اچھی یا بری عورت کا معیار کون طے کرے گا؟



پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ پڑھی۔ جس میں کچھ ترقی پسندوں کی جانب سے ایک خاتون لکھاری کو مدعو نہ کیے جانے پہ ایک دوست کے استفسار پہ ان کو بتایا گیا کہ وہ کردار کی اچھی عورت نہیں ہیں۔ ان کے مردوں سے تعلقات ہیں۔ اور یہ کہ ان کے اچھا لکھنے کے باوجود محفل میں ان کو بلانے سے ماحول ٹھیک نہ رہتا۔ جس وقت یہ باتیں کی گئیں۔ اس وقت محفل ناؤ نوش جاری تھی۔ ممکن ہے مذکورہ صاحب نے بعد میں سارا قصور اسی ناؤ نوش کو دے کر معافی بھی مانگ لی ہو۔

مگر کیا قصور مے کا ہے یا ان کی اس پدرسری سوچ کا۔ جس کے پنجے ان کے دماغوں کی تہوں تک میں گڑے ہیں۔ ورنہ تو پھر محفل میں آنے والے ہر مرد کے لیے بھی کیریکٹر سرٹیفکیٹ ساتھ لانے کی شرط رکھی جاتی۔ کیا کسی نے اس محفل یا کسی بھی محفل میں کبھی کسی مرد کے کردار پہ بات کی ہے۔ ویسے تو کردار کی بات کرنا بھی خوب ہی ہے۔ جو ہمارے پیمانے پہ پورا اترے۔ وہ صاحب کردار۔ ورنہ بدکردار۔

اچھی عورت کی تعریف کیا ہے؟ میرے خیال سے اچھی عورت وہ ہے۔ جو بچپن سے لے کر مرنے تک صرف دوسروں کے طے کردہ معیارات کو پورا کرتے ہوئے قبر میں اتر جائے۔ وہ بچی ہے تو اسے گھر کی ذمہ داریاں برابر اٹھانی ہیں۔ اسے بھائی کا خیال کرنا ہے۔ چاہے وہ بڑا ہے یا چھوٹا۔ بڑی ہو گئی تو اس کے ساتھ باپ بھائی کی عزت و غیرت والی پگ کو نتھی کر دو۔ وہ گھر رہے تو بھی سمٹی رہے۔ گھر سے باہر جائے تب بھی اسے خاندان کی عزت کی گٹھری کو کمر پہ لادے پھرنا ہے۔

وہ بھول کے بھی اپنی مرضی سے شادی کے متعلق سوچ نہیں سکتی۔ اچھی عورت والدین کی مرضی سے شادی کر کے ان کے دیے بیڈ پہ کسی مرد کے ساتھ سوئے گی۔ تب ہی سب خوش ہوں گے۔ وہ اپنی مرضی کے بندے سے شادی کر کے نہیں رہ سکتی۔ ایسی صورت میں غیرت کے نام پہ قتل اس کا مقدر بنتے ہیں۔ اچھی عورت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ شادی سے انکار نہیں کر سکتی۔ ورنہ تیزاب سے جھلسائی جا سکتی ہے۔ اس کی گردن میں چھریاں ماری جا سکتی ہیں۔ کاری بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب اسے چپ چاپ سہنا پڑے گا۔ کیونکہ وہ تو ایک اچھی عورت ہے۔

اچھی عورت سسرال میں جا کے جتنے مرضی ظلم سہے۔ شوہر کی مار پیٹ برداشت کرے۔ ساس سسر نندوں دیوروں سے دن رات ذلیل ہوتی رہے۔ مگر اف نہ کرے۔ شکایت نہ کرے۔ والدین کو دکھ نہ بتائے۔ اس کی لاش واپس وصول کر کے والدین دو چار دن بین ڈالیں گے۔ پھر اللہ کی مرضی کہہ کے صبر کر لیں گے۔

اچھی عورت تعلیم صرف شادی اچھی جگہ ہو جانے کے لیے حاصل کرے۔ اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے کی کوشش ضروری نہیں۔ جب شادی ہو گئی تو بچے پیدا کرے۔ ان کو پالے پوسے۔ چاہے تنگی کاٹے۔ پر شوہر سے شکوہ نہ کرے۔ ورنہ بدزبان کہلائی جائے گی۔ اور ایسی صورت میں تو شوہر کے پاس مارنے کا اختیار بھی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں تک میں بھی اچھی عورت کی کیٹیگری پہ سو فیصد پورا اترتی تھی۔ ناولوں کی سگھڑ ہیروئنوں کی طرح میرے سر پہ بھی یہی بھوت سوار رہتا تھا کہ میں ایک اچھی عورت کا میڈل اپنے سینے پہ سجا کے پھروں۔ جہاں سے گزروں لوگ مثالیں دیں کہ کتنی سگھڑ عورت ہے۔ یعنی کہ سبحان اللہ۔ مگر اس سب میں میری خود کی ذات کہاں تھی۔ میں کیا سوچتی ہوں۔ میں کیسے رہنا چاہتی ہوں۔ میری پسند ناپسند کیا ہے۔ میری ترجیحات کیا ہیں۔

