قوت بازوئے احرار جہاں ‎


گیارہ ستمبر 2001 کے بعد کا زمانہ تھا جب میں آئرلینڈ پہنچا۔ یہاں خبروں کے لیے ابھی الجزیرہ بھی میسر نہیں تھا۔ سکائی نیوز اور سی این این پر اس وقت عراق پر ہونے والے حملوں کی تمہید باندھی جا رہی تھی۔ ایک دن اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے پارلیمنٹ سے خطاب کیا جس کو تمام چینلز نے براہ راست نشر کیا۔ تقریر کیا تھی اسے سن کر یوں لگتا تھا کہ صدام حسین اگلے چالیس منٹ میں لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔

 اگلے دن کام پر گیا تو ہر شخص اس تقریر سے متاثر دکھائی دیا اور اس بات پر قائل نظر آیا کہ اگر صدام کے خلاف حملہ نہ کیا گیا تو پوری مغربی تہذیب فنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ میں اپنے اساتذہ کی نظر کرم کے طفیل اس پروپیگنڈے کی حقیقت سے کسی حد تک واقفیت رکھتا تھا لیکن اس پروپیگنڈے کے اتنے وسیع اثرات دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ استعمار جب چاہے، جہاں چاہے، اور جو چاہے بلا روک ٹوک سب کچھ کر سکتا ہے۔ استعمار کی اس صلاحیت سے آپ سب واقف ہیں کہ حکومتوں کے بل پر وہ اپنے ہر مشن کو ایسی اعلیٰ انسانی اقدار سے جوڑ دیتا ہے کہ معصوم انسانی جانوں کا ضیاع اس مشن کے حصول کے لیے بہت جائز اور کلیتاً روا لگتا ہے۔

استعمار کے پاس آپ جانتے ہیں دانشوروں اور صحافیوں کی کمی نہیں ہوتی۔ مجھ جیسا بھی ان درجنوں کتابوں کے نام بتا سکتا ہے جو برصغیر پر برطانوی راج کو آج کی تاریخ تک Civilising mission بتاتی ہیں۔ اور تو اور کارل مارکس جیسا عبقری بھی ایک وقت تک برطانوی راج کے بارے میں یہی رائے رکھتا تھا کہ اس سے برصغیر جدید صنعتی دور میں داخل ہو جائے گا۔ بعدازاں انسانی جانوں کے ضیاع پر اس نے برطانوی راج کے مقاصد پر اعتراض تو نہیں کیا لیکن صنعتی دور میں داخلے کی قیمت پر تشویش کا اظہار ضرور کیا۔

 باقی رہ گئے جان اسٹوارٹ مل جیسے فلسفی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تنخواہ دار ملازم بھی تھے انہوں نے برصغیر پر قبضہ کو برطانیہ کی پاک صاف نیت کا شاخسانہ قرار دیا جس کا مقصد صرف اور صرف تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سلسلہ شاید جان اسٹوارٹ مل جیسے لوگوں پر ختم ہو گیا ہو گا تو آپ غلطی پر ہیں۔ نائل فرگوسن جیسے مورخ کی 2003 میں شائع ہونے والی کتاب Empire پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ آج بھی برطانوی راج کے وہ احسانات گنوا رہے ہیں جو اس نے برصغیر کے رہنے والوں پر کیے تھے۔

تاریخ نے تو نہیں مگر استعمار نے اپنے طریقے دہرائے اور عراق پر قبضے کے لیے بالکل وہی طریقے استعمال کیے گئے جو جو برطانیہ عظمٰی نے کئی عشروں پہلے کیے تھے۔ افواج کی طاقت، میڈیا کا پروپیگنڈہ، اور دانشوروں کی دانشوری نے مل کر اس قبضے کو ممکن بنایا۔ برنارڈ لوئس، فواد عجمی، ایلن درشو وٹس اور ٹام بولٹن جیسے کئی دانشوروں نے عراق پر حملے کے لیے عالمانہ دلائل دیے۔ گو 30 سے زائد بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے نیویارک ٹائمز میں اشتہار شائع کروا کے عراق پر ہونے والے اس حملے کو امریکہ کے لیے نقصان دہ قرار دیا مگر سنی اور سنائی گئی بات تو فقط ان لوگوں کی جو استعمار کی حمایت کر رہے تھے۔

