ہائے یہ بین کرتی مائیں مر کیوں نہیں جاتیں


بچپن میں ایک بار میرے گھر کے کونے پر ایک بلی اپنے پیدا ہوئے بچوں کے ساتھ دبکی رہتی تھی پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی جب وہ ذرا ادھر ادھر ہوئی اس میں سے ایک بہت پیارا والا بلی کا بچہ میں اٹھا کر گھر لے آئی۔

اب سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں اس کو میں نے گھر کے اسٹور میں چھپا دیا تھا۔ چھوٹا سا بچہ آواز بھی نہیں نکل رہی تھی اس کی لیکن کچھ دیر میں ہی بلی میرے گھر کے گیٹ پر پاگلوں جیسے چکر کاٹ رہی تھی۔ اس کی میاؤں میاؤں سن کر میری دادی گیٹ پر اس بلی کو دیکھنے آئیں اور مجھ سے پوچھا اس نے تو ابھی ابھی بچے دیے ہیں یہ یہاں کیوں تڑپ رہی ہے؟

میں نے ڈرتے ڈرتے ان کو بتا دیا کہ اس کا ایک بچہ میں لائی ہوں اسٹور میں ہے۔ دادی نے مجھے ایک نظر دیکھا اور کہا جاؤ اس کا بچہ لاؤ میں چپ چاپ اسٹور سے وہ چھوٹا سا بچہ لے کر گیٹ پر آ گئی۔

آج بھی وہ منظر میری آنکھوں میں کہیں ٹھہر سا گیا ہے جب بلی اپنے بچے کو منہ میں دباکر بھاگی تھی اور آج بھی دادی کی بات مجھے یاد آتی ہے ماں ہے وہ کیا ہوا اگر جانور ہے۔ خدا کسی ماں کو اس کی اولاد کے چھن جانے کا غم نہ دے آئندہ ایسی حرکت مت کرنا۔

اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ بس یہ ماں کے دل کو پتہ ہوتا ہے جب پہلی بار وہ اپنی کوکھ میں ایک ننھی جان کی آہٹ محسوس کرتی ہے۔ نو مہینے ہر تکلیف سہتی ہے تاکہ اس ننھی جان کو خیریت سے دنیا میں لا سکے اور جب اس کی گود میں ننھی سی چیخیں مارتی جان تھمائی جاتی ہے وہ اپنا ہر کرب بھول جاتی ہے۔

اپنا دن رات ایک کر کے اس معصوم کمزور سے پودے کو اپنے لہو کی آبیاری سے تناور درخت بناتی ہے۔ ہمیشہ اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ اپنا تن من بس اپنے بچے پر وار دیتی ہے دنیا کا ہر آرام تج دیتی ہے ماں بس صرف اپنے بچے کے لیے۔

کوئی غرض نہیں بس محبت کیونکہ مامتا کا خمیر تو اٹھا محبت اور وفا کی مٹی سے ہے۔ اس کا بچہ کالا ہو گورا ہو دبلا ہو موٹا ہو اس کی تو کل کائنات ہوتا ہے۔ اس کے دل سے پوچھو اس کو اپنی اولاد چاند سورج سے بڑھ کر لگتی ہے۔ سڑک پر بھیک مانگتی ماں بھی اپنے بچے کو سینے سے لگا کر رکھتی ہے۔ اپنی آنکھوں سے دور نہیں جانے دیتی اپنے برے سے برے خواب میں بھی اپنے بچے کو کچھ ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ اپنے بچے کے ذرا سے بخار اور چھینک پر دین دنیا ایک کر دیتی ہے۔ ماں نہ امیر ہوتی نہ غریب ماں تو بس ماں ہوتی اپنی محبت کے ہاتھوں بے بس۔

اگر اس ماں سے اس کی یہ کل کائنات کوئی چھین لے تو اس ماں پر کیا قیامت نہیں گزرے گی؟
کوئی دن دیہاڑے اس کے لعل کو خون میں نہلا دے؟
کہیں اس کے شہزادے کی سربریدہ لاش عین سورج کے نیچے پڑی ہو کیسے دیکھے گی کیسے برداشت کرے گی وہ ماں؟
اپنی تہی دستی پر آسمان کی طرف دیکھ کر چیخیں نہیں مارے گی تو کیا کرے گی تڑپ ٹرپ کر فریاد نہیں تو کیا کرے گی؟
اپنا سر کسی دیوار میں نہیں مارے گی تو کیا کرے گی؟
اپنے بین سے اپنی آہوں سے فرش کیا عرش بھی نہیں ہلائے گی تو کیا کرے گی؟
کیسے جی سکتی ایک ماں اپنی دنیا لٹ جانے کے بعد؟

کیا رہ جاتا اپنے سامنے گولیوں سے چھلنی معصوم مظلوم جوان جہان لاش دیکھ کر اس کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو نہیں برسیں گے تو کیا ہوگا؟
کیا کرے وہ ماں کہاں جائے کس سے فریاد کرے کہاں سے انصاف لائے۔
گولی تو چل گئی اور ایسی چلی کہ اس کا لاڈلا جس کو خبر بھی نہ ہوگی کہ قضا اس کی گھات میں ہے ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔

کیا بیتے گی اس ماں پر جس کے سامنے اس کا جوان جہان گولی کھا کر گرے کیسے کھڑی رہے گی اپنے قدموں پر کیسے پرسہ دے سکتے ہیں۔ ایسی غریب بے بس ماں کو جس کی زندگی میں اب کربلا ٹھہر گیا ہے۔ کون سا انصاف اس کے بہتے آنسو روک سکے گا۔ کون سا دل اس کی بین کرتی چیخیں سن سکے گا۔

حیات بلوچ کی آگ برساتے سورج کے نیچے پڑی لاش پر اس کی بین کرتی ماں کی تصویر نے پھر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

یہ اندھی گولیاں کب تک غلطی سے چلتی رہیں گی۔
کب تک غداری اور وفاداری کے سرٹیفیکٹ بٹتے رہیں گے۔
کب کہاں شنوائی ہوگی اور کیسے ہوگی۔
کیا یہ پہلی ماں ہے جو ایسے جوان لاشے پر تڑپ رہی ہے۔

کیا یہ پہلی ماں جس کی بے بسی کی تصویر دلوں کو چیر رہی ہے۔ جدھر نظر اٹھا لو جس طرف دیکھ لو یہ منظر جیسے ٹھہر سے گئے ہیں۔ کسی کی لاش پڑی ہے کوئی لاش کے انتظار میں ہے۔ کسی کی آنکھوں میں صدیوں کا انتظار ہے کب آئے گا جانے والا کون دے گا جواب۔

لیکن ان سب سوالوں کے درمیان ان زندہ درگور ہوتی ماؤں کا کیا کیسے جیتی ہیں یہ بین کرتی مائیں ہائے کیوں جی رہی ہیں؟ یہ مر تو اسی وقت جاتی ہیں جب ان کے سامنے یہ جوان لاشے آتے ہیں۔بس زندگی سے فقط سانسوں کا رسمی رشتہ تو یہ جینے کی سزا بھی کیوں مل رہی ہے انہیں؟ ہائے مر کیوں نہیں جاتیں یہ بین کرتی مائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).