استاد جی… سلیم اختر


بھائی! ہر کسی کو اپنا کام خود ہی کرنا پڑتا ہے، دوسرے کے کام میں ٹانگ پھنسانے والے تنگ ہوتے ہیں، اس لیے دنیا کا سب سے مشکل کام اپنے کام سے کام رکھنا ہے”۔ یہ وہ جملے تھے جنہیں سننے کے بعد میں نے پہلے اس شخص کو بڑے غور سے دیکھا وہ ناک پر ذرا آگے کھسکا کر چشمہ ٹکائے، خبروں کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف تھا اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیکٹ کو مخصوص انداز میں پکڑ کر انگلی مار کر اس میں سے سگریٹ نکالتا اور ماچس کا شعلہ دکھا کر اسے سلگاتا، کچھ سوچنے کے بعد دوبارہ اپنے کام میں لگ جاتا، میں چونکہ آفس میں نیا تھا کسی ساتھی سے پوچھا، ان صاحب کو استاد جی کیوں پکارتے ہیں، کیا ہم کسی ورکشاپ میں بیٹھے ہیں؟ کیونکہ عموماً جب کسی کو استاد جی پکارا جائے تو اس کا مطلب اتالیق یا سکھانے والا کم بلکہ کوئی بڑا کاریگر یا پھر فن کار بندہ ہوتا ہے۔

جواب ملا، سلیم اختر صاحب کا یہ نام بس ایسے ہی پڑ گیا، کوئی وجہ تسمیہ بھی نہیں، اگرچہ جونیئرز کی رہنمائی ضرور کرتے ہیں، لیکن استاد جی کے لقب کا خاص پس منظر نہیں، یہ وہ تعارف تھا جہاں سے سلیم اختر یا استاد جی سے واقفیت کا آغاز ہوا۔ بال تھوڑے بڑھے ہوتے اور آنکھوں میں مفکرانہ چمک دکھائی دیتی، انداز گفتگو خالص لاہوری، کہیں دل کرتا ہلکی سی گالی بھی پھینک دیتے، استاد جی بڑے دبنگ انداز اور دو ٹوک لہجے میں بات کرتے، اپنے مخاطب کی پروا ہرگز نہیں کرتے کہ وہ کیا سوچے گا، کوئی بڑا برجستہ فقرہ کس دیتے۔

استاد جی میں انسان دوستی ایسی کہ بہت کم لوگوں میں دیکھی، دوسرے کا خیال کرنے والے اور دکھ تکلیف میں پریشان ہوجانے والے، ان کے سینے میں بڑا خاص دل تھا۔

استاد جی ان میں سے تھے جو کہ کسی بھی معاملے میں کوئی مشورہ دے دیتے، ان سے تعلق بننے میں کافی دیر لگی، کیونکہ شروع میں لگا جیسے بڑے روکھے مزاج کے ہیں، ان کا معمول بھی ذرا مختلف تھا، ایک طرف میز تھی سب سے الگ تھلگ بیٹھتے تھے، وجہ یہ بتاتے کہ میں نے سگریٹ لگانا ہوتا ہے، لوگوں کو دھوئیں سے پرابلم ہوتی ہے، اسی لیے ذرا دور نشست رکھی ہے۔

استاد جی سے تعلق بنا تو بالکل مختلف، بہت ملنسار اور پیار کرنے والا انسان پایا۔

ایک دن میں نے پوچھا آپ کہتے تھے کہ اپنے کام سے کام رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ پھر دوسروں کے معاملے میں کیوں مداخلت کرتے ہیں، اور فوراً تبصرہ کرنے یا مشورہ دینے میں تاخیر بھی نہیں کرتے۔

استاد جی نے کہا سیدھی سی بات ہے، میں نے اسے دنیا کا مشکل ترین کام کہا ہے، یہ نہیں کہا کہ میں بھی ایسا کرتا ہوں۔ اگر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو پھر میں درویش بن جاؤں یا پھر بہت ہی مطلب پرست انسان۔ ایک دوسرے کا احساس کرنے والا شاید ان دونوں صورتوں میں خوش نہیں رہے گا۔ اس لیے کم ازکم میں تو کام سے کام نہیں رکھ سکتا۔ میں تو جہاں ضروری سمجھتا ہوں، کود پڑتا ہوں۔ مجھے پروا نہیں ہوتی کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

