پروٹسٹنٹ ازم اور ہندوستان میں بھگتی تحریک


مضامین کے زیر نظر سلسلے کے گزشتہ حصوں میں ہم نے دیکھا تھا کہ کن حالات میں مذہبی اصلاح پسندوں نے کلیسائے روم کو للکارا اور پندرہویں اور سولہویں صدی کے یورپ میں مذہب کی نئی تشریحات کی جانے لگی تھیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہندوستان اور یورپ کے مابین کیا فرق تھے جن کے باعث یہاں کی مذہبی تحاریک نے مختلف راستے اختیار کیے تھے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں مذہبی دھاروں نے کیسے برصغیر کے روحانی نقشے کو بدلنے کی کوشش کی۔ پروٹسٹنٹ ازم کی تعلیمات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اچھے اعمال سے کسی شخص کی نجات نہیں ہو سکتی اور نجات صرف خدا دے سکتا ہے اور یہ کہ کوئی فرد خدا کے نزدیک محبوب اسی وقت ہوگا جب وہ خدا کے ہر عمل پر پختہ عقیدہ رکھے۔

اسی سے ملتی جلتی بات پاکستان میں اس وقت کی گئی جب عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا اور عوام و خواص سب نے انہیں انتہائی عزت و احترام دیا لیکن کچھ مولوی اس پر ناراض ہوئے اور کہا کہ اعمال سے نجات نہیں ہوگی بلکہ صرف عقیدے کی بدولت ہی نجات ممکن ہے۔

اگر ہم ہندوستان میں بھگتی تحریک پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی خدا سے تعلق کا جذباتی بیان کیا گیا ہے پروٹسٹنٹ ازم کی طرح بھگتی تحریک کے بھی کئی دھارے تھے اور اسے کوئی ایک مسلم اصول کے ماتحت نہیں سمجھا جاسکتا بھگتی مارگ یا بھگتی کا راستہ مذہب کے دو دیگر راستوں سے مختلف ہے۔ جن میں علم یا گیان اور کرما یا عمل کا راستہ شامل ہے۔ لوتھر کے ماننے والے اور اصلاحی یا ریفارمڈ پروٹسٹنٹ یقین رکھتے ہیں کہ اچھے اعمال نجات کی راہ میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم اچھے اعمال کو کرما سے جوڑ کر دیکھیں تو ہمیں دونوں طریقوں میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے۔

ابتدائی بھگتی تحریک ساتویں سے دسویں صدی عیسویں میں جنوبی ہندوستان میں شروع ہوئی جب تامل زبان کی کویتا یا نظموں میں وشنو اور شیو جیسے خداﺅں کو سراہا گیا۔

غالباً بھگتی کی عبادات کے لیے اولین دانش ورانہ بنیاد رام انوجا نے فراہم کی تھی جو ایک ہزار قبل سن 1017 میں پیدا ہوا تھا۔ رام انوجا کا دور یورپ میں پروٹسٹنٹ تحریک سے پانچ سو سال قبل کا ہے۔ یورپی اصلاح پسندوں کی طرح رام انوجا بھی ایک مذہبی رہ نما تھا۔ رام انوجا جنوبی ہند کے ایک برہمن خانوادے سے تعلق رکھتا تھا جس نے وشنو اور لکشمی دیوی کے لیے مکمل سپردگی کی تبلیغ کی۔

رام انوجا کی تعلیم یہ تھی کہ ایک ذاتی خدا کی عبادت اور اس سے روحانی ملاپ یعنی وصال اپ نیشد کی بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ اپ نیشد کو ویدوں پر لکھی جانے والی تفسیر سمجھا جا سکتا ہے۔

بھگتی تحریک جلد ہی شمالی ہندوستان پہنچ گئی اور گیارہویں صدی کے بعد مسلم نظریات نے بھی اس پر اثر ڈالا ہوگا خاص طور پر خدا کے لیے مکمل سپردگی کے خیالات مسلم اور ہندو دونوں میں موجود تھے۔ جن کا واضح اظہار بھگت کبیر سے صوفی شعرا میں ہوا۔ کبیر کا زمانہ چودہ سو چالیس سے پندرہ سو بیس تک کا سمجھا جاتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کبیر کی وفات تقریباً اسی وقت ہوئی جن برسوں میں مارٹن لوتھر پندرہ سو سترہ میں اپنے پچانوے مقالات کی ترویج کر رہا تھا۔ یورپ میں ویکلف اور نوکس کی طرح ہندوستان میں بھی بارہویں اور سولہویں صدی تک کوئی تین چار سو برس بڑی مذہبی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔

 اسی دور میں راما آنند، کبیر، تلسی داس اور سورداس ، شمالی ہند میں، چیتنیا بنگال میں، نانک پنجاب میں اور تکا رام جنوبی ہند میں سرگرم رہے تھے۔ گوکہ ہندومت کے بڑے دیوتا وشنو اور شیو اور دیویوں کی مختلف شکلیں اپنی عبادات کے لحاظ سے مخصوص روایات کی حامل تھیں۔ بھگتی تحریک کے درج بالا بڑے نام زیادہ تر وشنو بھگتی روایات کے حامل تھے جس میں وشنو کے اوتار خاص طور پر کرشن اور رام شامل تھے۔

 یورپ میں پروٹسٹنٹ ازم کلیسائے روم کے خلاف تھا تو ہندوستان میں بھگتی تحریک برہمنوں کی اجارہ داری کے خلاف تھی۔ کلیسائے روم اور برہمن وادی دونوں دعوے دار تھے کہ ان کے مذہبی احکام کی خلاف ورزی دراصل خدا کی نافرمانی تھی۔ بھگتی تحریک نے بھی اس بیانیے کو للکارا اور عوام کو خدا سے براہ راست رابطے کا راستہ دکھایا جس میں مذہبی ٹھیکے داروں کی کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔

بھگتی تحریک کی زیادہ تر شاعری برہمنوں کے خلاف ہے اور ان پر طنز کرتی ہے اور ان کی پارسائی کے دکھاوے کا پردہ چاک کردی ہے۔ ایک طرح سے برہمنوں کی پارسائی اور کلیسائے روم کی پارسائی کے دکھاووں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ یہاں یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ بھگتی تحریک مکمل طور پر ایک ہندو مذہبی تحریک تھی۔ اس تحریک کی کچھ نمایاں شخصیات جیسے کبیر اور نانک نے تو ہندومت اور اسلام کے درمیان فرق تک مٹانے کی کوشش کی۔

 جب یورپ میں پروٹسٹنٹ رہ نما بائبل کے مقامی زبانوں میں تراجم کو فروغ دے رہے تھے اور کلیسائے روم کی جانب سے لاطینی زبان کے استعمال کی مخالفت کررہے تھے تقریباً اسی دور میں بھگتی تحریک کے رہ نما سنسکرت سے ہٹ کر مقامی زبانوں کا استعمال کررہے تھے جیسے بنگالی، ہندی، مراٹھی اور پنجابی کا۔ اس دور کے سب سے بڑے شعرا میں کبیر کا نام سرفہرست ہے اور اردو کے قارئین کے لیے کم از کم تین اچھی کتابیں اردو میں موجود ہیں۔ ایک تو پنڈت منوہرلال زتشی کی کتاب ”کبیر صاحب“ منوہرلال اٹھارہ سو پچھتہر سے انیس سو پینتالیس تک کوئی ستر برس جیے اور ان کی کتاب مکتبہ جامعہ دہلی نے پہلی بار 1930 میں شائع کی تھی۔ یہ کتاب ریختہ کی ویب سائٹ پر مفت پڑھنے کے لیے موجود ہے۔

اسی کتاب کو لاہور میں بک ہوم نے 2007 میں شائع کیا اور منوہرلال زتشی کا نام مصنف کے طور پر درج کیا۔ گو کہ کبھی ہمارے ناشر نہیں بھی کرتے اور پرانی کتابیں کسی اور کے نام سے شائع کردیتے ہیں۔ یا مصنف کا نام ہی غائب کردیتے ہیں کبیر پر ایک اور کتاب فکشن ہاﺅس نے 2008 میں شائع کی اور شکیل الرحمان کا نام مصنف کے طور پر دیا ہے۔

