ہمایوں کبیر امریکہ گئے


جب ہمارے موصوف کو امریکہ نے ’بائی سینٹینئل آف دی بل آف رائٹس‘ (Bicentennial of the Bill of Rights) کے تحت پاکستان سے چنا تو کئی دن تک کلف لگی اکڑی گردن لیے خوش خوش اپنے گمان کے آنگن، خاندان اور کیمپس میں گھومتے رہے۔ ۔ ۔ آنکھوں میں شدید حیرت بھی تھی اور خوشی کے ہلکورے بھی۔ ۔ ۔ جلنے کڑھنے والے اس جلتی، ابلتی روشنی سے نظریں چراتے رہے، مبادا کہیں مبارک باد نہ دینی پڑجائے۔ ۔ ۔ اس پروگرام کے تحت موصوف نے زندگی میں پہلی ہی بار امریکہ کی پندرہ اسٹیٹس کی یاترا کی اور جن گوریوں کو محض تصویروں (فلموں ) میں دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی، گرم آہیں بھرتے تھے، ان کے بچشم خود دیدار کیے (اسی لیے جب موصوف وطن واپس آئے تو ان کی روشن، چمکدار آنکھوں میں حسرت ویاس کی گہری دھند چھائی ہوئی تھی) ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ہم بھی ان کے اندر چھپی بے پناہ قابلیت اور اونچے مقام کے پہلی بار معترف ہوئے، ورنہ اب تک صرف شوہر سمجھ کر ان سے شوہروں والا سلوک کرتے آئے تھے۔ بخدا ان کی پروفیسریت سے ہم کبھی رعب میں نہیں آئے تھے۔

اپنی ہتھیلی پہ جیسے دونوں جہان اٹھائے، موصوف امریکہ چلے گئے۔ ۔ ۔ مگر وہاں جاتے ہی جیسے پھولے ہوئے غبارے پر کوئی من چلا پن چبھوکر ہوا نکال دے، اسی طرح موصوف کے خوش گمانی کے غبارے سے پہلی ہی رات ہوا نکل گئی، یعنی فشوں۔ ۔ ۔ اوں۔ ۔ ۔ اوں اور پھر یوں۔ ۔ !

امریکہ پہنچتے ہی سب سے پہلا دھچکہ اس وقت لگا، جب نیویارک کے ائرپورٹ پر ان کی کینکٹنگ فلائیٹ (Connecting flight) مس (Miss) ہوگئی۔ موصوف کے سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہاں ائرپورٹ کے ایک ٹرمنل سے دوسرے ٹرمنل تک کا فاصلہ ٹرین سے طے ہوتا ہے۔ ۔ ۔ وہ گھن چکر بنے ادھر سے ادھر گھومتے رہے۔ آخر ایک گوری نے ’سفید لاٹھی‘ بن کر انہیں اس جگہ پہنچا ہی دیا، جہاں سے انہیں دوسری فلائٹ پکڑنی تھی۔ ۔ ۔ کبیدہ خاطر سے، سہمے ہوئے موصوف اس گوری کا ہاتھ چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھے۔

۔ ۔ پھر بھی۔ ۔ ۔ بڑے رسان سے موصوف کے پنجے سے اپنا منا سا کومل ہاتھ نکال کر اس گوری نے بڑی شفقت سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پھر پیار سے گال تپھتھپائے۔ ۔ ۔ اس وقت خطا، اوسان کی بحالی کی لہروں پر اونچ نیچ کھیلتے ہوئے موصوف نے احساس تشکر سے مغلوب و مشکور، ڈبڈبائی آنکھیں اٹھائیں اور جھپکائیں تو انہیں پتا چلا کہ جس گوری کا ہاتھ بڑے خشوع و خضوع سے پکڑے وہ ائرپورٹ پر چک پھیری بنے ناچ رہے تھے، وہ 25 کی بجائے 52 سال کی دوشیزہ نکلی۔ ۔ ۔ موصوف حلق تک کڑوے ہوگئے۔ بہرحال، جیسے تیسے موصوف نے کینکٹنگ فلائیٹ (Connecting flight) پکڑی اور منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔

پہلی ہی اسٹیٹ میں رات کو تھکے ہارے موصوف جب ریسٹ روم (Rest Room) میں گئے تو چکرا کر رہ گئے۔ ۔ ۔ چوکور نلکے کا سر (موصوف، نلکے کے اوپر کے لٹو کو ’سر‘ بولتے ہیں، جیسے کہ ٹرالی کے پہیے کو پیر کہتے ہیں)۔ ہاں تو نلکے کا سر غائب تھا۔ ۔ ۔ دیوار میں سے لوہے کا ایک چپٹا ٹکڑا جھانک رہا تھا۔ موصوف نے دائیں بائیں دیکھا، اس نلکے کو چھوا۔ ۔ ۔ پھر اکڑوں بیٹھ کر بیسن کے نیچے جھانکا کہ کہیں کوئی خفیہ ’سر‘ بیسن کے نیچے تو نہیں لگا ہوا ہے!

