ہم کب معافی مانگیں گے؟


جرم کرنے والے کو معافی مانگنا ہوتی ہے یا اسے سزا ملتی ہے۔ لاہور میں چار سو سال پرانی تاریخی مسجد وزیر خان میں گانے کی ویڈہو شوٹ کرنے والے اداکار بلال سعید اور اداکارہ صبا قمر سخت تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بلال سعید اور صبا قمر نے تو اپنے جرم کی وجہ سے معافی مانگ لی۔ اور ان پر ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے۔ ان کے جرم کی سزا تو قانون ان کو دے ہی دے گا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب معافی مانگیں گے یا ہم کو کب سزا ملے گی؟ ہمارے جرم تو ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہوں نے مسجد میں ڈانس کیا تو ہم کون سا ان سے کم ہیں۔ ہم نے بھی بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان اور فیصل مسجد کو ڈیٹنگ پوائنٹ بنا رکھا ہے۔ اگر انہوں نے ڈانس کیا تو کیا ہم نے مساجد میں ڈیٹ نہیں ماریں؟ کیا ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان یا فیصل مسجد میں غیر اخلاقی حرکات کرتے نہیں پکڑے گئے؟ کیا ہم نے مسجدوں میں قرآن کے سائے تلے بچوں کا ریپ نہیں کیا؟ کیا ہم نے بچوں کو خانہ خدا میں ظالم بھیڑیوں کی طرح مارا پیٹا نہیں؟ ہم نے بھی یہ سب کیا ہے۔ صبا قمر اور بلال سعید تو اپنے جرم کی معافی مانگ چکے۔ ان کے خلاف تو ایف آئی آر بھی ہو گئی۔ ہم کب معافی مانگیں گے؟ ہم پہ کب ایف آئی آر ہو گی؟

انہوں نے مسجد میں ڈانس کر کے اس کا تقدس پامال کیا۔ ہم نے مسجد میں اغلام بازی کر کے انسانیت کی توہین بھی کی اور مذہب کی توہین بھی۔ مانا کہ ان کا جرم تھا، ہر جگہ، ہر چیز کے کچھ تقاضے، کچھ آداب ہوتے ہیں۔ جس طرح کوئی سوئمنگ سوٹ پہن کر کسی آفیشل میٹنگ میں نہیں جا سکتا، یا پینٹ کوٹ اور نکٹائی لگا کر جاگنگ کرنے نہیں جاتا اسی طرح مسجد کے بھی کچھ ادب آداب ہوتے ہیں۔ کوئی مسجد میں ڈانس نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی مسجد میں بچے کا ریپ کر سکتا ہے۔ بلکہ ڈانس تو آپ مسجد کے باہر کسی بھی اور جگہ پر کر سکتے ہیں لیکن بچوں کا سکون آپ پوری دنیا میں کہیں نہیں برباد کر سکتے۔

یاد رہے بچوں کے بچپن کو مار دینا ڈانس کرنے سے کہیں بڑا جرم ہے۔ ڈانس کرنے والوں کو تو شاید جرم کی سزا بھی مل جائے، لیکن کبھی کسی مولوی کے خلاف بھی ایف آئی آر ہوئی ہے؟ کبھی کسی (نام نہاد) عالم، دین فروش ملا کو بھی مسجد کا تقدس پامال کرنے پر سزا ہوئی ہے؟ ایسا کیس سامنے آ بھی جائے تو ہم جیسے ہی اس پر ”مٹی پانے“ کے چکروں میں ہوتے ہیں کہ معاملہ زیادہ اچھلا تو بدنامی ہو گی۔ لیکن جن بچوں کا بچپن برباد ہو گیا، جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نفسیاتی مریض بن گئے، ان کا کیا؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسجد کی توہین پہ بولنے والی سب زبانیں اس کا بدلہ یوں لیتیں کہ اس کے بعد مسجد نمازیوں سے لبالب بھر جاتی۔ لیکن اس واقعے کے بعد کیا کوئی ایک بھی آدمی معمول کے نمازیوں کے علاوہ نماز پڑھنے آیا؟ نہیں نا تو پھر یہ منافقت کیوں؟ یہ دوہرا معیار کیوں؟

ڈانس کرنے والے تو فنکار تھے، ان کا تو کام ہی یہی تھی، ناچ گانا، ثقافت اور فنون لطیفہ۔ مگر کیا ہم بھی ایسے ہیں؟ ہمارا بھی کام یہی ہے کہ حج عمرے کر کے، نام کے ساتھ حاجی لکھوا کے کاروبار میں بے ایمانی کریں؟ چیزوں میں ملاوٹ کریں۔ کیا اس سے اسلام بدنام نہیں ہوتا؟ کیا اس سے دین کی حرمت پر حرف نہیں آتا؟

ہم بھی بہت سارے جرائم میں ملوث ہیں۔ ہم پر بھی توہین مذہب، توہین مسجد کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ مسجد کے سائے تلے ہم بے ایمانی بھی کرتے ہیں، جھوٹ بھی بولتے ہیں اور دھوکہ فراڈ بھی کرتے ہیں۔ وہ قصور وار تھے، معافی مانگ چکے، سزا بھی پالیں گے لیکن قصور وار تو ہم بھی ہیں، جرم کرنے والے ہم بھی ہیں تو ہم کب معافی مانگیں گے؟ ہم کو کب سزا ملے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).