فیس بک کی غیر جانب داری پر سوالات: سوشل میڈیا کمپنی پر انڈین سیاست میں دوہرا رویہ اپنانے، بی جے پی کے سیاستدانوں سے قربتوں کے الزامات


فیس بک انڈیا میں سیاسی تنازعے میں گِھر گیا ہے۔ امریکی اخبار ‘وال سٹریٹ جرنل’ کے مطابق فیس بک نے آر ایس ایس اور نظریاتی طور پر اس کے قریب سمجھی جانے والی حکمراں جماعت بی جے پی کی مدد کی ہے۔ اب حزب اختلاف نے اس معاملے پر جارحانہ رخ اختیار کر رکھا ہے۔

گذشتہ ہفتے وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں فیس بک کے کچھ موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے دعوی کیا گيا کہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے بی جے پی قائدین اور کارکنوں کی نفرت انگیز پوسٹس اور فرقہ وارانہ مواد کو نظرانداز کیا ہے۔ خیال رہے کہ فیس بک کے پاس ہی واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا بھی مالکانہ حق ہے۔

غیرجانبداری کے حوالے سے فیس بک کے دعوؤں پر سوالیہ نشان

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وال سٹریٹ جرنل کی جانب سے فیس بک پر لگائے جانے والے الزامات نے اس کے غیر جانبداری کے دعوؤں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے فیس بک پر سنہ 2014 اور 2019 کی انتخابی مہم کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ ان دونوں انتخابات میں بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔

سینیئر صحافی اور مصنف پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا نے گذشتہ سال شائع ہونے والی اپنی کتاب میں بی جے پی اور فیس بک کے مابین تعلقات کا جائزہ لیا تھا۔ ٹھاکرتا کہتے ہیں کہ گذشتہ دو پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو فیس بک اور واٹس ایپ نے بہت متاثر کیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وال سٹریٹ جرنل کی کہانی نے انڈیا میں فیس بک کے کردار کے بارے میں صرف ان کی تحقیقات کی تصدیق کی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘انڈیا میں فیس بک کے 40 کروڑ صارفین اور 90 کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ ملک میں انتخابات سے پہلے، اس کے بعد اور اس کے دوران اس پلیٹ فارم کے غلط استعمال کی اجازت دی۔ لوگوں نے کسے ووٹ دیا اور کیسے ووٹ ڈالا یقینی طور پر ان کا بڑا اثر پڑا ہے۔ مختصر یہ کہ آج جس طرح سے فیس بک اور واٹس ایپ کام کر رہے ہیں اس سے نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دنیا میں جمہوریت کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔’

فیس بک

فیس بک کا دوہرا رویہ؟

ناقدین کا کہنا ہے کہ فیس بک مختلف ممالک کے لیے مختلف رہنما اصول بناتا ہے۔ فیس بک دوسرے ممالک میں حکمران جماعتوں کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے لیکن جہاں سے اس کا صدر مقام ہے وہاں یعنی امریکہ میں وہ خود کو سیاست سے دور ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس کا دوہرا رویہ ہے۔

کانگریس رہنما راہل گاندھی نے مودی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ فیس بک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کررہی ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے اس کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن بی جے پی کے سینیئر رہنما اور مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے حکومت کا دفاع کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فیس بک یا واٹس ایپ کو کنٹرول کرنے میں ان کی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پرساد نے ٹویٹ کیا اور کہا: ‘وہ شکست خوردہ جو اپنی ہی پارٹی میں لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتے ہیں وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس پوری دنیا کو کنٹرول کرتی ہے۔’

امریکہ میں اپنے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں فیس بک نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم نفرت انگیز تقریر اور مواد کو روکتے ہیں جو تشدد کو بھڑکاتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ ہماری پالیسی ہے۔ ہم کسی بھی سیاسی پارٹی کے حامی نہیں ہیں اور نہ ہی اس سے ہماری کوئی وابستگی ہے۔’

تاہم فیس بک نے اعتراف کیا ہے کہ ایسے معاملات سے بچنے کے لیے ابھی مزید بہت کام کرنا پڑے گا۔ کمپنی کے بیان میں کہا گیا: ‘ہم جانتے ہیں کہ اس سمت میں اب بھی کچھ اور اقدامات کیے جانے ہیں۔ لیکن ہم اپنے عمل کے مستقل آڈٹ اور انھیں نافذ کرنے کی سمت میں گامزن ہیں تاکہ ہماری غیرجانبداری اور درستگی پر حرف نہ آئے۔’