کبیر پر اردو کی دو اور اچھی کتابیں راقم کے پاس موجود ہیں جن میں ایک تو ڈاکٹر عبدالحفیظ کی ”بھگت کبیر حیات و تعلیمات“ جس کی ترتیب وتدوین ارشد رازی نے کی اور نگارشات لاہور نے 2001 میں شائع کی۔ دوسری کتاب ریٹا شاہانی کی ”اکتھ کہانی کبیر“ ہے جو العصر پبلی کیشنز نے 2013 میں شائع کی۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ ایک سو پچھتہر صفحات کی اس کتاب میں شروع کے پچاس صفحات میں ڈاکٹر داموردر کھڑسے نے پونے سے، ڈاکٹر رشبھ شرما نے حیدرآباد دکن سے اور ڈاکٹر نذیر فتح پوری نے بھی پونے بھارت سے ریٹا شاہانی اور کبیر کے بارے میں لکھا ہے۔

 اس کے علاوہ ابراہیم جویو کا دیباچہ جو انہوں نے حیدرآباد سندھ سے 2008 میں لکھا شامل ہے۔ اس طرح یہ کتاب مختصر مگر جامع ہے جو ریٹا شاہانی جیسی اردو، انگریزی۔ سندھی، ہندی کی ادیبہ نے پونے بھارت میں تحریر کی۔ ریٹا شاہانی مختلف اصناف سخن میں تیس سے زیادہ کتابیں تحریر کرچکی ہیں خاص طور پر میرا بائی پر بھی ان کا خاصا تحقیقی کام موجودہے۔

یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ریٹا شاہانی 1934 میں حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئیں اور سندھی کے مایہ ناز ادیب منگھا رام ملکانی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ملکانی تقسیم سے قبل کراچی کے ڈی جے سائنس کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ افسوس ہم نے کیسے کیسے ہیرے کھو دئیے۔ بقول حسن عابدی

اک عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے

ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے

بھگتی پر اردو میں غالباً سب سے اچھا اور جامع تعارف ”پریم وانی“ نامی کتاب میں ہے۔ جسے سردار جعفری نے مرتب کیا اور آج بکس نے 2001 میں شائع کیا۔ پریم وانی زیادہ تر میرا بائی کے بارے میں ہے جو تقریباً پندرہ سو عیسوی سے پندرہ سو چونسٹھ تک زندہ رہیں۔ یاد رہے کہ 1564 ہی وہ سال ہے جس میں کیل ون ازم کا بانی جان کیل ون فوت ہوا تھا۔

پریم وانی کا تعارف ڈاکٹر صفدر آہ سیتاپوری نے 1971 میں تحریر کیا تھا۔ اردو میں دست یاب ایک اور کتاب تلسی داس کی سوانح حیات ہے۔ جو بھگوان داس نے تحریر کی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پریم داس بالاچ نے کیا جسے فکشن ہاﺅس نے 2013 میں شائع کیا ۔

 کبیر کے ساتھ پندرہویں صدی کے ہندوستان کی ایک اور عظیم شخصیت رامانند تھے جن کا دور سن چودہ سو سے چودہ سو ستر کا ہے یعنی یہ کبر سے کوئی پچاس برس قبل فوت ہوئے۔ یہ بھی شمالی ہندوستان کے ایک برہمن پنڈت تھے۔ جو بعض روایات کے مطابق رام انوجا کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

پھر بابا گرونانک کا دور آتا ہے جو رامانند کی وفات کے آس پاس چودہ سو ستر میں پیدا ہوئے اور پندرہ سوچالیس میں ستر برس کی عمر میں وفات پائی۔ گرونانک ایک عظیم مذہبی انقلابی تھے جنہوں نے کبیر اور رامانند کی طرح طویل سفر کیے اور عوام تک امن و آشتی کے پیغام پہنچائے۔

ان سب کی تعلیمات میں مشترکہ عنصر یہی تھا کہ خدا سب سے قریب ہے نہ کہ صرف چند منتخب لوگوں کے جیسا کہ برہمن پنڈت اور کلیسائے روم کے حواری بتاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).