پانچویں شریف کا جنم دن


کچھ دن پہلے پانچویں شریف کا دن تھا مارک زرک برگ نے اپنے ماتحتوں کے توسط سے خاص تہنیت کا پیغام بھیجا تو مانو فیس بک نے منادی ہی کر دی۔ بس جی اب تو ہر کوئی مارک زرک برگ پہ سبقت لے جانا چاہتا تھا، جسے دیکھو پانچویں شریف کے در پہ پھول لیے کھڑا تھا۔ ان میں کچھ عقیدت مند بہت احترام کے ساتھ حاضر تھے، کچھ آس کا دامن پکڑے پرجوش تھے، مایوس افراد چپ چاپ ایک کونے میں دبک کر آنے والوں کو دیکھ رہے تھے جیسے ان پر ہنس رہے ہوں ”کہ لگے رہوو، لبھنا تانوں وی کش نئی، پر سانوں کی“ ۔

کچھ ہاتھوں میں ایمان کی شمع لیے کھڑے تھے اور کچھ ٹھرک پورا کرنے آئے تھے۔ ان سب کے بیچ کچھ نیم ٹھرکی بھی تھے جو صرف رونق دیکھنے پانچویں شریف کے میلے پہ تھوڑی دیر رکے تھے، انھوں نے نظارہ کیا اور چل دیے۔ میلے میں ہر طرف بہار بکھری لگ رہی تھی کوئی مٹھائی لایا تو کوئی کیک، پھولوں اور پھلوں سے بھرے اس میلے میں بس ایک کمی تھی وہی کمی جس کے بغیر کوئی بھی میلہ ادھورا ہوتا ہے، یعنی بھنگ کی، کوئی کم بخت بھنگ نہ لایا جس کی وجہ سے میلے کی رونق کو مزید گیارہ چاند لگتے لگتے رہ گئے۔

پانچویں شریف کا دن یادگار بنانے کا اصل سہرا مارک زرک برگ ہی کا ہے جس نے فیس بک ایجاد کی اور اس پر پانچویں شریف کا دن منایا۔ اگر وہ فیس بک ایجاد نہ کرتا تو کسے پتہ ہوتا کہ اس عالم میں کوئی پانچویں شریف بھی ہے، پانچویں شریف کی زندگی کی طرح یہ دن بھی چپ چاپ گزر جاتا اور کسی کو آنکھوں آنکھ خبر نہ ہوتی کہ آج پانچویں شریف کا سالانہ دن ہے۔ میلے میں آنے والے سب لوگ خوش دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ فیس بک استعمال کرنے والے اس کے سارے دوست احباب با خبر تھے اور اگر کوئی بے خبر تھا تو وہ پانچویں شریف کی ذات تھی، اسی مشہور عالم بے خبری کی طرح جس میں شاعر غالباً کسی گل نامی خاتون سے ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ کہہ کر بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے۔

خاص دن کی مبارک کا پہلا پیغام پانچویں شریف کو موصول ہوا تو اس نے پیغام بھیجنے والے کی دماغی حالت کی خرابی کا سوچا۔ اس کا خیال تھا یہ کوئی جٹ ہے جو کملا گیا ہے لیکن پیغامات کی طوالت سے یوں لگ رہا تھا جیسے آج سارے ہی جٹ، بٹوں اورآرائیوں سمیت کملا گئے ہیں، کہ ایک کے بعد ایک مبارکباد کا پیغام مل رہا تھا۔ پیغامات کا سلسلہ غریب کی بھوک اور امیر کی خواہشات کی طرح طول پکڑتا جا رہا تھا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ مخبری کس نے کی ہے، کہ اچانک غیب سے بتی جلی اور دماغ پر روشن ہوا کہ فیس بک اکاونٹ بناتے ہوئے تاریخ پیدائش لکھنا پڑتی ہے، تو بس اسی اندراج کے مطابق ٹھیک آج کی تاریخ میں پانچویں شریف کا اس دنیا میں ظہور ہوا تھا اور اس نے دنیا کو رونق بخشی تھی۔

لہذا اب لوگوں کی یادداشت پر مزید ماتم کا ارادہ ترک کر کے پانچویں شریف نے موصول ہونے والی مبارکبادوں کے جوابی کمنٹ دینا اور لائک کرنا اس طرح ضروری سمجھا جس طرح ہارنے والی ٹیم جیتنے والی ٹیم پر دھاندلی کا الزام لگانا فرض سمجھتی ہے۔ انباکس میں جا کر فردا فردا کسی کو ہاتھ دکھایا تو کسی کو ٹھینگا (ویو اور تھم کا سائن سینڈ کیا ) دعاؤں کا سلسلہ تھا کہ مظلوم کی آہ کی طرح عرش تلک جاتا نظر آ رہا تھا، تصویری تحفوں کی بھرمار تھی۔

اتنے زیادہ میسجز تھے کی اپنے سالانہ دن کے اختتام پذیر ہونے کے کئی دن بعد تک ان محبتوں کا شکریہ ادا کرتی رہتی تو بھی کتنے دن لگ جانے تھے سب کے میسج پڑھ کر جواب دینے میں۔ آج پانچویں شریف بہت خوش تھی کہ جو بھی تھا آج اس کا دن تھا، جو بہت اہتمام سے منایا جا رہا تھا اور اگر پانچویں شریف کا دن کوئی منا ہی رہا تھا، اسے اگر ایک دن کی عزت مل ہی رہی تھی تو کیا برا تھا۔ اس خوشی کے موقع پر پانچویں شریف ہواؤں میں اڑرہی تھی لیکن پھر اسی ہوا (سوچ) نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔

پانچویں شریف ایک دم اداس ہو گئی۔ اس کے گھر میں کسی کو یاد بھی نہ تھا کہ آج اس کا جنم دن ہے، کسی اپنے نے اس کو سالگرہ مبارک بولا تھا نہ گلے لگا کر پیار کیا۔ غیر لوگ جو اسے جانتے بھی نہیں انھوں نے تصویری سہی کیک مٹھائیاں پھول بھیجے تھے، رسمی ہی سہی لیکن دعائیں تو دیں تھیں۔ پانچویں شریف افسردہ ہوگئی، اسے اس دکھ نے گھیر لیا کہ کیا تھا اگر گھر میں بھی کسی کو یہ دن یاد ہوتا، کوئی اس کا ماتھا چومتا کوئی پھول لے کر بے شک نہ آتا، بھلے اسے کوئی تحفہ نہ ملتا لیکن جو دعا ملتی، یاد رکھے جانے کی جو خوشی ملتی وہ سب سے قیمتی سب سے انمول ہوتی، گھر والوں کے جنم دن یاد رکھنے کی خوشی ہر چیز پر بھاری ہوتی۔

لیکن پانچویں شریف جو روز سب کے ساتھ ہوتی ہے اس کو گھر میں رکھے فالتو سامان کی طرح ایک کمرے میں رکھ کر بھلا دیا گیا ہے یہ تو پھر اس کا جنم دن ہے جو سال میں ایک بار آتا ہے وہ کسے اور کیسے یاد ہوگا۔ وہ کسی کو یاد نہیں، کوئی اس سے بات نہیں کرتا، گھر میں اتنے سارے افراد کی موجودگی کے باوجود وہ اکیلی ہوتی ہے، پتا نہیں سب مصروف ہوتے ہیں یانظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ ایک بھرا پرا گھر ہے جس میں اس کے بیٹے بہوویں پوتے پوتیاں سب ہیں لیکن وہ پھر بھی اکیلی ہے۔ فیس بک کے دوستوں کی طرف سے ملی ساری خوشی دکھ میں بدل گئی اور پانچویں شریف روتے روتے سو گئی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چھٹی شریف گیارہویں شریف تو سنا تھا یہ پانچویں شریف کون سی ہستی ہے، تو چلتے چلتے پانچویں شریف کا تعارف بھی ہو جائے، پانچویں شریف ایک ادھیڑ عمر بیوہ عورت ہے جو اولاد کی ذمہ داری سے فارغ ہو چکی ہے۔ بہن بھائیوں میں نمبر کے حساب سے پانچویں نمبر پر تھی تو اسی مناسبت سے پانچویں شریف نام پڑ گیا۔ بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، پوتے پوتیوں کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ دو گھڑی اس کے پاس بیٹھ جائیں۔ بیٹوں نے ماں کی تنہائی دور کرنے کو ایک موبائل لے دیا ہے اور سمجھا ہے کہ اب ماں کوکسی فرد کسی رشتہ کی کوئی ضرورت نہیں۔

ناقدری اور تنہائی کا یہ دکھ صرف پانچویں شریف کا نہیں تقریباً بہت سارے شریف گھروں کا ہے جہاں بزرگ افراد موجود ہیں اور تنہائی کی زندگی گزرارہے ہیں۔ ہم فیس بک پر موجود سینکڑوں انجان لوگوں سے میلوں دور بیٹھے خوشیاں بانٹتے ہیں، مبارکبادیں دیتے ہیں دکھ پرافسوس کرتے ہیں، ان کے ساتھ گھنٹوں کے حساب سے باتیں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ہمارے اپنے بالکل قریب ہیں جنھیں ہماری توجہ ہماری محبت کی ضرورت ہوتی ہے ہم انھیں بھول گئے ہیں۔

انھیں تنہا چھوڑ کر غیروں کو اپنا وقت دے رہے ہوتے ہیں وہ جن سے ہم نے زندگی میں کبھی بھی ملنا نہیں ہوتا ان پر اپنی محبتیں نچھاور کر رہے ہوتے ہیں اور جو ہماری محبت کو ترس رہے ہوتے ہیں ان کو توجہ کا اک لمحہ بھی نہیں دیتے۔ ہم اپنوں کے پاس بیٹھ کر اپنوں ہی سے دور ہوتے ہیں، جس وقت ہم کسی فیس بک یا ایسی ہی کسی ایپ پر موجود انجان لوگوں کو وقت دیتے ہیں، فالو کرتے ہیں کمنٹس اور لائک کی خوشی دے رہے ہوتے ہیں ٹھیک اسی لمحے ہمارا پیارا ہماری بے توجہی کی وجہ سے اپنے آنسو اپنے اندر اتار رہا ہوتا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے رشتوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ موبائل اور اس میں موجود بہت ساری ایپس ضرور استعمال کریں لیکن خیال رہے ان ایپس کے ہاتھوں کہیں ہمارے رشتے نہ استعمال ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).