اس ساری فضا میں امریکی فلسفی نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور برطانوی سیاستدان جارج گیلووے اور دانشور طارق علی کا کوئی انٹرویو یا تحریر دیکھنے کو مل جاتی تو صرف اتنا احساس بہرطور ہوتا تھا کہ سارا جہان ابھی انسانیت کا دشمن نہیں ہوا ہے اور کچھ لوگ ہیں جو ظلم کے خلاف اگر صف آرا نہ بھی ہو سکیں تو کم از کم بات کرنے کا حوصلہ اور ہمت بہرحال رکھتے ہیں۔ عراق کی جنگ ابھی جاری تھی کہ جولائی 2005 میں جارج گیلووے کو امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے صدام حسین سے ان کے مبینہ تعلقات پر سوالات کے لیے مدعو کیا۔

ایک عام تاثر یہ تھا کہ شاید وہ نہ جائیں۔ مگر نہ صرف یہ کہ وہ گئے بلکہ امریکی استعمار پر اپنی رائے بلا کم و کاست اور بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان بھی کی۔ امریکی سینٹ کی کمیٹی کے سامنے کی گئی یہ تقریر آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے اور مغرب میں موجود باشندے بے بسی کے موسموں میں اس کو دیکھ کر آنے والے دنوں سے وابستہ امیدوں کو زندہ کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجئے اگر عراق جنگ سے پہلے اور بعد میں یہ تین چار آوازیں بھی سننے کو نہ ملتیں۔

 Democracy Now جو اس وقت صرف ایک ریڈیو اسٹیشن تھا اس پر کبھی کبھار طارق علی جیسے لوگ بھی سننے کو نہ ملتے۔ ظاہر ہے یہ لوگ عراق کی جنگ کو روکنے کی سکت نہیں رکھتے تھے مگر کم ازکم اس کے پیچھے چھپے جھوٹ، مکر، اور لالچ کو بے نقاب کرنے کا کام تو کر رہے تھے۔ اگر یہ بھی نہ ہوتے تو دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا پوری دنیا بش اور بلئیر کی تنخواہ دار غلام نہ لگتی؟ جب پوری مسلم دنیا دم سادھے اور ٹانگوں کے درمیان دم دبائے بیٹھی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔ پاکستان اس وقت سیکیورٹی کونسل کا ممبر تھا جب عراق جنگ کا موضوع وہاں زیر بحث آیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس وقت کو کوسا تھا جب ان حالات میں پاکستان نے کونسل کا ممبر بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان حالات میں استعمار کے خلاف بولنے والے خدا لگتی کہئے کیا آپ کو انسانیت کے ماتھے کا جھومر نہیں لگیں گے؟

پاکستان میں آزادی صحافت کی تاریخ سے ذرا نثار عثمانی، آئی اے رحمان، حسین نقی اور عزیز صدیقی کا نام نکال کر دیکھیے۔ آمروں کے دسترخوان سے چوگ چگ کر ان کو خطابات سے سرفراز کرنے والے تو ملیں گے اخبار کے خالی صفحات کا نوحہ پڑھنے والا کوئی نہ ملے گا۔ پاکستان کی تاریخ سے عاصمہ جہانگیر کو نکال دیجئے اور دیکھیے کیسے کیسے کاسہ لیس، بزدل، مفاد پرست، جھوٹے اور استعمار کے آلہ کار باقی رہ جاتے ہیں۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ استعمار کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے یہ وہ لوگ ہیں جو انسانی ضمیر کی آواز ہیں۔ ان میں سے جو لوگ دنیا سے جا چکے ہیں جیسے کہ ایڈورڈ سعید وغیرہ۔ کیا اس وقت وقت ان کے نام اور کام کو یاد رکھنا ایک عام اسرائیلی سے دشمنی قرار دیا جائے گا؟ اس وقت دنیا کی اہم جامعات میں ایڈورڈ سعید کے مشہور زمانہ کام Orientalism پر از سر نو مزید تحقیق کو آپ ان کے اعلیٰ عالمانہ مقام سے تعبیر کریں گے یا صرف ان کے فلسطین سے ذاتی تعلق کی روشنی میں دیکھ کر اس کام کی حیثیت کا تعین کریں گے۔

 ہر صاحب دل اس بات سے اتفاق کرے گا کہ مظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھانے والے، ظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے۔ کامیابی ناکامی سے قطع نظر۔ ہر دور میں سراہے جاتے ہیں۔ اور ہر انسان خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ طاقتور ہو یا کمزور۔ صاحب الرائے ہو یا مقتدی پر لازم ہے کہ وہ انسانیت کے ضمیر کی آواز بننے والے ان صاحبان حریت کو سراہے، ان کی مدح کرے۔ ان کے مقام اور کام کے مطابق ان سے آیندہ کی نسلوں تک فیض رسانی کو ممکن بنائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2