پاکستان کے لئے سیدھا راستہ کون سا ہے؟


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں سرکاری طور پر تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ دورہ تھا۔ تاہم دنیا بھر کا میڈیا اسے گزشتہ ہفتہ کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان کی روشنی میں دیکھ رہا ہے جس میں انہوں نے سعودی عرب کو مقبوضہ کشمیر کے سوال پر کھل کر کردار ادا کرنے کے لئے کہا تھا۔

اس ٹی وی انٹرویو کے بعد سے شاہ محمود قریشی خاموش ہیں اور وزیر اعظم نے بھی لب کشائی نہیں کی۔ البتہ وزیر ریلوے شیخ رشید نے چند روز پہلے انکشاف کیا تھا کہ آرمی اور آئی ایس آئی چیف کے دور ہ سعودی عرب میں سارے اختلافات دور ہوجائیں گے۔ موجودہ حکومت کے عہد میں ہر وزیر اس شعبہ کے بارے میں رائے دینے کی شہرت رکھتا ہے جس کا براہ راست اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔ شیخ رشید بھی ریلوے کے معاملات کے علاوہ ملکی سیاست اور دوسرے ملکوں سے تعلقات کے بارے میں انکشافات کرنے اور زور دار بیانات دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے اعتماد اور سنسنی خیز ی کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا شیخ رشید کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ ہر میڈیاہاؤس اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ وہ کوئی نیا بیان دیں تو اس کا اعلان سب سے پہلے اسی کے ٹی وی چینل سے ہو تاکہ ریٹنگ بڑھے اور لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔

شیخ رشید بھی اپنی اس ’مارکیٹ ویلیو‘ کو سمجھتے ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم پاک سعودی تعلقات میں پیدا ہونے والی الجھنیں دور کرنے کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ دو روز سے سعودی دارالحکومت ریاض میں موجود ہیں لیکن سرکاری ذرائع نے کوئی ایسی خبر نہیں سنائی کہ دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آئی ایس پی آر کی طرف سے دو مختصر پریس ریلیز اور چند تصاویر کے سوا کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔ سیاسی قیادت نے بھی اس بارے میں لب سی رکھے ہیں۔ یہ ویسی ہی خاموشی ہے جو وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر اختیار کی ہے۔

 وزارت خارجہ کے اس بیان کو اگر بنیاد مان لیا جائے کہ متحدہ عرب امارت کے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے خطے کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے، پھر تو ملک کے وزیر خارجہ کو ا س معاملہ پر تفصیلی پریس کانفرنس کے ذریعے سرکاری پوزیشن سے قوم کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔ اسی طرح عمران خان جن کے بارے میں ان کے رفقا یہ تاثر قائم کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ ان کے بصیرت افروز اقدامات سے امریکہ جیسا ترقی یافتہ اور مالدار ملک بھی سبق سیکھ رہا ہے، اور وزیر اعظم جس طرح پاکستان اور کشمیر ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کے درد میں عام طور سے بے چین رہتے ہیں، انہیں بھی ایک اہم مسلمان ملک کی طرف سے فلسطینیوں کا وطن چھیننے والی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اہل پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کی ’قیادت‘ کا فرض ادا کرنا چاہئے تھا۔ لیکن سرکاری ایوانوں میں پر اسرار خاموشی سے صرف یہی معلوم پڑتا ہے کہ حکومت پاکستان کی کوئی پالیسی واضح نہیں ہے۔ اسی لئے کوئی ’ذمہ دار‘ لیڈر اس اہم پیش رفت پر بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔

 آج حکومت میں تحریک انصاف کے دو سال مکمل ہوجانے کے بعد تمام اہم وزیر حکومت کی کارکردگی اور عالمی سطح پر اس کی کامیاب معاشی پالیسیوں کی پذیرائی کے بارے میں تفصیلی بیانات جاری کررہے ہیں۔ ان وزیروں کے جاری کردہ بیانات میں جو خوشگوار تصویر ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے، بدقسمتی سے زمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے امیر ترین ممالک بھی معاشی دباؤ محسوس کرتے ہوئے اپنے عوام کو مشکل دنوں کے لئے تیار رہنے کی تلقین کررہےہیں لیکن پاکستانی حکومت کے نمائندے یہ دعوے کرنے میں مصروف ہیں کہ دو سال پہلے ملک ڈوبنے والا تھا، عمران خان کی سحر انگیز قیادت نے اسے تباہ ہونے سے بچا لیا اور اب ملکی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے۔

امور خزانہ کے مشیر کو یہ ترقی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں ضرور دکھائی دیتی ہوگی لیکن اگر ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور خطرناک حدوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ معاشی انتظام کرنے اور ملک کو قیادت فراہم کرنے والی حکومت کا یہ حال ہے کہ اس ایک ملک کے ساتھ بھی تعلقات کو خطرناک موڑ پر لے آئے ہیں جس کے سامنے ہر بحران میں دست سوال دراز کیا جاتا ہے۔ معاشی استحکام کے دعوؤں کا پول کھولنے کے لئے صرف یہ ایک اشاریہ ہی کافی ہے کہ جب سعودی عرب نے اسٹیٹ بنک میں رکھوائے ہوئے ایک ارب ڈالر واپس مانگے تو ان کی ادائیگی کے لئے چین سے فوری طور پر قرض لینا پڑا۔ عوام کو شاید کبھی یہ نہیں بتایا جائے گا کہ یہ قرض کن شرائط پر لیا گیا ہے اور اس کے عوض پاکستان کو کیا مراعات دینا پڑیں گی۔

سفارت کاری میں تحریک انصاف کی حکومت کا ایک پہلو وہ ہے جو شاہ محمود قریشی نے حکومت کے دو سال پورے ہونے پر خوبصورت لفاظی کے ذریعے نمایاں کیا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی شبانہ روز محنت سے اب دنیا کے ہر دارالحکومت میں کشمیر کی آزادی کے بارے میں ’بے چینی‘ محسوس کی جا رہی ہے۔ اور اس کا دوسرا اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ ملک کا سب سے طاقتور نمائندہ دو روز سے سعودی دارالحکومت ریاض میں موجود ہے لیکن کسی اہم اور فیصلے کرنے والی شخصیت نے ان سے ملاقات نہیں کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی تازہ ترین پریس ریلیز کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج سعودی عرب کے ڈپٹی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جس میں باہمی دفاعی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے پہلے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ نے ریاض پہنچنے کے بعد سعودی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل (اسٹاف) فیاد بن حماد الروائی اور جائنٹ فورسز کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (اسٹاف) فہد بن ترکی السعود سے ملاقات کی۔ وہ ان ملاقاتوں کے لئے وزارت دفاع پہنچے تو جنرل فیاد نے ان کا استقبال کیا اور انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

دریں اثنا سوشل میڈیا پر اس دورہ کے حوالے سے جھوٹی سچی درجنوں خبریں چلائی جارہی ہیں۔ ان میں شاہ سلمان کے علاوہ ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاک فوج کے دیگر افسروں کی ملاقات کی تصاویر بھی شئیر کی جا رہی ہیں۔ یا تو یہ تصاویر پرانی ہیں یا پھر انہیں فوٹو شاپ کیا گیا ہے۔ تاکہ انہیں اس پروپیگنڈا کے لئے استعمال کیا جائے کہ ملک کے وزیر خارجہ کے عاقبت نااندیش بیان کے بعد پاکستانی آرمی چیف کو سعودی شاہ کے سامنے مؤدب بیٹھ کر اپنے کمزور ہونے کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس مہم جوئی کا مقصد صرف یہ بات نمایاں کرنا ہے کہ آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ حکومت اگر اس حوالے سے پراسرار خاموشی اختیار نہ کرتی تو شاید مفسد عناصر کو ریاستی مفادات کے حوالے سے یوں شرانگیزی کرنے کا موقع نہ ملتا۔

دریں اثنا اہم ترین سوال یہ ہے دنیا اور خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کے لئے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو سنجیدگی سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت قوموں کے درمیان تعلقات میں نہ تو جذبات کارگر ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس اور اٹل اصول بنائے جاسکتے ہیں۔ ہر ملک معروضی حالات، اپنی ضروریا ت اور مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کے حوالے سے پالیسی بناتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ پاکستان کو بھی سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ اس کے مفادات کس قسم کے اشتراک اور اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں۔ پاکستان کو بھارت کی طرف سے شدید اندیشہ لاحق ہے۔ لداخ میں چین کے ساتھ چپقلش میں بھارت کی ہزیمت کے بعد اس بات پر نہال ہونے کی بجائے کہ بھارت نے اگر پاکستان کو آنکھیں دکھائیں تو اس کا عزیز ترین دوست اس کی خبر لے گا، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تمام تر مفادات اور تعلقات کے باوجود دنیا کا کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی جنگ میں نہیں کودے گا۔ 1971 میں ہم اس کا بخوبی تجربہ کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی قومی مزاج اور سوچ میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔

پاکستان کو خارجہ تعلقات کے علاوہ اپنی معیشت کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کرنے ہیں۔ ملک کے 23 کروڑ عوام کا پیٹ بھرنے، دفاعی ضروریات پوری کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے فرسودہ طریقے اب زیادہ دیر تک کام نہیں کریں گے۔ پاکستان کی معیشت کا انحصار زیادہ تر بیرون ملک سے ہونے والی ترسیلات اور زراعت پر رہا ہے۔ ملک میں برآمدی صنعت کو فروغ دینے یا زرعی شعبے میں انقلاب برپا کرنے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی۔ عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات پر غور کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تیل پیدا کرنے والے سب ممالک تیل پر انحصار کم کر رہے ہیں، متبادل آمدنی کے ذرائع تلاش کررہے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لاتے ہوئے افرادی قوت میں کمی کر رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑے گا جو روایتی طور سے ان ممالک میں کام کرنے والی اپنی افرادی قوت کو ملک کی مستحکم معاشی بنیاد سمجھتا رہا ہے۔ یہ صورت حال جلد یا بدیر ختم ہونے والی ہے۔

اسلامی ممالک میں گروہ بندی کے علاوہ چین اور امریکہ کے درمیان معاشی برتری کی جنگ میں پاکستان یوں حصہ دار ہے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستانی معاشی احیا کا انحصار اسی منصوبہ پر ہے لیکن چین محض سی پیک منصوبوں کی وجہ سے نہ تو پاکستان کا محافظ بنے گا اور نہ ہی پاکستانی عوام کا پیٹ بھرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع کے لئے خود ہی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس مقصد کے لئے علاقائی اور عالمی سفارتی حرکیات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا۔

یہ سارے کام مشکل ضرور ہیں لیکن ناممکن نہیں ہیں۔ دنیا کی متعدد اقوام اپنی تاریخ کے کسی نہ کسی دور میں اس سے بھی زیادہ سنگین خطرات کا سامنا کرکے ان سے سرخرو نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ تاہم اگر ملک میں ایک حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر سیاسی بیان بازی میں یہ میچ جیتنے کی کوشش کی جائے کہ یہ کامیاب ترین سال تھے یا ان دو برسوں میں ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا تو ایسا ملک مشکلات کی گرداب سے باہر نہیں نکل سکتا۔ خارجہ تعلقات میں کامیابی کا راستہ داخلی اتفاق رائے اور استحکام سے ہو کر گزرتا ہے۔ حکومت، فوج اور اپوزیشن کو یکساں طور سے حالات کو اس پہلو سے دیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali