نوشابہ کی ڈائری: انھیں بس چوبیس گھنٹے کا ٹائم ملا ہے بدلہ لینے کے لیے…



25 دسمبر 1988

لگ بھگ تین مہینے ہوگئے لیکن اب تک وہ خوف ناک منظر بھول نہیں پائی۔ بہت کوشش کی لیکن تصویر بنے دماغ سے چپکے ہوئے ہیں۔ اس دن کا خیال آتے ہی جسم میں ایسی ٹھنڈی لہر دوڑ جاتی ہے جیسے ان جانے میں پگھلی برف میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ خوابوں میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی ہے، بندوقیں اٹھائے سائے مجھ پر جھپٹتے ہیں اور میں چیخ کر اٹھ جاتی ہوں۔ حیدرآباد سے آئے اتنے دن ہوگئے لیکن لگتا ہے اب بھی انھیں پتلی پتلی پتلی گلیوں میں برستی گولیوں سے بچتی بھاگ رہی ہوں۔

رضا کا ہاتھ پکڑے۔ پھر یکایک وہ ننھا سا ہاتھ بھاری بوجھ بن کر گھسٹنے لگتا ہے، اور اس کا خون میں تربتر جسم اور خوف زدہ ساکت آنکھیں ٍ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اف میرے خدا۔ لگتا ہے زندگی تیس ستمبر کی اس سہ پہر پر آکر رک گئی ہے۔ غنی بھائی کا معصوم سا بھتیجا رضا کتنے مان سے مجھے آپی کہتا تھا۔ لڑکیوں سے محروم گھرانے کے اس بچے نے مجھ میں بہن ڈھونڈ لی تھی۔ کتنی اپنائیت کے ساتھ مجھ سے فرمائش کرتا تھا، ”نوشابہ آپی! اب آئیں تو کراچی کا حلوہ سوہن لے کر آئیے گا۔“

”چاچی! نوشابہ آپی کو رانی باغ تو دکھائیں“ اس نے ضد پکڑی تو غنی بھائی ”چلو بھئی“ کہتے ہوئے لاڈلے بھتیجے کی فرمائش پوری کرنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ کاش اس دن اس کی نہ مانی ہوتی۔ میں رضا کا ہاتھ پکڑے آگے آگے چل رہی تھی، باجی اور غنی بھائی چند قدم پیچھے۔ رضا سہ پہر کی دھوپ میں آگے چلنے والوں کے سائے پر پاؤں رکھتا اور مجھے دیکھ کر مسکرادیتا۔ یکایک بہت سی موٹرسائیکلوں کے غرانے اور کاروں کے ٹائر چرچرانے کی آواز نے دل دہلادیا، پھر ہر طرف گولیاں سنسنانے لگیں۔

گولیاں برساتے موٹرسائیکل اور گاڑی سواروں کے چہرے نقابوں میں چھپے تھے۔ وہ کسی عجلت اور گھبراہٹ کے بغیر چاروں طرف لوگوں کو نشانہ بناکر گولیاں چلارہے تھے۔ جانے غنی بھائی اور باجی کس طرف دوڑے تھے، میں رضا کی کلائی اپنی گرفت میں جکڑے بھاگتی رہی، چیخ کر گرتے اور گر کر کراہتے لوگوں کے درمیان چند گز کے فاصلے پر بنی مسجد کی طرف دوڑتے قدموں کا رخ ہوا ہی تھا کہ رضا کا بے جان جسم میرے ہاتھ میں جھولتا زمین پر جاگرا۔ جانے کتنی دیر مسجد کے دروازے کی اوٹ لیے اس کی لاش سینے سے لگاکر روتی رہی لرزتی رہی۔ آخر گولیاں تھم گئیں صرف آہ و بکا رہ گئی یا اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے پیروں کی دھمک۔ مجھے بھی ڈھونڈ لیا گیا مگر میں تو وہیں کھو گئی ہوں۔

غنی بھائی کے پاؤں میں گولیاں لگی تھیں، ان کا علاج اب تک چل رہا ہے جس قیامت نے اس شام جن دو سو سے زاید لوگوں کا شکار کیا ان میں رضا اور غنی بھائی کے چچا سمیت ان کے خاندان کے آٹھ لوگ شامل تھے۔ غنی بھائی کتنے ہی دن ”بدلہ لوں گا، ان کا جو آدمی نظر آیا مار دوں گا“ کہتے دھاڑیں مار کر رونے لگتے تھے۔ بدلہ تو لیا گیا اگلی ہی صبح کراچی میں پچاس کے قریب سندھیوں کو مار دیا گیا، غریب مچھیروں سے بھری پوری بس بھون ڈالی گئی۔

