مفروضہ قوم: مسئلہ فلسطین کا حل


میثاق مدینہ 622 ء میں خاتم النبیین رسول اللہ ﷺ کی سربراہی میں ریاست مدینہ اور یہود قبائل کے مابین طے پایا۔ بادی النظر میں یہ معاہدہ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا مگر یہ معاہدہ طویل مدت میں مسلمانوں حق میں بہترین ثابت ہوا۔ خاتم النبیین رسول اللہ ﷺ نے طویل مدت کی بہتری پر انحصار کرتے ہوئے یہودیوں سے معاہدہ فرمایا اور دنیا نے دیکھا کہ بادی النظر میں نقصان نظر آنے والا معاہدہ مسلمانوں اور ریاست مدینہ کا بہترین معاہدہ طے پایا۔ آج جدید دنیا کے مسلمانوں کو بھی میثاق مدینہ کے طرز کے معاہدہ کی ضرورت ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے معاملہ پر اسی طرز کے معاہدہ کی انتہائی ضرورت ہے۔

حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو امریکہ کی سربراہی میں تسلیم کرتے ہوئے ایک ”تاریخی ڈیل“ کی مگر فلسطینی عوام اور مسلمانوں بالخصوص پاکستانی اور ایرانی عوام میں بے چینی کا ایک ماحول ہے۔ متحدہ عرب امارات پہلی خلیجی اور تیسری عرب ریاست ہے جس نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کیا۔ اس سے قبل 1979 میں مصر اور 1994 میں اردن نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ یہ تسلیم کوئی ایک دن کی ڈپلومیسی کا نتیجہ نہیں ہے عرب ممالک اور اسرائیل کا ایک دوسرے کے ساتھ 1948 سے جنگی تعلق جاری ہے۔ یہاں تک متحدہ عرب امارات کے پہلے شاہ زاہد بن سلطان النہیان نے اسرائیل کو دشمن قرار دیا مگر آج اس کے وجود کو تسلیم کر لیا۔

اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو محض مصر (جس نے 1973 میں اسرائیل کو تسلیم کیا) واحد عرب ملک ہے جس نے جنگ میں اسرائیل کو شکست دی۔ 1973 میں مصر نے اسرائیل پر حملہ کر کے اسرائیل کے قبضے میں موجود اپنی ریاست کا سینائی صحرا کا کچھ قبضہ واپس لے لیا۔ اسی سال جنگ بندی کے وقت مصری حکمران انور سادات نے اپنی شرائط پر اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کر لیا۔ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ میں سینائی صحرا کی واپسی کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر یہ زور دیا گیا کہ وہ فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لائے گا۔ اسی طرح 1994 میں اردن نے 1948 سے جاری اسرائیل کے ساتھ اپنی خانہ جنگی ختم کرتے ہوئے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا۔

ہم پاکستانی آج کل کیونکہ نہ عرب کو اور نہ عجم کو دیکھ رہے ہیں بلکہ آج کل میں آدھے ترک ہیں تو ترکی کی بات کرتے ہیں۔ 1948 میں اسرائیل نے اپنا وجود پایا اور ترکی نے مارچ 1949 میں اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کر لیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن مئی 1949 میں بنا جبکہ ترکی نے مارچ میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

متحدہ عرب امارات کے معاہدہ کے بعد پاکستانی عوام میں انتہائی اضطراب میری سمجھ سے باہر ہے۔ اسرائیل کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں شراکت کل مسلم دنیا سے زیادہ ہے۔ مسلمان علمی اور معاشی لحاظ سے اسرائیل سے بہت پیچھے ہیں۔ ضروریات زندگی سے لے کر جنگی ساز و سامان تک ہمارا بیرونی دنیا پر انحصار ہے تو ہم مسلمان اسرائیل کے ساتھ جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ہم مفروضہ قوم عقل پر انحصار کے بجائے نعروں اور مفروضوں پر ایمان کامل رکھتے ہیں۔ ہم نے تو کشمیر آزاد کروانے کے لئے صرف دعا کا سہارا لیا۔ یہ بات درست ہے کہ دعا تقدیر بدل دیتی ہے مگر اس کے لئے آن گراؤنڈ بھی کوشش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقول اس وقت کے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ”اللہ نے انسان کے ہاتھ میں محنت اور کوشش دی۔ کامیابی وہ خود دیتا ہے۔“ تو کشمیر یا فلسطین کے حق میں ریاستی سطح پر اجتماعی دعا وہ مطلوبہ محنت اور کوشش ہر گز نہیں ہے۔