میرے شوق کدھر ہیں۔ میری ذات کی تسکین کہاں ہے؟ میں لوگوں کو خوش کرتے کرتے یہ بھول چکی تھی کہ میں ایک الگ وجود رکھتی ہوں۔ مجھے بس یہی ایک زندگی ملی ہے۔ ان سب فرائض میں زندگی کہاں ہے۔ کہیں بھی نہیں۔ میں تو روبوٹ بن چکی تھی۔ میں جس فطرت پہ پیدا ہوئی ہوں۔ وہ تو بے چین ہے۔ اس کے قرار کے لیے تو مجھے خود ہی ہمت کرنی ہے۔

یہاں سے مجھے پتہ لگا کہ معاشرے میں بری عورت کون سی ہے۔ ہر وہ عورت جو اپنے حقوق کا ادراک رکھتی ہے۔ وہ بری ہے۔ سماج نے عورت کی آزادی کو سیکس کی آزادی سے جوڑ دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر عورت آزادی مانگتی ہے۔ اس پہ بات کرتی ہے۔ یقیناً اس کا کوئی چکر ہے۔ یہ ضرور دوسرے مردوں کے ساتھ سیکس کے لیے ایسی باتیں کر رہی ہے۔ بھئی سیکس کہاں سے آ گیا۔ اور اگر سیکس ہے بھی تو آپ ہوتے کون ہیں اس پہ انگلی اٹھانے والے۔

عورت اپنی تعلیم کی بات کرتی ہے۔ اپنی معاشی خودمختاری کی بات کرتی ہے۔ تو اس میں آپ کو مسئلہ کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ عورت کو صرف نسل بڑھانے کے لیے مختص ایک جاندار سمجھا جائے۔ معاف کیجئیے گا کہ جاندار لکھا کیونکہ انسان تو اسے سمجھا ہی نہیں جاتا۔

اپنی مرضی سے کپڑے پہننے کی آزادی کو آپ بے حیائی سے کیوں جوڑتے ہیں۔ اپنی مرضی سے شادی کے حق کو آپ بد چلنی و بدکاری سے کیوں ملاتے ہیں۔ کیوں آپ بیٹے کی طرح بیٹی کو بھی شادی سے پہلے ہی معاشی طور پہ خوشحال نہیں ہونے دیتے۔ اسے شادی کرنی ہے یا نہیں کرنی۔ اسے بچے پیدا کرنے ہیں یا نہیں کرنے۔ اس کا فیصلہ اسے کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔ اس کے سر پہ لوگ کیا کہیں گی تلوار کیوں لٹکائی جاتی ہے۔ صرف عورت ہی کیوں غیرت کے ٹوکرے کی رکھوالی کرے۔ یہ رکھوالی مرد پہ کیوں نہیں لاگو ہوتی۔

بری عورت اپنی مرضی سے جیتی ہے۔ اپنی مرضی سے جینے کی آزادی اگر مرد کو ہے۔ تو عورت کو کیوں نہیں۔ مجھے علم ہو چکا ہے کہ میں اب ایک اچھی عورت نہیں رہی۔ میں ناول کی ہیروئن کے خاکے پہ پورا نہیں اترتی۔ میں اب اصفری نہیں رہی۔ مجھ میں کہیں کہیں اکبری کی جھلک ہے۔ مگر شاید اکبری سے کئی درجے زیادہ بری ہو سکتی ہوں۔

میں اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں اپنی مرضی سے کپڑے پہنتی ہوں۔ میں سماج کے طے کیے پیمانوں کو توڑنا سیکھ رہی ہوں۔ میں اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں کہ یہ جدوجہد آگے میری بیٹیوں کے لیے آسانی پیدا کر سکے۔ معاشرے کے بنائے اصولوں کو توڑنے کی جرات ہر عورت کو کرنی چاہیے۔ آپ آنے والی نسلوں کو باشعور و اخلاقی طور پہ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ تو اپنی عورتوں پہ اچھی یا بری عورت ہونے کے ٹیگ لگانا بند کیجئیے۔ انہیں کھل کے جینے دیجئیے۔ سانس لینے دیجئیے۔ گھٹن سے بھرے ماحول میں انے والی نسلیں بھی گھٹن زدہ ہی پیدا ہوں گی ۔ جن سے آپ شعور اور روشنی کی توقع نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).