یہ سب بھی ایسے ہی خوش خوش اور موت کے حملے سے بے خبر گھروں سے نکلے ہوں گے جیسے حیدرآباد میں ہم نکلے تھے۔ اس وقت تو میں نے سنتے ہی کہا تھا ”صحیح کیا“ لیکن جب کالج میں میڈم سلطانہ نے یکم اکتوبر کو اپنی گلی میں آنکھوں دیکھے ایک قتل کا ماجرا سنایا تو میں اپنی مٹھی بند کیے یوں بلک بلک کر رو رہی تھی جیسے رضا کا ہاتھ اب بھی میرے ہاتھ میں ہو، ”کچھ لوگ کہہ رہے تھے چھوڑ دو باقی کہہ رہے تھے مارو، انھوں نے رحم کیا تھا جو ہم کریں؟

۔۔۔ بس پھر سر میں گولی مار دی، لاش جانے کے بعد بھی اس کی میلی کچیلی سندھی ٹوپی اور ہاتھ میں پکڑا ڈبا گلی میں پڑا رہا تھا، ڈبے سے چھوٹی چھوٹی چوڑیاں نکل کر ادھر ادھر ٹوٹی پڑی تھیں، اپنی بیٹی کے لیے لایا ہوگا“ یہ واقعہ سن کر میں کلاس میں اتنا روئی تھی کہ مجھے سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔ رضا کی لاش، موٹرسائیکلوں اور گولیوں کی گھن گرج اور گرتے جسموں کے ساتھ اب وہ چوڑیاں بھی میری یادوں کا حصہ بن گئی ہیں۔ حالاں کہ انھیں تو دیکھا بھی نہیں۔

اتنے زورشور سے لگائے جانے والے سندھی مہاجر اتحاد کے نعروں کا یہ انجام ہونا تھا؟ آثار تو نظر آرہے تھے کہ یہ اتحاد فقط دیواروں پر سیاہی سے لکھے نعروں ہی کی صورت میں رہ جانا ہے مگر یہ کچھ ہوگا سوچا نہ تھا۔ حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، خیرپور، ٹنڈوالہ یار، کوٹری، نواب شاہ میں تصادم اور تشدد کے واقعات اور میئرحیدرآباد آفتاب احمد شیخ پر قاتلانہ حملے نے بتا دیا تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ایک اور ہجرت کر کے کراچی اور حیدرآباد آ گئے ہیں۔

میں نے پہلی بار اجڑے ہوئے لوگوں کا کیمپ دیکھا۔ ابو کے دوست کی بیٹی کی منگنی میں ہم فیڈرل بی ایریا گئے تھے، وہاں سرکاری اسکول میں لوگ ہی لوگ بھرے تھے، پتا چلا اندرون سندھ سے آئے ہیں۔ یہ ہوتا ہے مہاجرکیمپ، ایسے ہوتے ہیں پناہ گزیں، اب پتا چلا۔ جی ایم سید کا یہ شکوہ بھی سننے کو ملا کہ الطاف حسین ڈرنے لگا ہے، وہ پہلے میرے پاس آتا تھا اب تین بار بلانے کے باوجود نہیں آیا۔ آخر الطاف حسین جی ایم سید کے پاس جا پہنچے، دونوں نے ساتھ کھانا بھی کھا لیا۔ انتخابات کے بعد ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی میں معاہدہ بھی ہوگیا۔ شاید اب نفرت کو موت آ جائے۔

کہتے ہیں حیدرآباد میں سب کچھ بڑی منصوبہ بندی سے ہوا۔ حملہ آور پورے شہر میں پھیل گئے تھے اور کلاشنکوفوں اور دیگر اسلحے سے اندھادھند گولیاں چلارہے تھے۔ شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں انھوں نے قیامت نہ ڈھائی ہو۔ آدھا گھنٹے تک قتل عام ہوتا رہا لیکن کوئی قاتلوں کو روکنے آگے نہ بڑھا۔ ان کے اطمینان سے لگتا ہے کہ انھیں بھی یقین تھا کہ انسانی شکار پر نکلنے والے ان درندوں کو کوئی نہیں روکے گا۔ سنا ہے جیل میں قید ڈاکو جانو آرائیں کو اس قتل عام کے لیے رہا کیا گیا۔

ڈاکٹر قادرمگسی کو اس حملے کا ملزم قرار دے کر گرفتار تو کر لیا ہے مگر شمن دادا کہتے ہیں ”کچھ نہیں ہوگا معاملہ ٹھنڈا پڑتے ہی رہا کر دیا جائے گا“ شمن دادا بھی بہت بدگمان رہتے ہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے سارے لوگوں کے قاتل رہا کردیے جائیں قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی کی بات دوسری تھی حیدرآباد میں تو سب کچھ اچانک ردعمل میں نہیں ہوا سوچ سمجھ کر منصوبہ بناکر کیا گیا۔ لیکن کراچی میں جو ہوا اس کا ”جانو آرائیں“ اور ”قادر مگسی“ کون تھا؟

