یوم شہادت ضیاالحق


شطرنج کی بساط پر پھیلے مہروں کو کبھی دیکھا ہے؟ چند مہرے اور ایک شاہ۔ مہروں کو استعمال کر کے شاہ کو مات دی جاتی ہے۔ یہی کچھ ہوا آج سے بتییس سال پہلے، جب صدر ضیا الحق کو طیارہ حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ حادثے کی مکمل تحقیقات آج تک سامنے نہ آ سکیں۔ لیکن جو کچھ سامنے آیا اس کے مطابق یہ کوئی فنی خرابی نہیں بلکہ سراسر سازش تھی۔ آم کی پیٹیوں میں رکھی گئی گیس کا اخراج جس سے طیارے میں موجود عملہ بے حس ہو گیا اور طیارہ ہوا میں ہچکولے کھاتا ہوا زمین پر آ گرا۔

یہ واقعہ ہے سترہ اگست 1988 کا۔ جب جنرل ضیا الحق بہاولپور میں ٹینکوں کی مشقیں دیکھ کر واپس آنے لگے، طیارے میں کل تیس لوگ سوار تھے۔ جن میں صدر کے علاوہ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل، پاکستان میں امریکی فوجی مشن کے نگران بریگیڈئیر جنرل ہربرٹ، ڈی جی آئی ایس پی آر بریگئیڈئیر صدیق سالک کے علاوہ فوج کے اعلی افسر بھی شامل تھے۔ امریکی ٹینکوں کی مشقیں دیکھنے کے بعد سہ پہر 3 : 46 منٹ پر طیارے نے بہاولپور سے اڑان بھری۔

اڑھائی منٹ بعد طیارے کا ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا، چند لمحے بعد ٹریفک کنٹرول افسر کو فلائٹ لیفٹینیٹ ساجد چودھری کی آواز ”سٹینڈ بائی“ سنائی دی۔ اس کے بعد پر پراسرار خاموشی جاری رہی۔ چند لمحوں بعد دوبارہ صدر کے ملٹری سیکرٹری بریگئیڈئیر نجیب کی آواز ”شہود! شہود“ سنائی دی۔ اور شاید یہ اس بدقسمت طیارے سے آنے والی اخری آواز تھی۔ اور 3 : 51 منٹ پر طیارہ ہچکولے کھاتا تباہ ہو کر گر رہا تھا۔ یہ واقعہ بہاولپور کے ہوائی اڈے سے 10 کلومیٹر دور دریائے ستلج کے پار بستی لال کمال میں پیش آیا۔

حادثے کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ جائے حادثہ پر پہنچے، فضائی جائزہ لیا اور راولپنڈی کی طرف اڑان بھری۔ چئیرمین سینٹ غلام اسحاق خان کو دستور کے مطابق صدر کا عہدہ سنبھالنے کو کہا، اور خود سئینر فوجی افسران کی میٹنگ بلا لی۔ صدر غلام اسحاق خان نے جنرل اسلم بیگ کو آرمی چیف کے منصب پر فائز کر دیا۔

طیارے میں موجود دیگر افسران کے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن بھی شامل تھے۔ جنہیں افغانستان میں مسلح گروہوں کو منظم کر کے سوویت یونین کا غرور توڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سوویت یونین کا ارادہ افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی کرنے کا تھا لیکن جنرل ضیاء نے اس کے ارادے بھانپ کر پہلے ہی ان کو خاک میں ملا دیا۔ مشن کی سربراہی جنرل اختر عبدالرحمن کر رہے تھے۔ افغانی بیک گروانڈ رکھنے والے جنرل جانتے تھے کہ افغانی بھوکے تو رہ سکتے ہیں لیکن غلام نہیں۔

اس لئے افغان مسلح سرداروں جن میں ملا حکمت یار گلبدین بھی شامل تھے کو ایک چھتری تلے اکٹھا کیا گیا۔ اگرچہ یہ بہت مشکل امر تھا۔ تمام گروہ آپس میں لڑ تو سکتے تھے لیکن کسی کی سربراہی قبول کرنا ان کے لئے ناممکن تھا اور جنرل اختر عبدالرحمن نے اس کو ممکن بنایا۔ بعد میں جب لڑائی کا آغاز ہوا تو شروع میں امریکہ و دیگر اتحادیوں نے اس کو سنجیدہ نہ لیا۔ مگر بعد میں امداد کی پیشکش کر دی۔ جس کو صدر ضیا نے اپنی شرائط پر منظور کر لیا۔ ایک شرط یہ بھی عائد کی گئی کہ کوئی امریکی ڈائریکٹ افغان گروہوں سے نہیں ملے گا اسے پاکستان کے ذریعے ہی امداد پنچانا یو گی۔ بعد میں ایک دفعہ امریکی سفیر چکمہ دے کر افغان گروہوں سے ملنے پشاور سے روانہ ہوئے تو انہیں بڑے سخت الفاظ سے تنبیہ کی گئی جس کے نتیجے میں انہین نوشہرہ سے ہی واپس آنا پڑا۔

جنرل ضیا الحق اپنے دور اقتدار میں متعدد قوتوں سے بر سر پیکار رہے، جن میں افغان جنگ کے علاوہ بھارتی فوجی دراندازی بھی شامل ہیں۔ بھارت نے براس ٹیک مشقوں کے نام پر پاکستانی سرحدوں کے قریب اپنی فوج جمع کر لی تھی۔ ضیاء الحق نے کمال حکمت عملی سے نہ صرف پاکستان کو بچا لیا بلکہ بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت کے بھارتی سربراہ راجیو گاندھی کے مشیر بہرا منام لکھتے ہیں ”بھارت ساری فوج سرحد پر لگا چکا تھا، بھارتی فوج صرف اپنے وزیر اعظم کے حکم کا انتظار کر رہی تھی۔ صدر ضیا الحق بھارت کے دورے پر پہنچے تو راجیو گاندھی جنرل ضیا سے ملنے پر تیار نہ تھامگر اس کو ایئر پورٹ جانا پڑا۔ ائرپورٹ پر جنرل ضیا سے ہاتھ بھی سیدھے منہ نہ ملایا اور مجھے کہا کہ ضیا کے ساتھ میچ دیکھنے کو جاؤ۔ ضیا اتنے مضبوط اعصاب کا مالک تھا کہ میں نے ضیا کی طرف دیکھا تو راجیو کے اس رویے کے باوجود ضیا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، راجیو کو خدا حافظ کہتے وقت ضیا نے کہا مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، بے شک کریں لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اس کے بعد لوگ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائیں گے اور ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھیں گے کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہو گی بلکہ یہ ایٹمی جنگ ہو گی۔ ممکنہ طور پر پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں زندہ رہیں گے کیونکہ بہت سے مسلمان ممالک ہیں لیکن ہندوستان صرف ایک ہے۔ اور میں دنیا سے ہندومت کو ختم کر دوں گا۔ اور اگر میرے پاکستان لوٹنے سے پہلے آپ نے پاکستانی بارڈر سے فوج ہٹانے کے انڈین فوج کو آرڈر نہ دیے تو پاکستان کی سرزمین پر میرے منہ سے جو سب سے پہلا لفظ نکلے گا، وہ ہو گا“ فائر ”

بہرامنام کے بقول ضیا الحق اس وقت انہیں دنیا کا سفاک ترین آدمی نظر آیا، اس کا چہرہ پتھر کا سا لگ رہا تھا، الفاظ میں دہشت تھی اور یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ شخص پورے برصغیر کو اڑا کر رکھ دے گا۔ بقول بہرامنام کہ پلک جھپکتے ہی ضیا کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اس نے وہاں کھڑے باقی لوگوں سے نہایت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ لیکن میرے اور راجیو گاندھی کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا کہ ایک پل میں وہاں کتنا انقلاب آ گیا تھا۔

اسی طرح ایک دفعہ روسی سفیر نے ایوان صدر میں ملاقات کے دوران بڑے پرتکبر انداز میں کہا کہ آپ ہمارے ایک میزائل کی مار برداشت نہیں کر سکتے، صدر ضیا نے مسکراتے ہوئے یہ باتیں سنیں اور جب روسی سفیر واپس جانے کے لئے کرسی سے اٹھے تو جنرل صاحب نے الوداع کرتے ہوئے کہا کہ ”مسٹر ایمبیسڈر یہ درست ہے کہ سوویت یونین نے آدھی دنیا پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ بھی درست ہے کہ آپ کا ایک میزائل مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے قبر میں اتار سکتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھو جب تک اس نے میری زندگی لکھی ہوئی ہے، دنیا کی کوئی طاقت مجھے نہیں مار سکتی، جاؤ اور اپنے حکمرانوں کو بتا دو میں یہاں بیٹھا تمہارے میزائلوں کا انتظار کر رہا ہوں“ اور پھر دنیا نے وہ وقت بھی دیکھے جب خود سوویت یونین پاکستانی سپاہ کی بدولت ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا

صدر ضیا الحق کے بہت سے کارنامے ایسے تھے جن کا پاکستان کی تاریخ پر گہرا اثر پڑا۔ بطور صدر انہوں نے ملک میں اسلامائزیشن کے لئے کام کیا۔ وہ صحیح معنوں میں ملک میں اسلامی روح کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی جنگ افغانستان میں لڑی۔ آج نسل نو کے ذہہنوں میں افغان جنگ کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات کے بیج بوئے جاتے ہیں اور جہاد کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے لیکن اس وقت جنرل ضیا کے کیے گئے اقدامات نے پاکستان کو ایک جنگ سے بچا لیا۔

صدر ضیا کے کریڈٹ پر اور بھی بہت سے کام ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم ذولالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ اور نوے دن کا کہہ کر اقتدار میں آئے اور گیارہ سال تک اس سے چمٹے رہے۔ اور یہ دو جرائم ایسے ہیں جو کہ ہر صورت ان کے کریڈٹ پر شامل ہیں۔ بہرحال کچھ بھی ہو، ان کی پالیسیوں اور کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).