اوپر نظر دوڑائی کہ بھئی امریکی ہیں، اپنے ہاں کی ’فورس‘ ہمیشہ باہر لگاتے ہیں۔ ۔ ۔ ویسے بھی جیسے لنکا میں جو بھی سو باون گز کا۔ ایسے ہی امریکی زیادہ تر چھ چھ فٹے ہوتے ہیں۔ کچھ تو سات فٹ کی اونچائی پر بھی نظر آتے ہیں۔ کہیں نلکے کا سر اوپر تو نہیں لگا دیا۔ ۔ ۔ باتھنگ ٹب میں بھی نلکا حاضر، سر غائب۔ بہت دماغ لڑایا، مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ۔ ۔ کمبخت، سر کی تلاش میں ہلکان ہو کر سر کھجاتے۔ ۔ ۔ ریسٹ روم سے باہر آئے۔

اس تگ ودو میں پیاس سے حلق میں کانٹے سے اگ آئے۔ ایک مجبور، بے بس، صوم وصلوٰۃ کا طہارت زدہ پاکستانی، دیار غیر میں لوٹے، نلکے کے سر اور پانی کے بغیر۔ ۔ ۔ خود ہی سوچیے، کیا قیامت گزر رہی ہوگی، ہمارے معصوم سے موصوف پر، یعنی کریلا وہ بھی سوبار نیم چڑھا۔ اپنے ٹوٹے پھوٹے دیسی باتھ روم کی یاد آئی، جس کا نلکا ٹپ ٹپ ٹپکتا کانوں میں زہر گھولتا تھا۔ ایک ہوک سی دل میں اٹھی۔ ۔ ۔ کہ اچانک ان کی نظر ایک کونے میں دبکے، منے سے فریج پر پڑی تو دھند زدہ آنکھوں میں جیسے کہکشاں اتر آئی، لپک کر فریج کھولا تو بوکھلاکر فوراً بند کرکے لاحول پڑھی اور جلدی جلدی گال پیٹے۔

اندر قطار سے شراب کی مختلف النسل بوتلیں سجی تھیں، جیسے اسٹیج پر ایک لائن سے نازک اندام، ہوش ربا، خوبرو، دلربا رقاصائیں اپنی منی منی فراکوں کے کونے اٹھائے۔ ۔ ۔ پکڑے، کھڑی ہوں۔ ۔ ۔ فریج میں ’شر‘ تو تھا۔ ۔ ۔ مگر ’آب‘ نہیں تھا، موصوف کا منہ گھٹنوں تک لٹک گیا۔ روم سروس والے کو انٹرکوم پر بتایا کہ باتھ روم میں پانی نہیں آرہا، تو اس نے جیسے چیونگم میں اپنی بتیسی جماکر کچھ اڑوں شٹروں، گڑوں کی، بس ان کی سمجھ میں بڑی مشکلوں سے پلمبر۔۔۔ اور سکس او کلاک (یعنی چھ بجے) آیا۔۔۔ بجھے ہوئے دل کے ساتھ موصوف نے پلمبر کے آنے کے ٹائم کو پاکستانی حساب سے ضرب دیا اور مایوس ہوگئے کہ پلمبر شاید اگلی رات کو ہی آئے گا۔ دوبارہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کی پسی ہوئی بتیسی کے نیچے کہیں وہ خود نہ آ جائیں اور وہ انہیں کچا چبا جائے۔ پیٹ پکڑکر موصوف بستر پر اوندھے ہو گئے۔ پوری رات پیٹ میں اٹھنے والے جوار بھاٹا اور حلق میں اگنے والے کانٹوں سے جنگ لڑتے رہے۔ ۔ ۔ بیچ بیچ میں نیند کے ٹھنڈے، میٹھے جھونکے بھی آئے، مگر پانی کی قل قل کرتی مدھر آواز سے چونک چونک جاتے، پھر اپنے خواب اور سراب پر شرمندہ ہوکر دوبارہ جنگ میں مصروف ہوجاتے۔ ۔ ۔

