صحافی بمقابلہ صحافی


وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور ساتھ ہی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ہمارے کچھ صحافی بھائیوں کی کشمکش بھی عروج پر ہے۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہمارے مخلص دوست اعجاز عباسی کا ڈی جی عاصم کھچی صاحب سے ہونیوالا معمولی جھگڑا رفتہ رفتہ غیر معمولی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سچ پوچھیں تو اس جھگڑے کی اصل وجہ صحافیوں کی معاشی بدحالی ہے، مجھ سمیت کئی سفید پوش لوگ حال دل بیان کرنے سے گریزاں رہتے ہیں کیونکہ سب کو ایک جیسے حالات کا ہی سامنا ہے۔ محترم اعجاز عباسی نے پریس انفارمیشن افسر شاہیرہ شاہد سے ایک اشتہار کے لئے ہی نامناسب زبان استعمال کی اور اس نامناسب رویے کو اس لئے نظرانداز کر دینا چاہیے کہ تنگدستی انسان کو بہت کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔

معاملہ اگر محترمہ شاہیرہ شاہد تک ہی محدود رہتا تو شاید رات گئی اور بات گئی ہو جاتی لیکن دوست اعجاز عباسی نے پلٹ کر دوسرا وار ہم سب کے دوست عاصم کھچی صاحب پر بھی کیا۔ عینی شاہدین کاکہنا ہے کہ عاصم کچھی کے روم میں بھی تکرار اشتہار کے حوالے سے ہی ہوئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحافیوں کو بھوک نے کن حالات سے دو چارکر دیا ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ محترم اعجازعباسی کو ان دو مورچوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد رک جانا چاہیے تھا لیکن وہ رکے نہیں بلکہ انہوں نے سوشل میڈیا کا ”ٹریگر“ تھاما اور جو پوسٹ بھی لگائی اس میں کشمیری صحافیوں کو ایسے پیش کیا گیا جیسے ہماری پی آئی ڈی انہیں ”اچھوت“ سمجھتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جناب افضل بٹ، جناب مشتاق منہاس اور کئی دیگر کشمیری بھائی اسلام آباد میں نہ صرف اہم سمجھے جاتے ہیں بلکہ مذکورہ بالا دونوں صحافی حضرات صحافی برادری کے ہردلعزیز لیڈر بھی ہیں۔ لہذا پی آئی ڈی اسلام آباد کو نریندر مودی سے جوڑنا اور وہ بھی صرف اشتہارات کے لئے اس حد تک چلے جانا زیب نہیں دیتا۔

چونکہ نیشنل پریس کلب کے انتخابات صرف دو دن بعد ہونے والے ہیں اس لئے یا تو صحافیوں کی قیادت اس ایشو کو حل کرنے کے لئے یکسوئی سے توجہ نہیں دے پائی اور یا پھر اس معاملے کو 17 اگست کی شام اور 18 اگست کی صبح تک التواء میں جان بوجھ کر رکھا جا رہا ہے اور حسب ذائقہ مظاہرے کرکے کشمیری ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔

حیرانی تو اس بات پر ہے کہ بڑے بڑے صحافیوں کے معتبر نام جنہیں اس آگ پر پانی ڈالتے ہوئے نظرآنا چاہیے تھا انہیں ہاتھ میں پٹرول کی بوتلیں لئے دیکھا جا رہا ہے اور کچھ اس آگ کو بھڑکانے کے لئے ”پھوکنی“ لئے پھر رہے ہیں۔ البتہ برادرعزیز تنویر اعوان نے ایک بار پھر مرد بحران ہونے کا ثبوت دیا ہے اور عاصم کھچی کے لئے پہلی آواز جناب تنویر اعوان نے ہی بلند کی۔

جناب عاصم کھچی صاحب کو صحافی برادری آج ہی نہیں جاننے لگی بلکہ تمام صحافی خواہ وہ کشمیری ہوں یا ملک کے کسی بھی دوسرے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہوں انہیں عاصم کچھی کی شرافت اور ایمانداری کا پورا یقین ہے، یہ وہی عاصم کھچی ہیں جس نے سابق پی آئی او کے آمرانہ فیصلوں کے برعکس ریجنل اخبارات کے لئے 25 فیصد کوٹہ ذاتی رسک پر بحال کروایا ہے، یہ وہی عاصم کھچی صاحب ہیں جو سی ڈی اے میں ہوں یا اخبارات کی اے بی سی کے امور نمٹا رہے ہوں، صحافیوں سے ایک ٹکہ لینے کے روا دار نہیں ہیں، صرف ایک اشتہار کے لئے ایسے صحافی دوست انسان کو ضائع کرنا اچھی روایت نہیں ہو گی۔

سابق پی آئی او راؤ تحسین صاحب کہا کرتے تھے کہ پی آئی او کا مطلب ہوتا ہے پنجابی میں ”پیو“ یعنی باپ کا کردارادا کرنے والا۔ خوش قسمتی سے اس وقت پی آئی او کے عہدے پر موجود ایک خاتون ہیں لہذا وہ ماں کا درجہ رکھتی ہیں اور بہن کا درجہ بھی رکھتی ہیں اگرچہ اپنے ساتھ بدکلامی پر انہیں بھی رنج ہے لیکن جو اہم ترین ذمہ داریاں انہیں سونپی گئی ہیں وہ انہیں کبھی ماں بن کر اور کبھی بہن بن کر پورا کرنا ہوں گی اور ناراضگی اور گلے پھینک کر تنگ دست صحافی برادری کے لئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے اور جہاں تک دوطرفہ مظاہروں کا تعلق ہے تو اس پر بھی فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اعجاز عباسی صاحب اور ان کے دوستوں نے جو مظاہرے کیے اس پر دوسری طرف سے بازاری زبان استعمال نہیں کی گئی البتہ جو مظاہرہ محترم عاصم کچھی صاحب کے لئے ہوا اس کے بارے میں اعجاز عباسی صاحب اور ان کے دوستوں نے کہا کہ یہ پی آئی ڈی کے ٹاؤٹ تھے۔

میں سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا جاوید ملک کے صحافی ہونے پر کسی کو شک ہے یا تنویر اعوان گریڈ اٹھارہ کا ملازم ہے؟ عاصم کچھی صاحب کے لئے مظاہرہ کرنیوالے بھی سب معتبر اور ہر دلعزیز صحافی تھے، ان میں صدیق انظر صاحب، سید یاسین ہاشمی، یاسر ملک، جاوید شہزاد، مظہر اقبال، حافظ اقبال، محترم ذکی ڈوگر، عامر عزیز، حفیظ اللہ عثمانی، اعظم ہوتی صاحب جیسے معزز صحافی لوگ شامل تھے۔

جناب اعجاز عباسی صاحب پی آئی ڈی بھی یہیں رہے گی اور زندگی کے باقی سانسوں تک ہم بھی ایک دوسرے کو ملتے ملاتے رہیں گے اس لئے اچھے الفاظ کا چناؤ انسان کو دل میں اتار دیتا ہے اور برے القابات انسان کو دل سے اتار دیتے ہیں۔ نفرتوں کو ہوا دینے کی بجائے آئیں مل کر محبت کے گیت گائیں۔ ہم سب تنگدستی کے بھنور کی زد میں ہیں، ہمیں ایک دوسرے کو گنوانے کی بجائے ایک دوسرے کا سہارا بن جانا چاہیے۔ صحافی قیادت اور محترمہ شاہیرہ شاہد کو اس معاملے کو دفن کرنے کے لئے فوری آگے آنا ہو گا وگرنہ بقول شاعر

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف میرا مکان تھوڑی ہے

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat