ہوں۔

یہ سپنے کبھی اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ سب کچھ تھم سا گیا ہے، وقت کی رفتار بھی دھیمی سی ہو جاتی ہے اور میں کائنات کا محور ہوں۔

بس مجھے ہی دیکھا جا رہا ہے اور میں پھولوں کے ہار تھامے گھوم رہا ہوں اور گھوم رہا ہوں،
مگر کسی تیز چرراہٹ اور ٹائروں کی رکنے کی آواز پر میں اپنے آپ میں لوٹ آتا ہوں۔

خواب بکھر جاتا ہے۔ آنکھوں میں آیا ہوا خوبصورت منظر ایک چھپاکے کے ساتھ کانچ کی طرح ٹوٹ جاتا ہے اور وہ مجھے خون آلود نظروں سے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لاتے ہیں۔

پھر وہی دھواں دھواں اور سڑک۔
میں نے ان سپنوں سے جان چھڑانے کی لاکھ کوشش کی ہے۔
مگر خواب ہیں کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔ جاگتی آنکھوں کے خواب، کسی کے ہاتھوں کی نرماہٹ،
دھیمی دھیمی روشنی اور کوئی اجنبی سا احساس۔

گھر میں رات کے پچھلے پہر میں میلے تکیہ پر جب سر رکھتا ہوں اور چند لمحوں میں ہی پلکیں بھاری ہونے لگتی ہیں۔ اور پھر آنکھیں بند کرتے ہی منظر بدلنے لگتا ہے۔

نظر آتا ہے دور کسی جگہ پر زور کی بارش، پھول، گھاس اور میں پاؤں۔ ننگے چلتا ہی جاتا ہوں، چلتا ہی جاتا ہوں۔

پرندے، خوبصورت ہوا، سردی کا ہلکا سا احساس۔ ۔ ۔
اور پھر اچانک سے ”اٹھو“ کی سخت آواز۔ منظر کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔
منحوسیت منحوسیت مجسم منحوسیت۔
گالیاں گالیاں اور گالیاں۔ ۔ ۔
کیا ہے تیرے پاس کیا ہے میرے پاس۔ ۔ !
اور میں پھر کھڑا ہوں سنگل پر پھولوں کے ہار تھامے ہوئے۔

میں نے جو پینٹ آج پہن کر رکھی ہے وہ وہاں سے آئی ہے جہاں میرے جیسا کوئی اسے پہنتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کیونکہ اس طرح کی پینٹ میں سات زنجیریں بندھی ہوتی ہیں۔ مگر میں نے بہت کوشش کی ہے کہ مجھے اس کی پینٹ سات زنجیروں والی پینٹ مل جائے مگر وہ بتاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تین زنجیر سلامت ہونے والی پینٹ ہی مل پاتی ہے ہے۔

تم تین زنجیروں والی بینٹ پہن کر بھی خوبصورت لگتے ہو۔
میں بھی اپنے آپ میں کتنا الگ ہوں میں میری حقیقت اور میرے خواب کتنے مختلف ہیں۔
خواب کتنے خوبصورت ہیں، حقیقت کتنی کڑوی ہے۔
لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب یہ سپنوں کے آخری دن ہیں۔

اب میں تھک رہا ہوں پہلے اڑتیس سیکنڈ کے لئے سنگل رکتا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ میں تمیں اس تیز کلر کی شرٹ زنجیروں والی پینٹ اور نوک والے بوٹ میں بہت ہی خوبصورت لگوں گا۔

اور یہ سب جتن میں تمھارے لئے ہی کرتا ہوں کہ شاید تمھاری نظر مجھ پر پڑ جائے۔
تم مجھے خوبصورت محسوس کر کے گاڑی کا شیشہ جھٹ سے کھولو گی اور مجھے پاس بیٹھنے کا اشارہ کروگی۔
اور میں اپنے ہاتھوں میں پکڑے پھولوں کے ہار پیار سے تمھارے ہاتھوں میں پہنادوں گا۔
مگر اب میرے خوابوں میں بھی رحیم گدھا گاڑی والا گھس اتا ہے۔
ایک کالا سا بڈھا سخت اور جھریوں والے چہرے والا،
وہ ہر وقت منہ سے کچھ کچھ کی آواز نکال کر گدھے کو ہانکتا ہے۔
چہرے پر کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے وہ اور اس کا گدھا اور دونوں کی پتھرائی آنکھیں، بے خواب آنکھیں۔
وہ بے زار بھی نہیں نہ شکوہ نہ آنسو، بس پتھر کا بنا ہوا رحیم کالا حبشی۔

جس نے ایک خوبصورت شام کو نہ چاہتے الوداع کہا تھا اور سامان کی گٹھڑی گدھا گاڑی پر ڈال کر وہ اس کے ہم شکل ایک کالی مگر ناگن کی آنکھوں والی اپسرا اور اس کا ایک۔ بچہ شام کے ڈھلتے ہوئے سورج کی سمت چل نکلے تھے اور پھر راستہ طویل ہوتا چلا گیا۔

ایک جگہ پر اس اپسرا نے اپنی ناگن جیسی آنکھیں موند لیں۔
رحیم نے اسے وہیں ریت میں دبا دیا تھا۔

وہی ریت کہ جب ہوا کے تیز جھکڑ چلتے تھے تو اس کے گاؤں تک اڑ کر آتی تھی۔ اس اپسرا کہ جدائی پر رحیم کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ اس کے چہرے پر ایک تاثر ڈیرا ڈال گیا تھا۔ ”بے حس اور بے بس“

اب میں بھی اس اڑتیس سیکنڈ کے وقت سے بیزار ہو رہا ہوں۔
کیا میرے آنکھیں بھی پتھرا رہی ہے کیا میرے چہرے پر بھی رحیم کی طرح ایک ہی تاثر امڈ کر آیا ہے۔

فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتا ہوں سوچنے لگتا ہوں اب تو محسوس ہوتا ہے کہ اب ہے نوک والے بوٹ میرے پاؤں میں درد کرنے لگے ہیں۔ کتنی شوخ رنگ کی میری شرٹ ہے اور اسی طرح شوخ رنگ کی میری پینٹ ہے مگر پھر اب مجھے کیوں یہ سب بے رنگ سا دکھنے لگا ہے۔

بیزاری اور اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے کہ کتنا بے رنگ منظر ہے اوراب مجھے پندرہ سیکنڈ بھی زیادہ لگنے لگتے ہیں۔ میں واپس اپنے آپ میں خود بخود لوٹ کر آتا ہوں۔

میں سوچنے لگ جاتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ رحیم تو کہیں پر بھی نہیں تھکا تھا وہ ایک جگہ جھگی بنا کر بیٹھتا تھا تو دوسرے دن بھوکے بلڈوزر آتے تھے اور اس سے زمین چھین لیتے تھے۔

اور وہ اٹھ کر گدھا گاڑی کو آگے بڑھانا شروع کرتا ایک دن تو کسی نے اسے زور سے پکارا
’ بس اب رک جاؤ گدھا گاڑی والے بیوقوف آگے سمندر ہے‘
اس سے پہلے سمندر کا اس نے فقط نام سنا تھا،

مگر وہ اپنے گاؤں کو چھوڑتے ہوئے جو آخری نظر سے دیکھا تھا وہ بھول نہیں پایا۔ اسے وہ منظر ہی منظر سے خوبصورت لگتا تھا۔

اس منظر کے یاد آنے پر وہ پتھرائی ہوئی آنکھیں بند کر لیتا تھا اسے دھڑکا سا لگتا تھا کہ کہ کہیں وہ منظر بھی اس آنکھوں میں پتھرا نہ جائے۔ اس لئے آنکھیں بند کرنا بھتر ہے۔

یہاں تو اب اس کا دم گھٹتا تھا۔ مگر کیا کرے آگے تو واقعی سمندر تھا۔
مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ بھی تو ”وہاں“ سے آئے ہیں جہاں سے ”ہم“ بھی ہیں اور رحیم بھی تھا۔

پھر یہ سیدھے ہاتھ پر کیوں مڑ جاتے ہیں۔ ان کے آگے تو واقعی سمندر ہے مگر ان کو تو کوئی بھی چلا کر نہیں کہتا کہ

’اوئے رک جاؤ بیوقوف آگے سمندر ہے‘
بلکہ وہ تو سمندر پر آگے ہی بڑھتے جار رہے اور سمندر ہے کہ ان کی آمد سے پیچھے ہی ہٹتا جا رہا ہے۔
ہر طرف سے سمندر اب دیواروں کے اندر قید ہی ہوتا جا رہا ہے،

رحیم گدھا گاڑی والے کو سمندر سے کیا واسطہ اب تو سمندر کنکریٹ کے بلند دیواروں اور سلاخوں کے پیچھے ہے۔

اب اس رحیم گدھا گاڑی والے کے لئے سمندر میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔

خیال ٹوٹا ہے تو آج اس کی گاڑی آکر رکی ہے۔ اج اس نے گاڑی کا شیشہ اتارا ہوا ہے۔ اس نے میری طرف نظر ہی نہیں کی بلکہ آج تو میں خود اس کی گاڑی کے اس کھلے شیشے کے سامنے کھڑا ہوا ہوں۔

اس نے ایک ہاتھ کے اشارے سی مجھے دیکھے بغیر دور جانے کا اشارہ کیا ہے۔
دھیمی سی موسیقی میں میرے کانوں تک ایک پات پہنچی ہے۔ جس بات نے میرے پاؤں زمیں سے باندھ دیے ہیں۔
وہ ہنس ہنس کے کہہ رہی تھی
”ہم تو بلائے گئے تھے۔ سمندر کے راستے!“
اور سیکنڈ ختم ہونے اور وہ گاڑی میں مجھے دیکھے بغیر الٹے ہاتھ پر مڑ گئی ہے۔

مجھے سمجھ آ گیا کہ رحیم گدھا گاڑی والا کی راہ ریتیلی اور صحرائی کیوں تھی۔ جہاں کسی گمنام جگہ پر اس کی اپسرا دفن ہے۔ اور اس کا راستہ سمندر کا راستہ نہیں تھا۔

تبھی تو ہر کوئی اس کو ڈراتا تھا کہ آگے سمندر ہے۔
اب رات بھی رحیم کی طرح کالی ہوچکی ہے۔
میرے خواب تو جاگ چکے مگر اب اس جگہ پر مجھے کسی کا کوئی انتظار نہیں رہا ہے۔ میں خود

اپنے حقیقی وجود اور جاگ کے سپنوں کے ساتھ واپس وہاں جا رہا ہوں۔ جہاں اس کو میرا انتظار ہے۔ جو تیز لال رنگ کی لالی لگاتی ہے۔ جس کے جاگ کے سپنے بھی مجھ سے جڑے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).