مشرف عالم ذوقی کا ناول: مرگ انبوہ


مرگ انبوہ کیا ہے؟
’‘ ملک کاغذ پر بنا کمرہ نہیں ہوتا
اگر تمہارے گھر ایک کمرے میں آگ لگی ہو
تو کیا تم دوسرے کمرے میں سو سکتے ہو؟
اگر تمہارے گھر کے ایک کمرے میں
لاشیں سڑ رہی ہوں
تو کیا تم دوسرے کمرے میں عبادت کر سکتے ہو؟ ”

مرگ انبوہ کا شمار دنیا کے ان چند سیاسی ناولوں میں ہوتا ہے جنہیں پڑھ کر قاری پر ایک خوف طاری ہو جاتا ہے۔ یہاں بلیو وہیلؔ نام کی گیم ہے جو موت کی گیم ہے۔ اس کے کھلاڑیوں کو پچاس درجوں تک کھیلنا ہوتا ہے اور پھر کھلاڑی موت کو قبول کر لیتا ہے۔ یہ گیم کچھ ملکوں میں 2013 ء سے موجود ہے جن میں انڈیا بھی شامل ہے۔ نوجوان نسل کے ایک نمائندہ کردار ریمنڈ ؔکا موت سے مکالمہ ہے اور پھر وہ موت کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

’‘ اس کھیل میں موت ہے
موت سے زیادہ خوب صورت کوئی فنتاسی نہیں۔ ۔ ۔ ”

دوسرا کردار پاشا مرزا کا ہے جو باپ سے نفرت کرتا ہے اور ایک ڈائری ہے جو باپ مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کے لئے لکھ چھوڑتا ہے اور اس کی وصیت کے مطابق دو برس بعد جب وہ بیس سال کا ہو جاتا ہے اس کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ پاشا مرزا کا والد جہانگیر مرزا ایک بہت زیادہ پڑھنے اور بہت زیادہ سوچنے والا کردار ہے جس کی یہ ڈائری ہے۔

یہاں ’‘ بی مشن ”ہے جو ایک خفیہ تنظیم ہے۔ جہانگیر مرزا جو ایک لبرل شخص ہے حالات کے جبر کے تحت اس تنظیم کے لئے کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر کیمونسٹ پارٹی کے لئے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مشن کے لوگ ایک ایک کر کے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ اندھے قتل ہیں اورمشن کے یہ سب کردار مسلمان ہیں جو قتل ہوئے ہیں۔

ایک کردار سبحان علی ہے جو جہانگیر مرزا کا دوست ہے۔ سبحان علی کے گھر پر سرخ چونٹیوں نے حملہ کر دیا ہے۔ سبحان علی نے گھرکی دیواروں کو زعفرانی رنگ سے رنگ لیا ہے کہ یہ چونٹیاں زعفرانی رنگ سے خوف زدہ ہوتی ہیں۔

یہاں مکان ہیں جو راتوں رات غائب ہو رہے ہیں اور یہ گھر مسلمانوں کے ہیں۔ پورے ملک کی الگ الگ ریاستوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد گم ہو رہی ہے۔ لوگ سرخ چونٹیوں کا نوالا بن رہے ہیں۔

سبحان علی کی بیوی سعدیہ اور بیٹی سمیرا جوش اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت یوم جمہوریہ پر ترنگا لہرانے کے لئے ایک چھوٹی سی تقریب کا بندوبست کرتے ہیں۔ ترنگا لہرانے کی رسم ابھی شروع ہوتی ہے کہ ان پر دہشت گردوں کا حملہ ہو جاتا ہے۔ سبحان علی سمیت چار لوگوں سمیت مار دیا جاتا جبکہ اس کی بیٹی سمیرا اغوا کر لی جاتی ہے پھر اس کا گینگ ریپ ہوتا ہے اور اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ بعدازاں سعدیہ کو بھی جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور اس طرح مسلمانوں کو یوم جمہوریہ سے بھی کاٹ دیا جاتا ہے۔

یہاں کیمونسٹ ہیں جو بی مشن کا حصہ بن گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بی مشن کیا چاہتا ہے؟ کیا بی مشن یہ چاہتا ہے کہ پانی اس قدر سر سے بلند ہو جائے کہ مسلمان اپنے لئے ایک نئے آزاد ملک کی مانگ کرنے لگ جائیں جب کہ یہ سوال یہ بھی موجود ہے کہ کیا ہندوستانی مسلمان اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ یہ مانگ کر سکیں جب کہ وہ تو اس حد تک کمزور ہو چکے ہیں کہ ایک بیٹی کے لئے بھی انصاف نہیں مانگ سکتے۔

