میر شکیل الرحمان کی گرفتاری


یہ میرشکیل الرحمان کی گرفتاری سے کوئی دو دن بعد کی بات ہوگی کہ اس وقت صحافتی برادری اس تازہ کارروائی کے سبب سے دم بخود تھی۔ اس کارروائی نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ ہتھکنڈے جو خالص آمریت میں روا رکھے جاتے ہیں وہ اب روا رکھے جا رہے ہیں۔ ایک اجلاس ہوا راقم الحروف اس اجلاس کے انعقاد کا ایک محرک تھا چند سینئر ترین صحافیوں کے اس اجلاس میں میڈیا کو درپیش مشکلات اور خطرات کا اس ذیل میں جائزہ لیا گیا کہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری ذاتی عناد کے علاوہ اور کیا کیا مقاصد رکھتی ہے صحافیوں کے قلم توڑنے کا ایک حربہ اور اب اس حربے کے مقابلے میں لائحہ عمل طے کرنا تھا۔

کیونکہ میر شکیل الرحمٰن ایک علامت کے طور پر گرفتار ہوئے کہ اگر اختلاف کیا تو ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اس صورتحال کا تدارک از حد ضروری ہے۔ اس لائحہ عمل کے تحت راقم الحروف نے ”میڈیا کو درپیش خطرات“ کے عنوان سے ایک مذاکرے کا انعقاد کیا۔ اس مذاکرے میں امریکہ کے پاکستانی امور پر ماہر، ولسن سنٹر واشنگٹن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساؤتھ ایشیا مائیکل کوگلمین نے ویڈیو کے ذریعے شرکت کی۔

وہ امریکہ میں ایک ایسے دانشور کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جو پاکستان کا بہت حامی ہو۔ جو آپ کا حامی ہوتا ہے وہ آپ کی کوتاہیوں کی ضرور نشاندہی کرتا ہے لہذا انہوں نے گفتگو کا آغاز اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے کیا کہ اس نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کیا۔ پاکستان میں گزشتہ بارہ برس سے جمہوریت موجود ہے مگر میر شکیل الرحمن کی نا جائز گرفتاری سے یہ مکمل طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ حکومت اس سے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ تنقید کو ریاست کی مخالفت قرار دیا جا رہا ہے جبکہ تنقید کو برداشت کرنا ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کے اس اہم ترین موضوع پر کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہے امریکہ نے بھی اس پر بات کی ہے مگر امریکہ نے جتنی اس پر بات کی ہے اس سے زیادہ بات کرنا چاہیے تھی کیونکہ کرپشن کرپشن کی آڑ میں موجودہ طرز عمل پاکستان میں جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

اپنے افتتاحی کلمات میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ میڈیا پر دباؤ بہت زیادہ ہے میر صاحب کی گرفتاری ایک واضح پیغام ہے کہ میڈیا کو طرح طرح سے زیر حکم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے انہوں نے اس اہم نقطے کی طرف اشارہ کیا کہ میڈیا عوام کا ترجمان ہوتا ہے اگر میڈیا کا گلا گھونٹ دیا جائے گا تو اس صورت میں کسی بھی نوعیت کی آزادی کا تصور محال ہوتا ہے۔ مجیب الرحمن شامی خود صحافتی اقدار کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکے ہیں انہوں نے اپنی گفتگو میں صحافتی جملہ استعمال کیا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافی چاہے وہ میڈیا مالکان ہو یا ورکنگ جرنلسٹ سب کے اتحاد کی ضرورت ہے ورنہ ایک ایک کر کے ہم سب مارے جائے گے۔ انہوں نے موجودہ صورتحال پر سیاسی جماعتوں کے کردار پر مایوسی کا اظہار کیا اور یہ بھی نکتہ واضح کیا کہ سول سوسائٹی بھی خاموش بیٹھی ہے۔

رؤف طاہر نے کہا کہ صحافت با اثر طاقت بن چکی ہے اور حکمران درحقیقت اس طاقت سے خوفزدہ ہے میڈیا ایک توانا درخت بن چکا ہے اور حکمران اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ سجاد میر نے کہا کہ حالات بہت عجیب ہے صورت حال ایسی ہیں کہ سب کچھ ابہام کا شکار ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ میڈیا کے عمائدین کا ردعمل بھی اس حوالے برجستہ اور موثر نہیں۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ہمیں اس وقت بہت برے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمیں میڈیا کی آزادی کی غرض سے ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔

امجد محمود ( سابقہ صدر پریس گیلری پنجاب اسمبلی ) گوہر بٹ ( سابقہ صدر پی ایف یو جے ) اور جاوید فاروقی ( سابقہ نائب صدر لاہور پریس کلب ) نے ورکنگ جرنلسٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ ورکنگ جرنلسٹ ہمیشہ صحافتی آزادی اور صحافتی اقدار کے ساتھ ہے لیکن اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ صحافیوں کی شرائط ملازمت اور تنخواہوں کے مسائل کو فی الفور حل کیا جائے کیونکہ کوئی بھی آزادی معاشی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

الطاف حسن قریشی نے مذاکرے کو سمیٹتے ہوئے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم اس سے بھی برے حالات کا سامنا کرچکے ہیں اور اس بات میں کوئی شبہ بھی نہیں کیوں کہ وہ نظریات پر گرفتار ہونے والے سینیئر ترین صحافیوں میں شامل ہیں۔

انہوں نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے متعلق کہا کہ اس سے حوصلے پست نہیں ہونے چاہیے انہوں نے تجویز دی کہ ایک کمیٹی قائم کی جائے جو میڈیا اور دیگر سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل ہو جو میڈیا پر جبر، میر شکیل الرحمان کی ناجائز گرفتاری اور صحافیوں کو درپیش مسائل پر کام کریں اور نہ صرف کام کریں بلکہ اس پر قابل عمل تجاویز بھی مرتب کرے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جب جمہوریہ کے نام پر جمہوریت کشی کی جا رہی ہوتی ہے تو اس سے فقط ایک طبقہ نقصان نہیں اٹھاتا بلکہ پورا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے لوگوں کی زبانوں کو خوف سے پابند کرنے کی کوشش کے اس کے سوا اور کوئی نتائج نہیں نکلتے کہ معاشرے میں تمام امور پر پر امن گفتگو کے لئے فضا سازگار نہیں ہوتی۔ اس وقت ایک تاریک تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور موجودہ دور اسیروں کے دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).