وطن اور ریاست



وطن اور ریاست کی تعریف اب لازم ہو گئی ہے، کیونکہ معاشرے میں جس طرح دشنام طرازی کی جارہی ہے، اس کا ٹھکانہ تباہی و بربادی ہے۔ وہ خطہ جو جغرافیائی حدود کے اعتبار سے وجود میں آتا ہے اسے وطن کہتے ہیں۔ ہمارے شاعر مشرق وطن کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ان کے بقول

ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اسی طرح کا بیانیہ یہودیوں کا ہے، ان کے مطابق یہودیوں کا کوئی وطن نہیں ہے، وہ اس کرہ ارض پر جہاں جا کر آباد ہو جائیں گے، وہ خطہ ان کا وطن بن جائے گا۔ صیہونیوں کا البتہ اس سے مختلف بیانیہ ہے، ان کے مطابق اسرائیل یا مقبوضہ بیت المقدس ان کا وطن ہے، اسی لئے وہ وہاں آبادکاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صہیونیوں نے اسرائیل کو وطن تسلیم کیا ہے۔

میری نظر میں جس خطہ میں آپ اپنی زندگی کا بچپن گزارتے ہیں، وہی آپ کا وطن کہلاتا ہے۔ وہ ترانہ جو آپ کو روزانہ صبح سکول شروع ہونے سے پہلے پڑھایا جاتا ہے، وہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ آپ کا تعلق کس وطن سے ہے۔

وطن کے انتخاب کا اختیار کسی بھی انسان کے پاس نہیں ہوتا ہے، کیونکہ آپ جن والدین کے گھر پیدا ہوتے ہیں جو ان کا وطن ہوتا ہے وہی آپ کو الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ لوگوں میں جب شعور پروان چڑھتا ہے، تو سماجی رویوں، عدل و انصاف، اور معاشی انصاف کی بنیاد پر وہ ریاست کا انتخاب کرتے ہیں۔

ریاست اس ادارے کی طرح ہے، جس سے وطن کی باگ ڈور سنبھالنے میں مدد ملتی ہے۔ ریاست کے چند بنیادی ستون ہوتے ہیں، جن میں عدلیہ، مقننہ، حکومت اور ذرائع ابلاغ ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ستون اپنے قد کاٹھ سے بڑھ جائے گا، تو ریاست کا ڈھانچہ ٹیڑھا ہو جائے گا۔ اس وجہ سے ریاست کی عمارت اور اتھارٹی کمزور پڑ جاتی ہے، جس کا مظاہرہ ہم نے تاریخی طور پر 1971 میں ملک دولخت ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

ریاست چار اجزا پر مشتمل ہوتی ہے وطن، آبادی، حکومت، اور اتھارٹی۔ ریاست کی مختلف اقسام ہیں، فلاحی، سوشلسٹ یا استعماری یا قومی۔ قومی ریاست عمومی طور پر ایک خاص قسم کے افراد کے لئے ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کے پاس ہر فرد کے ساتھ مالی معاملات کے حوالے سے 4 قسم کے عمرانی معاہدہ ہوتے ہیں۔ لازم کمائی یا حکومتی پینشن، ملازمتی ضمیمہ کی پینشن، ذاتی جمع پونجی، اوقات کار میں لچک۔

ہمارے آباواجداد نے خواب قومی و فلاحی ریاست کا دیکھا تھا، مگر موجودہ حالات میں ہم قومی و دفاعی ریاست ہیں۔ قومی اس لئے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے پاکستان نام کا وطن 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ دفاعی ریاست ہمیں اس لئے بنایا گیا، کیونکہ ہمارے ہمسائے ہماری پیدائش سے ہی ہم سے نالاں ہیں۔ فلاحی ریاست بننے کا خواب لے کر ہمارے آباواجداد کاندھوں پر بوجھ اٹھائے، 1947 میں نکلے تھے، وہ خواب تو نجانے کب کا چکنا چور ہو گیا ہے۔

اب تو لوگوں کی فلاح بھی ہمیں عزیز نہیں رہی۔ آباواجداد تو اس وطن کے لئے اسلامی، قومی و فلاحی ریاست کا ماڈل سوچتے تھے مگر ان کے خواب شرمندہ تعبیر نا ہو سکے۔ مالیاتی معاملات میں ہر انسان اپنی ذاتی جمع پونجی والے عمرانی معاہدے پر قائم ہے، کیونکہ ریاست کے ذرائع نہایت محدود ہیں اور اضافہ ہونے کے مواقع انتہائی معدوم ہیں۔

افراد وطن سے کبھی نالاں نہیں ہوتے اور ناں ہی کوئی فرد وطن کا دشمن ہوتا ہے اور وطن سے غداری کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ افراد ریاستوں کے اور ان کے وطن سے متعلق اقدامات کے ناقد ہوتے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ ہر ناقد کے لئے ماں بن کر اس کی رائے کو سنے اور قابل عمل اقدامات پر عملدرآمد بھی کرے، اسی میں عوام اور وطن کی بھلائی ہے۔

افراد کی موت پر ہی وطنیت کا اختتام ہوتا ہے، زندہ افراد ریاستیں بدلتے ہیں وطن نہیں، جسے ہجرت کہتے ہیں اور لوگ تارکین وطن ہی کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نئی ریاست والے وطن کے پاسپورٹ پر ہمیشہ پرانے وطن کا نام درج ہوتا ہے۔
یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسبان اس کے
یہ چمن ہمارا ہے ہم ہیں نغمہ خواں اس کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).