پھر ٹھیک صبح چھ بجے دروازے پر جلترنگ سی دستک ہوئی۔ لپک کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک اسمارٹ سا خوبرو اسپینش (Spanish) کٹ (Kit) لیے کھڑا تھا۔ موصوف کے چہرے پر اگے مایوسی کے ذیرے بھی کھل اٹھے۔ ۔ ۔ ہشاش بشاش سے ہوکر موصوف نے فوراً پیٹ پر سے ہاتھ اٹھایا اور فصیح و بلیغ انگلش میں اپنے مسئلے کی نشاندہی کی۔ ۔ ۔ وہ اسپینش انگلش سے نابلد تھا۔ ۔ ۔ ٹوٹی پھوٹی انگلش میں اس نے ٹیپ واٹر (Tap۔ water) کہا اور باقی اشاروں کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی۔

ہمارے موصوف فوراً اس کی ناخواندگی کی تہہ میں پہنچ گئے، اس کا بے تکلفی سے ہاتھ پکڑا اور باتھ روم میں لے گئے۔ اشاروں کی زبان میں سمجھایا کہ نلکے کا ’سر‘ نہیں ہے۔ ۔ ۔ پانی نہیں آرہا۔ ۔ ۔ اسپینش نے سرد نظروں سے موصوف کو دیکھا، پھر اس نے بھی موصوف کی ناخواندگی کے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ اس نے موصوف کو خالی ہاتھ اور حقارت سے ایک دم پرے کیا اور اس لوہے کے چپٹے ٹکڑے کو سیدھی طرف کھسکایا تو نلکے سے بھل بھل پانی گرنے لگا۔

۔ ۔ پھر اسی ٹکڑے کو واپس کھسکایا تو پانی بند ہوگیا۔ ۔ ۔ موصوف پھٹی پھٹی نظروں سے یہ کرتب دیکھنے لگے۔ ۔ ۔ اب انہیں پتا چلا کہ دیوار سے جھانکتا یہ حقیر سا ٹکڑا ہی دراصل نلکے کا اصلی سر تھا۔ ۔ ۔ موصوف نے کچھ کہنے کو منہ کھولا تو اس اسپینش نے پھر انہیں حقارت آمیز مسکراہٹ سے دیکھا تو موصوف نے بوکھلا کر نظریں جھکا لیں۔ ۔ ۔ عرق ندامت کے موتی ماتھے پر چمکنے لگے۔ ۔ ۔ وہ خبیث اسپینش دانت نکوسے رخصت ہوا تو موصوف نے بھنا کر دل ہی دل میں اسے خوب کوسا اور زور سے چپٹے سر پر ہاتھ مار کر پانی میں منہ دے دیا۔ ۔ ۔

یہ دو سبق اپنی گرہ سے باندھ کر کہ۔ ۔ ۔ امریکی نلکے کا سر چپٹا ہوتا ہے اور اوپر دیوار میں جڑا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور ایک جہاز سے دوسرے جہاز تک کا فاصلہ ٹرین سے طے ہوتا ہے۔ رٹا لگاتے ہوئے موصوف بڑے اعتماد سے دوسری اسٹیٹ میں پہنچے۔ ۔ ۔ مگر یہاں پھر ’ریسٹ روم‘ (Rest Room) میں داخل ہوتے ہی ان کی کھوپڑی تھری سکسٹی ( 360 ) کے زاویے پر گھوم گئی۔ ۔ ۔ یہاں تو نلکے کے آگے، نہ پیچھے۔ ۔ ۔ اوپر، نہ نیچے۔ ۔ ۔ دائیں، نہ بائیں۔ ۔ ۔ کوئی بھی چپٹا ٹکڑا نہیں تھا، جس سے موصوف ٹونٹی کے ’سر‘ کا کام لے سکتے۔ ۔ ۔ بے چارے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہوگئے تو یونہی نلکے کے اوپر نیچے ہاتھ لہراتے ہوئے ایک دم جو ہاتھ، نلکے کے نیچے آیا تو بھل بھل پانی گرنے لگا۔ ۔ ۔ اس خبیث نلکے میں سینسر (Sensor) لگا ہوا تھا۔ ۔ ۔

اور پھر ہمارے۔ ۔ ۔ بے چارے موصوف؟ ۔ ۔ اس کی بعد والی اسٹیٹ میں بھی وہی مخمصہ منہ پھاڑے موصوف کا انتظار کر رہا تھا۔ ۔ ۔ یعنی ٹونٹی کے اوپر، نیچے۔ ۔ ۔ دائیں، بائیں کوئی چیز نہیں۔ ۔ ۔ موصوف تمسخر سے مسکرائے اور فوراً سمجھ گئے کہ پھر چالباز امریکیوں نے چکمہ دے دیا ہے، یہاں بھی سینسر لگا ہوا ہے اور ٹونٹی کے نیچے ہاتھ لہرایا۔ ۔ ۔ مگر پانی نہیں آیا۔ موصوف نے بڑا دماغ لڑایا کہ یہ کمبخت امریکی، کیا نفسیاتی مریض ہیں۔

۔ ۔ Sadist کہیں کے! جو ہر دفعہ کھوپڑی گھماکر رکھ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ آخر پانی کو سیدھے سیدھے، ٹونٹی کے ذریعے کیوں نہیں آنے دیتے۔ یہاں بھی پلمبر بلایا گیا۔ ۔ ۔ خوش قسمتی سے یہاں کے پلمبر کو انگلش آتی تھی۔ ۔ ۔ بلکہ موصوف تو اس وقت بری طرح اچھل پڑے، جب وہ صاف ستھری، کسی حد تک بڑی شستہ اردو میں بولا، ”سر! اس نلکے میں اس سے پانی آتا ہے“ ۔ ۔ ۔ اور اس نے بیسن کے نیچے زمین پر ایک ہلکے سے نادیدہ ابھار کو پیر سے دبایا، جو موصوف جیسے ضعیف نظروں کے مالک، یعنی ’ڈبل کا چشمہ‘ (بائی فوکل) لگانے والے کو ہرگز نظر نہیں آ سکتا تھا۔

۔ ۔ یعنی جیسے پرانے زمانے میں پاؤں والی سلائی مشین ہوتی تھی، اسی طرح یہ نلکا، پاؤں سے چلتا تھا۔ ۔ ۔ منا سا ابھار، نیچے زمین پر یوں اگا ہوا تھا کہ ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ موصوف نے بلبلا کر امریکیوں کے اس خبط پر سو سو لعنتیں بھیجیں اور ساتھ ہی ہول کر رہ گئے کہ ابھی بارہ اسٹیٹس باقی ہیں اور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ وہاں ایسے خبیث النسل منحوس امریکی نلکے نہ ہوں۔ ۔ ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے پاکستان میں دیسی نلکوں سے پانی کی جگہ ہوا آتی ہے، مگر وہ خود تو صراط مستقیم پر ہوتے ہیں۔

مگر کیا کیجیے، بے چارے موصوف کی دعائیں آسمان پر جانے سے پہلے ہی اپنا اثر کھو بیٹھیں۔ اس سے اگلی اسٹیٹ میں نلکے کا سر تو سر، کمبخت نلکا بھی غائب تھا۔ موصوف کی آنکھوں میں سچ مچ کے آنسو آگئے۔ ۔ ۔ اب کیا کریں۔ بری طرح کھول گئے۔ پانی کی جگہ شراب تو پی لیں، مگر ہاتھ منہ کس سے دھوئیں اور باقی ضروریات۔ ۔ ۔ ؟

پتا نہیں کیسے تو حسرت ویاس کے جھولے پر جھولتے ہوئے موصوف آگے کو ہوئے، شیشے سے سر ٹکرایا تو بیسن میں سامنے کو بنے ایک خفیف سے سوراخ سے پانی اچھل اچھل کر ناچنے لگا۔ معصوم موصوف سمجھے کہ یہ پانی، شیشے پر سرمارنے سے آیا ہے۔ بپھرے ہوئے بیل کی طرح شیشے پر سرمارنے کو آگے ہوئے تو ٹکرانے سے پہلے ہی اس سوراخ سے پھر پانی اچھلنے لگا۔ موصوف سمجھ گئے کہ یہاں بھی سینسر لگا ہوا ہے۔ کمبخت امریکیوں کو ہر دفعہ ایک نئی اذیت سوجھتی ہے، اسی لیے پنگے لینے کو پوری دنیا میں گھسے ہوئے ہیں۔ مگر ہر جگہ ایک نئے انداز کا پنگا ہوتا ہے۔ ۔ ۔

یہ تو تھی خبیث النسل امریکی نلکوں کی روداد۔ ۔ ۔ امریکہ میں ہمارے موصوف نے ڈالرز بچانے کی کیا کیا ترکیبیں لڑائیں اور دھوکے میں آکر فائیو اسٹار ہوٹل میں جب سلاد کی ایک پلیٹ کھانے کے بعد چار سو کا بل ہاتھ میں آیا تو کیسے ان کے چودہ طبق روشن ہوئے۔ ۔ ۔ یہ ایک الگ دکھ بھری۔ ۔ ۔ بلکہ بھیدوں بھری کہانی ہے۔ ۔ ۔ وہ پھر کبھی بتائیں گے۔ ۔ ۔ خیال رہے، ان آخری سطروں میں بھی سینسر لگا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اب کیا ہم اپنے بھولے بھالے، شریف موصوف کی عزت چوبارے میں اچھال دیں؟ حد کرتے ہیں آپ بھی۔ ۔ ۔ ہیں؟ نلکوں کی روداد سے دل نہیں بھرا! جو ہم آپ کو نائٹ کلب اور ”Paid Channel“ کی طرف لے جائیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).