یہاں زرد طوفان ہے۔ یہاں پاؤں چھوٹے بڑے ہو رہے ہیں۔ یہاں ایک جادوگر ہے جو لوگوں کو شکل دکھاتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے کرتب دکھا کر لوگوں کو خوف زدہ کر رہا ہے۔ جادوگر کے قتل کا خواب دیکھنے والوں پر مقدمے بن رہے ہیں جو نیند میں جادوگر کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔

جیسے آنکھوں کے آگے دور تک پھیلی ہوئی نہ ختم ہونے والی دھند ہوتی ہے۔ یہ دھند ہمیں گلئیشئر پر تیرتے خواب سے برآمد کرتی ہے۔ یا یہ گلیشئر پہ تیرتے خواب اور دھند ہیں جو ہمیں دریافت کرتے ہیں۔

یہاں فریج میں پڑا مٹن بیف بن جاتا ہے۔ یہاں خفیہ والے موجود ہیں جن کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے۔ کوئی ان دیکھا ہاتھ ہے جو بہت تیزی سے مسلمانوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کی نظر ان کے لباس پر ہے، ان کے کھانے پینے پر ہے، ان کی زندگی کے طور طریقوں پر ہے، ان کے بچوں پر ہے۔ مگر سیاہ بادلوں کی اوٹ میں بھی اس کا چہرہ ہر شخص دیکھ رہا ہے۔ سب کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ یہی وہ ہے جو جادوگر چاہتا ہے۔ نظام یہی چاہتا ہے کہ تمام لوگ مخالف سوچ سے آزاد ہو جائیں اور آسان زندگی گزاریں۔

ایسا سوچنے والوں کی تعداد ملک میں بڑھ رہی ہے مگر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ احکام، ہدایات، خفیہ ایجنسیوں کے سائے اور گھروں میں آویزاں سی سی ٹی وی فوٹیج کے دائرے کی موجودگی میں زیادہ غور و فکر کرنا عام شہری کے حقوق میں شامل نہیں ہے اور جیسا کہ خفیہ محکمہ کے افیسر نے بتایا تھا کہ لوگوں کی آواز اور گھر میں ہونے والے واقعات بھی حکومت کے ریکارڈ میں شامل ہیں تو اس بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس پر نظر نہ رکھی جا رہی ہو اور جہاں معمولی معمولی باتوں کو بھی آن لائن حکومت کے ریکارڈ میں شامل کیا جا رہا ہو۔ وہاں زندگی گزارنے کا سب سے آسان حل یہی ہے کہ جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل کرتے جائیے۔ تاریخ کی قبر گاہ میں ایسے ہزاروں واقعات آپ کو آسانی سے مل جائیں گے۔ جہاں حاکم کے قائم کردہ دستور اور ہدایات پہ عمل کرنا آسان زندگی کا پیش خیمہ رہا ہے اور یہی اب چاہا جا رہا ہے۔

یہاں موت کی دستاویز ہے۔ مارکیٹ میں پیسہ نہیں، گھروں میں زندگی نہیں، دکانوں میں راشن نہیں، مرنا ہے تو ایک بار مر جاؤ فارم پہ دست خط کرو اور بتاؤ کہ کب مرنا ہے۔ یہ نیا حکم نامہ ہے۔ گھر سے باہر نکلیں تو زعفرانی پوسٹر ہیں۔ دیواریں زعفرانی رنگوں سے رنگی ہوئی ہیں۔ سڑکوں پر گایوں کا گربا اور ناگا سادھوؤں کا تانڈو ہے۔ یہاں مسلمانوں کے نام و نشان مٹا دیے گئے ہیں۔

یہاں نیند میں چلنے والے لوگ ہیں جن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہی ناول کا اہم حصہ ہے کہ اب خواب دیکھنے پر بھی پابندی ہے اور خواب میں دیکھے گئے یا کیے گئے اعمال کی بھی بعض پرس ہے کچھ لوگ جاگتے ہوئے بھی نیند میں ہوتے ہیں۔ جب نیند میں ہوتے ہیں تو ہم زیادہ جاگتے ہیں۔ ہم خوف ناک خوابوں اور حقیقت کے درمیان ایک ایسے راستے کے مسافر بن گئے ہیں جس کے بعد ایک آہنی دروازہ آتا ہے اور زندگی مقفل لگتی ہے۔ جیسے کوئی ہے جو خاموشی سے ہمارے جسم کا سائز لے رہا ہے ان آہنی دروازوں کے پیچھے اچھالنے کے لئے۔