“میں نے زندگی میں کبھی دوسرے کے بارے میں بُرا نہیں سوچا اور کوشش کی ہے کہ کسی کو اچھا مشورہ ہی دوں اور اگر ممکن ہوسکے تو اس کی مدد کروں”۔

استاد جی نے بتایا کہ انہوں نے زندگی میں بڑے سخت حالات دیکھے ہیں کیسے اپنی تعلیم مکمل کی اور جلد ہی خاندان کا سہارا بننے کیلئے جو بھی نوکری ملی وہ کر لی۔ کہتے انہی حالات میں بڑی سادگی کے ساتھ شادی بھی ہو گئی، اللہ تعالیٰ نے بیوی بھی ایسی دی، جس نے کبھی لمبے چوڑے گلے شکوے یا مطالبے بھی نہ کئے، شادی کی پہلی رات منہ دکھائی کے پچاس روپے بیوی کو دیئے۔ صبح اُٹھ کر وہ پچاس روپے یہ کہہ کر مانگ لیے کہ مہمانوں کے لئے ناشتہ لانا ہے۔ اس نے بڑی خوش دلی سے میرے ہاتھ پر نوٹ تھما دیا۔ اور کتنے برس بیت گئے کبھی اس کا تذکرہ تک نہ کیا۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے مزاج میں صحافیوں والا ایک کھلنڈرا پن اور آوارہ گردی تھی جو مکمل طور پر ختم تو نہ ہوئی لیکن اسے کنٹرول کرنے میں بھی بیگم کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ میں شادی کے بعد قدرے سنجیدہ ہوگیا دوستوں کے حلقے میں باقاعدہ مذاق اُڑایا جاتا کہ یہ تو کام سے گیا اور جورو کا غلام بن گیا ہے، پہلے پہلے بڑا غصہ آ جاتا تھا لیکن اب محسوس نہیں کرتا بلکہ انجوائے کرتا ہوں۔

استاد جی کا کہنا تھا “زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے۔ بہت زیادہ سنجیدگی اور ذات کے خول میں خود کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس کے انسانی صحت پر مضر اثرات ہی پڑتے ہیں۔ زندگی میں بڑی پریشانیاں دیکھیں اور اب بھی مسائل کے گرداب میں پھنسا رہتا ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ کم ازکم ذہنی طور پر ریلیکس رہوں، اس کے لیے دو تین کام ضرور کرتا ہوں”۔

پہلا یہ کہ واک دن میں دو بار کرتا ہوں، دوسرے ڈیوٹی کے دوران وقفہ کرتا ہوں۔

اور آفس کے بعد چاہے آدھ گھنٹے کے لئے دوستوں کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ کرتا ہوں۔

اس گپ شپ میں آفس کی باتوں سے گریز کرتا ہوں۔ اور یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ گھریلو معاملات زیر بحث نہ آئیں۔ یہ سب کرنے کے نتیجے میں میرا ذہن قدرے تازہ دم ہوجاتا ہے۔

میں اگلے دن کا آغاز کسی حد تک اچھے موڈ کے ساتھ کرتا ہوں”۔

استاد جی نے جب مکان بنایا تو بڑی تکلیف کا دور تھا۔ تین بچوں کے اخراجات اور تعیمراتی پیچیدگیاں۔ مالی مسائل کے ساتھ ذہنی دباؤ بھی بہت زیادہ تھا۔ کہتے کہ “مکان بنانے میں کئی کام خود اور بچوں کو ساتھ شریک کر کے کر رہا ہوں”۔