ویسے ایم کیوایم کے دو ناموں آفاق احمد اور عامرخان کی دلیری کے بہت چرچے ہیں، سنا ہے انھیں الطاف حسین اپنا شیر کہتے ہیں۔ دونوں زونل آرگنائزر ہیں۔ بھائی جان کہتے ہیں ایم کیوایم میں الطاف حسین کے بعد سب سے طاقت ور زونل آرگنائزر اور پھر سیکٹر انچارج ہیں، باقی مرکزی کمیٹی یہ عہدے دار وہ عہدے دار سب دکھاوا ہے۔ بھائی جان یہ بھی بتا رہے تھے ایم کیوایم میں آفاق احمد اور عامر خان جیسے ”شیروں“ کا پورا غول ہے، انھیں ”شرفا کمیٹی“ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں شرفا کا بہت ذکر ہوتا ہے، ”یہ شرفا کا طریقہ نہیں“ ، ”شرفا یہ نہیں کرتے“، ”شرفا کا محلہ“ لیکن اب شاید اس لفظ کے معنی بدل جائیں۔ مجھے تو لگتا ہے شرفا کمیٹی کا نام اس لفظ سے انتقام ہے۔

یکم اکتوبر کو کراچی میں سندھیوں کے قتل کی اطلاع بھائی جان کو دیتے ہوئے ان کے دوست اقبال نے ایک عجیب جملہ کہا تھا ”انھیں بس چوبیس گھنٹے کا ٹائم ملا ہے بدلہ لینے کے لیے۔“ کس نے دیا ہے ٹائم؟ بھائی جان نے مجھے بتایا تو میں نے چھوٹتے ہی یہ سوال کیا تھا۔ کہنے لگے ”تم نہیں سمجھو گی“ کیسے نہیں سمجھوں گی۔ شمن دادا تو کہتے ہیں ہماری نوشابہ بٹیا عورتوں کیا بہت سے مردوں سے بھی زیادہ سمجھ دار ہے۔ پتا نہیں ان کی بات میں کتنی حقیقت ہے، اتنا تو ہے کہ میں سوچتی بہت ہوں، اخبار میں خبروں کے ساتھ کالم بھی پڑھتی ہوں اور کئی موٹی موٹی کتابیں پڑھ چکی ہوں جنھیں دیکھ کر سب حیرت سے پوچھتے ہیں کیسے پڑھ لیتی ہو یہ کتابیں، جیسے ”آگ کا دریا“ ، ”اداس نسلیں“ ، ”اینیمل فارم“ اور ”ماں۔“

وہ کچھ دیکھ لیا کہ اب کسی بات پر خوشی نہیں ہوتی۔ سب میرے لیے پریشان ہیں۔ الیکشن کی رات بھائی جان اپنے دوست کی کار پر ایم کیوایم کا جشن دکھانے لے گئے کہ چلو دل بہلے گا، ہر طرف روشنیاں تھیں، نغمے تھے، ”مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین“ کی دھن اور بول دلوں کی دھڑکن بڑھارہے تھے، میں بھی اس نغمے پر جھوم اٹھتی اور بے ساختہ ساتھ گانے لگتی تھی، لیکن آج ساری آوازیں بے معنی لگ رہی تھیں۔ نوجوان رقص کر رہے تھے، سڑکوں پر لوگوں کا سمندر تھا، لڑکے اور لڑکیاں کاروں میں لدے کھڑکیوں تک میں پھنسے بیٹھے تھے اور ایم کیوایم کے پرچم لہراتے نعرے لگاتے عزیزآباد کی طرف رواں دواں تھے، عزیزآباد جو مہاجروں کا قبلہ بن چکا ہے، وہاں لکھا دیکھا تھا ”مہاجروں کا اسلام آباد، عزیزآباد“ میں خالی خالی آنکھوں سے سب دیکھتی رہی، دل ویسے کا ویسا ہی رہا۔

اتنے شور میں بھی ایک آواز نے مجھے چونکا دیا تھا، گاڑیوں کے سیلاب میں سست رفتاری سے چلتی اور رکھی ہماری کار کے برابر رکنے والی ویسپا پر بیٹھا ادھیڑ عمر داڑھی والا شخص اپنے بیچھے بیٹھی برقع پوش خاتون کا مخاطب کرکے کہہ رہا تھا، ”یہ حال کیا ہے انھوں نے ہماری تہذیب کا، جانے کہاں لے جائیں گے ہمیں۔“ کاروں کی کھڑکیوں پر کولہے نکالے بیٹھی لڑکیوں کو دیکھ کر مستقل اسی طرح کے تبصرے کرتا رہا۔ پھر اس کی آواز شور میں دب گئی۔

اتنی آوازوں میں بھی میری سماعت گولیوں کی گونج سے بھری تھی۔ دل میں خوف بیٹھ گیا ہے، جانے کب کیا ہو جائے۔ ہمارے کھوکھراپار پر بھی تو ایسے ہی حملہ ہو سکتا ہے جیسے اورنگی ٹاؤن کی بستیوں پر اور حیدرآباد میں ہوا۔ ریل کی پٹری کے اس طرف پنجابی پختون اتحاد کے جھنڈے لگے ہیں، میرے گھر سے کچھ فاصلے پر سندھیوں کے گوٹھ ہیں۔ اگر حملہ ہوا تو کون بچانے آئے گا، پولیس، فوج یا ایم کیوایم کے ”شیر“؟

بھائی جان بہت خوش ہیں، کہتے ہیں ”ایم کیوایم کی تیرہ سیٹوں پر پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے، اب تو مہاجروں کے مسائل حل ہوکے رہیں گے۔“ اللہ کرے ایسا ہو جائے۔ ضیا الحق زندہ ہوتا تو پتا نہیں پیپلزپارٹی اس طرح جیت پاتی یا نہیں، ہو سکتا ہے انتخابات ہی نہ ہوتے۔ جنرل ضیا کی موت پر کتنا عجیب لگ رہا تھا، ہوش سنبھالا تو حکومت اور حکمران ایک ہی مطلب تھا ”صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق“ لگتا تھا وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

جب طیارہ گرا اور خبر ملی کہ جنرل ضیا کی وفات ہو گئی ہے تو محسوس ہوا جیسے اچانک ہوا چلی ہو، اور اس جھونکے نے بتایا ہو کہ اب تک حبس تھا۔ پھر یہ خیال ستانے لگا کہ ضیاالحق نہیں رہا اب ملک کیسے چلے گا، کون چلائے گا؟ اور جب اظہرلودھی نے ٹی وی پر جنرل ضیا کے جنازے کی روتے بلکتے کمنٹری کی تو میں اور امی بھی رو پڑی تھیں۔

ایم کیوایم کی جیت پر شہاب بھائی آسمانوں میں اڑ رہے ہیں، کہہ رہے تھے یہ کامیابی ایسے ہی نہیں ملی کتنے ہی نوجوانوں نے جانیں دی ہیں، سنہرا مستقبل قوم کے مفاد پر قربان کیا ہے۔ یہ تو ہے، ہمارے ملیر کا ایم این اے وسیم احمد میرین انجنیئر ہے، اور کتنے ہی انجنیئر، ڈاکٹر، ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے سب چھوڑ چھاڑ کر ایم کیوایم کا حصہ بن گئے۔ اپنا کیریر سیاست کی نذر کر دیا۔ مگر اتنے پڑھے لکھے لوگوں کا قائد کبھی کبھی عجیب باتیں کرجاتا ہے، جیسے ”لفظ مہاجر قرآن میں موجود ہے اس لیے ناجائز کیسے ہو سکتا ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام بھی مہاجر تھے، سو ساری کائنات مہاجر ہے۔“ اب اس سب کا قومیت کی بحث اور لفظ مہاجر قومیت کے معنی میں استعمال کرنے پر اعتراض سے کیا تعلق۔

شمن دادا کہتے ہیں ”یہ ہوتا ہے سیاست کے لیے مذہب کا استعمال، لوگوں کو ان دلائل پر واہ واہ کرنے دو، کل یہی ہائے ہائے کریں گے۔“ شہاب بھائی نے بتایا تھا کہ ایک فکری نشست میں الطاف حسین نے ایم کیوایم کے پرچم میں سرخ رنگ ہونے کو کمیونزم سے مناسبت دینے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا ”یہ حضرت عثمان غنیؓ اور شہدائے کربلاؓ کے خون کا رنگ ہے۔

“میں نے دیکھا ہے قوم پرست جماعتیں سیکولر ہوتی ہی مگر ایم کیوایم تو ان باتوں سے اچھی خاصی مذہبی جماعت لگتی ہے۔ شہاب بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ فکری نشستوں میں جو باتیں ہوتی ہیں وہ سب کو نہیں بتائی جا سکتیں، منع ہے۔ جانے ایسی کیا باتیں ہوتی ہیں، مجھے بہت تجسس ہے۔ شہاب بھائی کو تو خیر وہ کچھ پتا ہوتا ہے جو ایم کیوایم کے عام کارکن بھی نہیں جانتے، وہ حلف یافتہ کارکن ہیں نا۔ نہ جانے کس بات کا حلف لیا گیا ہے ان سے؟

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: ڈر تھا کہ حیدرچوک کے مسئلے پر کوئی ہنگامہ نہ ہو جائےنوشابہ کی ڈائری: الطاف حسین کو پیرصاحب کہنے لگے ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).