فیس بک اور بی جے پی

فیس بک اور بی جے پی کی قربتوں کی چھان بین

ٹھاکرتا کو فیس بک اور بی جے پی حکومت کے مابین تعلقات کی خبروں پر کوئی حیرت نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘پچھلے سال جب میں نے فیس بک پر ایک کتاب لکھی اور اس سے اور وٹس ایپ کے ساتھ مودی سرکار کے قریبی تعلقات کی تفصیلات دی تو میڈیا نے اس کو نظرانداز کردیا۔ اب جب کسی غیر ملکی اخبار نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے تو میڈیا میں چستی پھرتی اور دلچسپی نظر آ رہی ہے۔’

ٹھاکرتا نے بی بی سی کو بتایا کہ فیس بک اور مودی کی پارٹی بی جے پی کی دوستی بہت پرانی ہے۔ سنہ 2014 میں مودی کو اقتدار میں لانے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل دونوں کے مابین بہت اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے۔

انھوں نے کہا: ‘2013 میں جب مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے تو فیس بک اور بی جے پی کے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے۔ میں نے اس بارے میں لکھا ہے کہ کس طرح فیس بک کے کچھ اعلی افسران نے بی جے پی کے آئی ٹی سیل، اس کے سوشل میڈیا ونگ اور بعد میں پی ایم او میں مودی کے قریبی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔’

وال سٹریٹ جرنل نے فیس بک کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر اس پلیٹ فارم نے بی جے پی کارکنوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر یا دوسرے قوانین کی خلاف ورزی پر اقدامات کیے ہوتے تو ملک میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو زک پہنچتی۔ اس مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیس بک کا بی جے پی کی حمایت کرنے کا ایک ‘تفصیلی پیپٹرن’ ہے۔ تاہم اب بی جے پی اس الزام کی تردید کر رہی ہے کہ فیس بک نے ان کی مدد کی ہے۔

کیا فیس بک سے جمہوریت کو خطرہ ہے؟

امریکہ اور یورپ کے سیاسی رہنماؤں نے جمہوریت کے اصولوں کو مجروح کرنے کے الزام میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔

برطانیہ میں ہیومن رائٹس کمیٹی کے چیئرمین ہریئٹ ہرمن کا کہنا ہے کہ ؛عام طور پر اراکین پارلیمان یہ شدت کے ساتھ تسلیم کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا جو کچھ کر رہا ہے اس سے جمہوریت کے لیے خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔’

ایسے بہت سے معاملات کے بعد چاروں طرف سے اپنے کام کو بہتر بنانے کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ پر دباؤ بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ ٹوئٹر جیسے دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر صارفین فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو انڈیا میں اپنی کمپنی میں موجود خامیوں کو دور کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اگر چہ ٹویٹر پر بھی گڑبڑی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

زکربرگ کی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پوسٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔ فیس بک کے ابتدائی دور میں اس میں کام کرنے والے 30 ملازمین نے ایک کھلا خط لکھ کر کہا کہ ٹرمپ کی پوسٹ کو ماڈریٹ کرنے سے فیس بک کا انکار درست نہیں۔ اس نے امریکی عوام کو ان خطرات کی طرف دھکیل دیا ہے جو وہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس خط میں فیس بک پر دوہرا رویہ اپنانے کا الزام لگایا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں نفرت انگیز اور پر تشدد مواد کے خلاف اندرونی طور پر رہنما اصول موجود ہیں اور وہ ان کے خلاف کارروائی بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں وہ زیادہ تر صارفین پر ہی انحصار کرتے ہیں کہ وہ قواعد کی خلاف ورزی کے خلاف انھیں متنبہ کریں۔

زکربرگ نے حال ہی میں اسرائیلی مورخ یوال نوح ہراری سے کہا تھا کہ فیس بک کے لیے کسی صارف کی رازداری اور اظہار رائے کی آزادی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن ہراری اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے معاملات میں فیس بک نے صارف پر سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔ اسے ان معاملات میں ایک قدم آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے کیونکہ عام آدمی اکثر یہ نہیں جانتے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام صارف کے پاس جعلی خبروں کو تلاش کرنے کا ذریعہ بھی نہیں ہوتا ہے۔

‘سوشل میڈیا کا مقصد صرف پیسے کمانا ہے’

ٹھاکرتا کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا سیاسی یا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا ہے۔ اس کا واحد مقصد ‘منافع اور پیسے کمانا’ ہے۔

فیس بک نے حال ہی میں انڈین کمپنی ریلائنس کے جیو پلیٹ فارم میں 43 ہزار574 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ انڈیا میں اس کا کاروبار مزید بڑھ سکے۔

صارفین کی تعداد کے حساب سے انڈیا فیس بک کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس کی رسائی ملک کی 25 فیصد آبادی تک ہے۔ سنہ 2023 تک یہ 31 فیصد لوگوں تک پہنچ سکتا ہے جبکہ واٹس ایپ کی رسائی تو اس سے بھی زیادہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp