نوجوانوں کا عالمی دن


12 اگست پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں نوجوانوں کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے ۔ دن کی مناسبت سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیاجاتا ہے ، جس میں نوجوانوں کے مسائل اجاگرکیے جاتے ہیں اور ان کے حل کی تجاویز دی جاتی ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے یہ دن منایا جا رہا ہے لیکن نوجوانوں کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کے حوالے سے نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی قانون سازی کی جارہی ہے۔

پاکستان نوجوان افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کا خوش قسمت ملک ہے، نوجوان ملکی مجموعی آبادی کا چوسٹھ فیصد ہیں جن میں ایک سے تیس سال تک کے مرد وخواتین شامل ہیں جبکہ پندرہ تا انتیس سال کے افراد کی تعداد بھی انتیس فیصد ہے، لیکن اگر مسائل کے حوالے سے دیکھا جائے تو بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی مسائل کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ غربت و افلاس کے باعث بے شمار بچے یا تو لاغر و کمزور پیداہوتے ہیں یاپھر پیدائش کے بعد حفظان صحت کے اصولو ں کے مطابق انھیں خوراک نہیں ملتی جس سے ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما نہیں ہوپاتی۔ جو عملی زندگی میں ہرسطح پر فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

غربت بھوک و افلاس معاشرتی رسم ورواج اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر بے شمار والدین بچوں بالخصوص بچیوں کے لیے تعلیم ضروری نہیں سمجھتے۔ اب بھی تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ بے شمار بچے محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ننھے ننھے معصوم بچے بھٹہ خشت اور دیگر جگہوں پرمزدوری کرتے دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگتاہے۔ ان بچوں کو دیکھ کراحساس ہوتاہے کہ والدین ہی اپنے بچوں سے ان کا مستقبل چھین رہے ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی کس کرب میں گزر رہی ہے یہ ان کو ہی پتہ ہوتاہے۔ بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک بچے اور نوجوان اپنی ساری زندگی دو وقت کی روٹی کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔

تعلیم حاصل کرنے والے دو طرح کے بچے ہوتے ہیں ایک جو بہت مشکل سے تعلیمی اخراجات پورے کر سکتے ہیں اور دوسرے جو مکمل استطاعت رکھتے ہیں اول الذکر میں سے اکثریت گھریلومجبوریوں کے باعث تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں اور موخر الذکر تعلیمی نظام کی بھینٹ چڑھ کر ڈگری ہاتھوں میں لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے یہاں وہ یا تو مادری زبان یا پھر قومی زبان سے شناسائی حاصل کرتاہے لیکن ہم تعلیم کو مادری زبان میں تو بہت دور کی بات آج تک قومی زبان میں بھی نہ کرسکے، اس لیے بچہ ابتداء ہی سے رٹا سسٹم کا سہارا لے لیتاہے۔ یہی رٹا سسٹم اس کی زندگی کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے ۔

اگر طبقاتی نظام تعلیم کی بات کی جائے تو مدارس، سکول، اردو میڈیم، انگلش میڈیم اور نجی و سرکاری شعبہ ہر جگہ اپنا نظام اور نصاب تعلیم ہے قوم ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ جائیں تو جائیں کدھر، ایک طبقہ اشرافیہ ہے جس کے لیے ایچی سن، برن ہال اور بیکن ہاؤس جیسے ادارے موجود ہیں۔ عوام کے لیے یکساں نصاب و نظام تو درکنار تعلیمی اداروں میں بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ، بجلی پانی اور بیت الخلا ء جیسی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں وہاں یہی ملک اشرافیہ کے لیے امریکہ اور برطانیہ ہے۔ اسی فیصد غرباء کے لیے رائج نظام تعلیم میں صرف ایف اے اور بی اے پاس کی کھیپ تیار ہو رہی ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد قوم کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔ مکمل یا نامکمل تعلیم کے بعد نوجوان اپنی تمام تر توانائیاں حصول روزگار اور ماں باپ و بہن بھائیوں کا دست وبازو بننے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی انھیں حکومت کی طرف سے کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔ دنیا آج گلوبل ویلج ہے، فاصلے مٹ گئے ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دوردورہ ہے لیکن ہمارے نوجوان خصوصاً دیہی علاقوں میں آج بھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا رونا رورہے ہیں۔

قیام پاکستان بننے کے بعد سے تاحال نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کے لیے کسی بھی حکومت نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا۔ نوجوان افرادی قوت بلاشبہ ہمارے لیے کسی عطیہ و نعمت خداوندی سے کم نہیں جن ملکوں کے پاس اس کی کمی ہے انھیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نوجوانوں کے ذریعے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرے۔ منتخب نمائندے اشرافیہ کے نہیں بلکہ اسی فیصد غریب لوگوں کے ووٹ سے ایوانوں میں پہنچتے ہیں وہ ان غریب لوگوں کے بچو ں کے لیے قانون سازی کریں پالیسیاں بنائیں اور سب سے بڑھ کر یکساں نظام و نصاب تعلیم کا نفاذ یقینی بنائیں تاکہ امیر و غریب کا بچہ ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کرمساوی حقوق حاصل کر سکے۔ احساس محرومی کاخاتمہ ہو۔ ہماری نوجوان نسل ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).