اب رہا سوال کہ کیا پاکستانی عوام اور حکومت کو محض جذباتی وعظ اور نعرے لگانے ہیں یا کہ کچھ پریکٹیکل کرنا ہے۔ تو میرے مطابق چونکہ پاکستان کل مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جس کے تمام مسلم ممالک کے ساتھ اچھے روابط ہیں (ورنہ قطر اور سعودی عرب، ایران اور عرب، اور ترکی اور عرب دنیا کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ) تو پاکستان کل مسلم ممالک کو ایک جگہ اکٹھا کرے اور اس مسئلے کے مکمل حل کی بات کرے۔ اس مسئلہ کا مکمل حل یہ کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے وجود کو اس شرط پر تسلیم کریں کہ وہ القدس مسلمانوں کو واپس کرے اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لائے اور اسی طرز کی ایک اور کانفرنس جس میں تمام عالمی طاقتیں اور مسلمان ممالک کو بلا کر یہ ڈیل مکمل کروائے۔ اس ڈیل کو مکمل کروانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان مسلم امہ کی سربراہی تسلیم کرے اور بڑا بن کر خود تمام اقدامات کرے جو آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے جذبات اور مفروضات سے بالاتر حقیقت پر انحصار کرنا ہو گا۔ اور یہ ہی علامہ اقبال کے حرم کی پاسبانی کے لئے مسلمانوں کو یک جان ہونا ہو گا

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کاشغر

وگرنہ دیگر خلیجی ریاستیں اومان، بحرین اور مراکش وغیرہ بھی اسی طرز کے معاہدہ جات کر لیں گی اور ہم اپنے جذبات کے بھنور میں ایک اعلیٰ ڈپلومیٹک حل سے محروم رہ جائیں گے۔ اور ایک بات یاد رکھیں 1948 اور 2020 میں حالات مختلف تھے تب ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک ناجائز ریاست ہے مگر آج ہمارا یہ کہنا کسی کام کا نہیں ہے۔

فلسطین کے مسئلے کا مکمل حل یہ ہی ہے کہ اپنی شرائط پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ یہ میثاق جدید دنیا کا میثاق مدینہ ثابت ہو گا۔ بظاہر شاید یہ معاہدہ نقصان لگ رہا ہو گا مگر طویل مدت میں انشا اللہ مسلمانوں کے حق میں بہترین معاہدہ ثابت ہو گا۔

رہا سوال فلسطین کا تو ہم بھارت کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اپنے کشمیر کے حق خود ارادیت اور کشمیر کی آزادی سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹتے تو اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرنے کا ہر گز مقصد فلسطین سے دست برداری نہ ہوگی بلکہ یہ تو ایک قاری ضرب ہوگی اور اس طرح اسرائیل پر مزید پریشر بلڈ کیا جاسکے گا۔ لہذا اسرائیل کو ریاست تسلیم کرنے میں فلسطینی مفاد کو ہر گز نقصان نہیں کیونکہ جس طرز کے معاہدہ کی میں بات کر رہا ہوں اس میں بنیادی شرط القدس کی حوالگی اور فلسطین کی آزادی ہوگی۔

مزید مفروضوں اور نعروں سے باہر آئیں۔ کل مسلم دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک فیصد سے بھی کم کی شراکت دار ہے۔ لہذا علمی میدان میں جھنڈے گاڑیں اور دنیا کی مجبوری بن جائیں کہ جیسے اب امریکہ اور مغرب کی مجبوری ہے اسرائیل کا ساتھ دینا بالکل اسی طرح ہمارا ساتھ دینا بھی ان کی مجبوری ہو اور یہ صرف علم و حکمت کے میدان میں فتح سے ممکن ہے۔ وگرنہ ہمارا حال تحریک ہجرت اور تحریک خلافت سے یکسر مختلف نہ ہوگا۔
آخر میں الحمدللہ میں ایک سچا مسلمان اور سچا پاکستانی ہوں۔ وضاحت اس لئے کہ ہمارے دانشوروں نے علامہ اقبال پر انگلی اٹھانے سے گریز نہیں کیا میں نے تو پھر اکثریتی سوچ کی نفی کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).