یہاں ایک سرخ کتاب ہے جس کے ہر صفحے ہر موت لکھی ہے۔ جس کا خالق جادوگر ہے ’‘ میں نے تمہاری زندگی پر موت کو آسان بنا دیا ہے اور جو میرے مخالف ہیں، میں ان کے لئے بھی موت کے راستے کو آسان کر دوں گا اور تم جاؤ گے اس انوکھی دنیا کی سمت اپنے رب سے ملنے، جس کی تسبیح تم کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ”

یہ سرخ کتاب در اصل ائین اور دستور کی نئی کتاب ہے، ہمیں اس کتاب میں سے خارج کیا جا چکا ہے، موت مکتی ہے، موت نجات ہے۔

ڈاکٹرکا خیال ہے کہ یہ Hallucination ہے کہ ایک کردار جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ غیر حقیقی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا کہنا ہے کہ کچھ مریض بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں، بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ مریض کو بہت کچھ ہوتا ہوا نظر آتا ہے یہ مستقبل کا نقشہ ہے۔

یہ مارگریٹ ایٹ ووڈؔ کی پیددا کردہ ریاست جلعادؔ (Gilead) نہیں ہے کہ جو ا بھی صرف تخیل میں ہے جس نے ابھی وجود پذیر ہونا ہے یہ ریاست جس کا نقشہ ’‘ مرگ انبوہ ”میں کھینچا گیا ہے موجود ہے۔ اس ریاست کا چہر ہ مکروہ اور خوف ناک ہے یہ Hallucination نہیں ہے۔ سرشاری میں مبتلا، محبت سے مرعوب یا عقیدت سے مغلوب شخص صحیح رائے دینے سے عاری ہوتاہے اسی طرح ایک متعصب شخص جو نفرت میں مبتلا ہو اس کی رائے بھی قابل اعتبار نہیں ہوتی لیکن ’‘ مرگ انبوہ“ ایک متعصب شخص کی تحریر نہیں ہے اگرچہ یہ ایک سیاسی ناول ہے ذوقی کے نزدیک نفرت کا علاج نفرت نہیں محبت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ لوگوں کی اس حد تک برین واشنگ کر دی جاتی ہے کہ وہ توازن کو ہی بھول جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک تشدد ہی واحد حقیقیت ہوتی ہے جو قابل عمل ہوتی ہے۔ ان کا صرف ایک ہی عقیدہ ہوتاہے کہ اگر ان کے ایک بیانئے کو شکست ہو جاتی ہے تو دوسرا بیانیہ کیسے گھڑنا ہے۔ جب ہٹلر نے اپنے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی تو اس کے پیروکاروں نے برلن، ہیمبرگ اور میونخ میں نئی علامات ڈھونڈھ لیں اور اپنی زندگیوں کے نئے معنی تلاش کر لئے۔

یہ زاعفرانی انڈیا کے وہ خدوخال ہیں جہاں سرخ چونٹیاں ہیں، جادوگرہے، بی مشن ہے، انکاونٹر ہیں، خفیہ محکمے کے لوگ ہیں، جھوٹے مقدمے ہیں چاروں طرف منڈلاتی ہوئی موت ہے اور ریت میں دبی خاموشی ہے اور ’‘ موت کی دستاویز ”ہے۔ جرمنی میں جب مرگ انبوہ یا ہالوکاسٹ ہوا تو لوگوں کو دھوکے سے یا زبردستی اس قتل عام میں شامل کیا گیا لیکن یہاں لوگوں کو خاص طور پر مسلمانوں کو بیماری اور خوشحالی کے نام پر موت کو قبول کرنے کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہی موت کے پروانے پر خود دست خط کر دیں، یہی مرگ انبوہ ہے۔

’‘ مرگ انبوہ ”کو پاکستان میں ’‘ سنگ میل پبلیکیشنز لاہور“ نے شائع کیا ہے۔ یہ ناول انڈیا سے بھی شائع ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).