اس وقت یہ احساس ہوا کہ استاد جی حقیقت میں وہ کردار ہیں جنہیں ہم کتابوں میں عزم وہمت کی مثال کے طور پر پڑھتے تھے۔ ایک بار میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ وقفے میں کھانا کھانے کدھر جاتے ہیں۔ جواب ملا میں تو دوپہر میں کھانا نہیں کھاتا۔ دریافت کیا کیوں؟ بولے۔ میں نے عادت بنا لی ہے، صبح ناشتہ کر کے آتا ہوں بس رات کا کھانا گھر جا کر کھاتا ہوں۔ کیا یہ سب ڈائٹنگ کے ضمن میں ہے، استاد جی نے مسکرا کر جواب دیا، یہ تو امیروں کے چونچلے ہیں، ہمیں مکمل ڈائٹ (خوراک) ہی مل جائے تو غنیمت ہے، ہم کون سے مرغن کھانے کھاتے ہیں۔ استاد جی نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں کام کرتے ہیں، لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے اچھے وسائل ہوں گے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ کیسے گزارا کرتے ہیں۔

سلیم اختر ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے تو اسی ادارے میں دوبارہ کنٹریکٹ پر ملازم ہوگئے، اس دوران دل نے جھنجھوڑا مگر سگریٹ نوشی چھوڑی نہ نوکری۔ وہ کہتے کہ یہ اب بھی میری ضرورت ہے میں کوئی عیاشی نہیں کررہا۔

ان تمام مسائل اور مصائب کے باوجود سلیم اختر کے مزاج میں پائی جانے والی شگفتگی اور ہلکا سا مزاح کم نہ ہوا، دوسروں کے ساتھ گھل مل جانے اور گپ شپ کے انداز میں کوئی نہ کوئی پتے کی بات کہنے سے باز نہ آتے۔

کبھی کبھی انہیں بڑا خاموش دیکھ کر پوچھ لیتے کہ استاد جی لگتا ہے کوئی پریشانی چمٹ گئی ہے۔ تو جواب میں کہتے فلاں فلاں مسئلہ ہے اس سے نکلنے کی تدبیر ڈھونڈ رہا ہوں۔ اور ساتھ ہی بڑے کھلے ڈھلے انداز میں نعرہ لگا دیا، اور مُکہ ہوا میں لہرا کر کہتے “گھبران والا میں نئیں، ایسی دی تیسی اوہدی جیہڑا سمجھے کہ میں پریشان آں”۔

ملاقاتوں میں لمبے وقفے آتے رہے لیکن فون پر بات ہوجاتی، ایک دوسرے کی خیریت جاننے کا تبادلہ بھی ہوجاتا، ایک دن کسی دوست نے بتایا طبیعت خراب ہے، میں نے کہا اچھا فون کرتا ہوں، اس نے بتایا حالت سیریس ہے، وینٹی لیٹر پر ہیں، مجھے دھچکا سا لگا، میں چند روز پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ استاد جی کے بارے میں کچھ لکھوں، میں نے ایک ذہن بنایا تھا کہ اپنے اردگرد پیارے لوگ ہیں، ان کی زندگی میں ہی یادداشتیں تحریر کرنی چاہئیں، ضروری نہیں کہ وہ دنیا چھوڑیں، پھر ہی انہیں یاد کیا جائے، لیکن استاد جی جیسے ہر کام جلدی جلدی سمیٹتے تھے، اپنی رخصت میں بھی تاخیر نہ کی۔ میں سوچتا ہی رہا کہ عیادت کروں، مگر قدرت اپنا فیصلہ کر چکی تھی۔

استاد جی کو خاص طور پر لاہور پریس کلب آنے والے کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ انہیں وہی بھول سکتا ہے، جس نے کبھی اس پیارے انسان کو سمجھا نہ ہو گا۔ یا پھر ایسا شخص جو پیار کے معنی سے ناآشنا ہو۔ سلیم اختر محبتیں بانٹنے والا تھا۔ جسے ہم اب ترسیں گے۔ اس محبت کی طلب ہی ہمیں استاد سلیم اختر کی یاد دلاتی رہے گی۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar