مذہبی اصلاح پسندی کی مختصر تاریخ (دوسرا حصہ)


یہ اصلاحی تحریک جسے پروٹسٹنٹ انقلاب بھی کہا جاتا ہے روحانی اور دنیاوی طاقتوں کے درمیان ایک طرح کی جنگ بن گئی اس طرح کے تضادات ہندوستان میں بھی تھے مگر یہاں اس انتہا تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ یورپ میں اس تحاد کو مزید بڑھاوا قوم پرستی نے دیا جس کی ایک جھلک ہمیں سیوا جی کی قوم پرستی میں بھی نظر آتی ہے۔

یورپ میں کلیسائے روم کی عظیم دولت اور عام لوگوں پر بھاری محصول نے عوام کو کلیسا کے خلاف کر دیا تھا۔ ویسے تو ہندوستان میں بھی کبھی کبھار مسلم حکم ران اپنی غیر مسلم رعایات پر جزیہ نامی محصول عائد کر دیا کرتے تھے لیکن اس سے مذہبی رہ نماؤں کا اس طرح فائدہ نہیں ہوتا تھا جیسا کہ یورپ میں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کلیسائے روم سے کچھ لوگوں کی علیحدگی کی ایک وجہ خود کلیسا میں غیر اخلاقی حرکتوں اور اقربا پروری کا چلن بھی تھا۔ پھر ایک نئی طرح کی مذہبی پارسائی نے بھی مذہبی اختلافات کو ہوا دی تھی۔

ویکلف اورہس کے بعد ایک ولندیزی اسکالر ایراس مس نے سن چودہ سو پینسٹھ سے پندرہ سو پینتس تک مذہبی اصلاحات کے لیے کام کیا۔ وہ خود بھی کیتھولک پادری تھا جو سماجی نقاد اور نشاة ثانیہ میں ایک انسان دوست تحریک کا داعی تھا۔ اس نے نئے عہد نامے کے لاطینی اور یونانی تراجم تیار کیے اور ایسے سوال اٹھائے جو پروٹسٹنٹ تحریک کے لیے کارآمد ثابت ہوئے۔ اور پھر کیتھولک کاؤنٹر ریفارمیشن یا رد اصلاحات کے لیے بھی۔ گوکہ ایراس مس بھی کیتھولک کلیسا کا ناقد تھا مگر وہ مارٹن لوتھر کے جتنا نہیں تھا۔ اس نے پوپ کے اختیارات کو تسلیم کرتے ہوئے درمیانہ راستہ نکالنے کی کوشش کی اور روایتی عقیدے، پارسائی کا تحفظ کرتے ہوئے لوتھر کی اس بات کو مسترد کر دیا کہ صرف عقیدہ ہی کافی ہے۔

ویکلف، ہس اور ایراس مس کی تعلیمات نے نئے خیالات کا بنیاد ڈالی۔ ان کی الٰہیات نے اس پر زور دیا کہ ذاتی روحانی تشکیل نو کی جائے اور کلیسا کے بہت سے دعوؤں کو رد کر دیا جائے۔ غالباً ویکلف اور ہس سے زیادہ یہ انسان دوستی کی تحریک تھی جس نے کلیسائے روم کی بدعنوانیوں پر حملہ کیا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پروٹسٹنٹ تحریک کے رہ نما کسی بڑی رواداری اور آزاد دانش وری کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی تحقیق اور تجسس پر زیادہ زور دیتے تھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ ازم کے چار بڑے رہ نما جن میں لوتھر، کیل ون، نوکس اور زوینگلی شامل ہیں سب نے عدم رواداری کا مظاہرہ کیا اور آزاد خیالی کے دشمن ثابت ہوئے۔

وہ جس بات کا مطالبہ کلیسائے روم سے کر رہے تھے خود اس پر عمل پیرا نہیں تھے۔ پروٹسٹنٹ انقلاب جرمنی سے شروع ہوا اور پھر اسکینڈے، نیویا، پولینڈ، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، اسکاٹ لینڈ، انگلستان، بوھیمیا اور ہنگری تک پھیل گیا۔ اس پروٹیسٹ یا احتجاجی مسیحیت کی ایک شکل لوتھرن ازم تھی جو جرمن پادری مارٹن لوتھر نے چودہ سو پچاسی سے پندرہ سو پینتالیس تک پیش کی۔ اس کا بنیادی خیال ”عقیدے سے جواز“ حاصل کرنے کا تھا۔ جب کہ کلیسائے روم اپنا جواز روایات سے پیش کرتا تھا۔ پھر کلیسائے روم کے پادریوں نے جو ”جنت کے پروانے“ جاری کرنے شروع کیے تو لوتھر نے پندرہ سو سترہ میں اپنے پچانوے مقالوں میں ان کو رد کر دیا۔

لوتھر کے خیالات ہس سے ملتے جلتے تھے جسے تقریباً سو سال قبل ملحد قرار دیا گیا تھا۔ ان سو برس میں بہت کچھ بدل چکا تھا اور اب لوتھر اس قابل تھا کہ کھلی جنگ کا اعلان کردے اور پورے کلیسائی نظام کو للکارے۔ پندرہ سو بیس میں لوتھر نے تین نئے مقالے تحریر کرکے کلیسائے روم کی سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر حملہ کیا۔ پوپ نے لوتھر کو مسیحیت سے نکالنے کا فرمان جاری کیا مگر عام لوگ مذہب کی نئی تشریح کو تسلیم کرنے لگے۔ اسے پارساؤں نے بھی پسند کیا کیونکہ اس میں روحانیت اچھی خاصی تھی۔ مادیت پسندوں نے بھی اس میں کلیسا کی دولت پر قبضے کاموقع دیکھ لیا۔

پھرحب الوطنی کے دعوے دار بھی نکل آئے جنہوں نے جرمن قومی اتحاد کے راستے سے یورپ کو نکالنے کا سوچا اور عمل کیا۔ لیکن جب کسانوں نے زمینوں پر اپنا حق حاصل کرنا چاہا تو لوتھر نے امیروں کا ساتھ دیا اور کسانوں کو کچلنے میں مدد دی یہ واقعہ پندرہ سو پچیس کا ہے۔

اسی طرح زوینگلی نے سوئٹزرلینڈ میں کلیسائے روم کی مخالفت کی اور پرانے عقائد کو للکارا۔ پندرہ سو تئیس میں زوینگلی نے کلیسائے روم سے آزادی کا اعلان کیا۔ پندرہ سو تیس میں ایک کوشش کی گئی کہ لوتھر اور زوینگلی مل کر کام کریں۔ ان کی ملاقات بھی ہوئی مگر مذہب کی نئی تشریح کے کچھ نکات پر ان کے اختلافات برقرار رہے۔

زوینگلی پندرہ سو اکتیس میں فوت ہوگیا اور اس کی جگہ جان کیل ون نے لی جو پندرہ سو چونسٹھ میں صرف پچپن سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ یوں کیل ون زوینگلی کے بعد تیس برس سے زیادہ زندہ رہا اور اس نے کچھ لوتھر اور کچھ زوینگلی کے مذہبی نکات کو ملاکر کیل ون ازم کی بنیاد رکھی مگر پھر بھی لوتھر اور کیل ون کے اختلافات برقرار رہے۔ نئی مذہبی تحریکیں کبھی بھی متحد نہ ہوسکیں۔ کیل ون ازم سے بعد میں جدید پریس بی ٹیرین، کونگر ے گیشنل اور ریفارمرڈ چرچ نکلے۔ اسکاٹ لینڈ میں جان نوکس جو پندرہ سو پانچ سے پندرہ سو ستر تک زندہ رہا نے کیل ون ازم کی بنیاد ڈالی۔ جان نوکس کیل ون سے تقریباً پانچ سال بڑا تھا۔ لیکن اس نے کیل ون کی استادی قبول کی۔

جان نوکس نے سوئٹزرلینڈ میں کیل ون کے ساتھ خاصا وقت گزارا تھا۔ نوکس نے اسکاٹ لینڈ کا سیاسی و مذہبی نقشہ ہی بدل دیا اور وہاں کیل ون ازم مقبول ہوگیا۔ حتیٰ کہ انگلستان میں بھی کیل ون نے اینگلی کن کلیسا پر اثر ڈالا جو دراصل شاہ ہنری ہشتم نے شروع کیا تھا۔ سترہویں صدی کے وسط میں اولی ورکرام ویل کے ذریعے کیل ون ازم کو وقتی فتح نصیب ہوئی تھی۔

اب لوتھرن ازم اور کیل ون ازم کے علاوہ پروٹسٹنٹ ازم کی ایک تیسری شاخ اینگلی کن ازم کی شکل میں موجود تھے۔ جس سے ایپس کوپل چرچ امریکا میں اور چرچ آف انگلینڈ یا کلیسائے انگلستان برطانیہ میں قائم ہیں۔ اینگلی کن ازم غالباً پروٹسٹنٹ ازم کی سب سے قدامت پسند شکل ہے جو دراصل پرانے کلیسائے روم کا ہی نیا ڈھانچہ ہے بس اس میں سے پاپائے روم اور اس کے حواریوں کو نکال دیا گیا ہے۔

اس مضمون کے اگلے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ ہندوستان میں پندرہویں اور سولہویں صدی کے مذہبی رجحانات کیا تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).