پاکستان کی دوغلی تعلیمی پالیسی


قوم و ملک کی ترقی میں تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے۔ تعلیم ہی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ معاشرے کو سنوارنے میں تعلیم کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مسلم ریاستوں نے ہمیشہ سے ہی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں بغداد کو علم و ہنر کا مرکز بنایا گیا اور دوسری طرف قاہرہ میں عظیم درسگاہ جامعہ الازہر کی بنیاد رکھی۔ جس وقت یورپ ابھی جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت جابر بن حیان گندھک اور شورے کا تیزاب بنا چکا تھا۔

ابولاسحاق الکندی اس وقت آلات موسیقی بنا کر دھنیں بنا چکا تھا اور ابوالقاسم الزہراوی جراحی کے طریقے دریافت کر چکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب تعلیم سب کے لئے ایک جیسی تھی اور ایک ہی نصاب تھا پھر جدید دور آیا حالانکہ یہ جدید دور ہے نہیں لیکن رکھ رکھاؤ کے لئے کہہ دیتے ہیں۔ تو اس جدید دور میں تقسیم کاری شروع ہوئی اور امیر غریب کے لئے تعلیمی ادارے الگ ہو گئے اور ایسی ہی پالیسی پاکستان میں بھی چل پڑی۔ اس وقت امیر کا بچہ آکسفورڈ اور کیمبرج کی کتاب پڑھتا ہے اور غریب کا بچہ آج بھی رحیم بخش والا قاعدہ پڑھ رہا ہے۔

امیر اے /اؤ لیول پڑھتا ہے اور غریب ایف۔ اے کرنے پر مجبور ہے۔ ایک طرف ایک طبقہ LUMS، Beacon House، Cambridge، American lyceum، or UCP میں پڑھتے ہیں جبکہ دوسری طرف کا طبقہ غازی یونیورسٹی، لسبیلہ یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی جیسے اداروں میں پڑھتا ہے جہاں بنیادی تعلیمی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں اور ان یونیورسٹیوں کو تو بہت سے لوگ جانتے بھی نہیں ہیں۔ اب ایک انتہائی پسماندہ یونیورسٹی کا طالب علم LUMS اورBeacon House کے طالب علم سے کیسے مقابلہ کر سکتا ہے؟

اگر پچھلے چند سالوں کا سول سروس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو CSS پاس کرنے والوں میں اکثریت LUMS، Beacon House اور باہر کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء کی ہوتی ہے۔ بھلا غازی یونیورسٹی کا طالب علم LUMS کے طالب علم سے کیسے مقابلہ کے گا؟ تو اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ ملک میں اعلیٰ عہدوں پر جاگیر دارانہ سوچ ہی پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے کوئی پالیسی بناتے ہوئے غریب یکسر نظر انداز ہوتا ہے۔ پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ادارے میسر ہی نہیں ہیں۔

لاہور شہر میں 36 سرکاری اور نجی یونیورسٹیز ہیں جبکہ پورے صوبہ بلوچستان میں صرف 8 یونیورسٹیاں ہیں اور جنوبی پنجاب کے 16 اضلاع میں 10 یونیورسٹیاں اور کچھ یونیورسٹیوں کے کیمپس ہیں۔ ان محروم اور پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو اپنی دہلیز پر سستی تعلیم میسر نہیں جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں طلباء کو اپنی تعلیم کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ لاہور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خواہ میں حالات اس ابتر ہیں اور ان صوبوں میں حکومت کو کبھی بغاوت کا سامنا ہے اور کبھی حکومتی رٹ خطرے میں پڑ جاتی ہے تو اس طرح کے مسائل کو ہم بندوق سے کبھی حل نہیں کر سکتے اور اگر کرنا بھی چاہیں تو کب تک؟ یہ مسائل اس وقت حل ہوں گے جب ان علاقوں میں تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ شعور بیدار کیا جا سکے۔ اس وقت خوش آئندہ بات یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت نے یکساں نصاب اور یکساں نظام تعلیم کی بات کی ہے جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔

یکساں نظام تعلیم کی وجہ سے سب کے لئے ترقی کے یکساں مواقع موجود ہوں گے اور نفرت پسندانہ سوچ کا خاتمہ ہو گا۔ حکومت کو نہ صرف یکساں نظام تعلیم ملک میں نافذ کرنا چاہیے بلکہ جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور پختون خواہ کے پسماندہ علاقوں میں بہترین سہولیات سے مزین یونیورسٹیاں قائم کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو تعلیم ان کی دہلیز پر میسر کی جا سکے اور کوئی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ اسی طرح پسماندہ علاقوں میں پرائمری، مڈل، ہائی سکول اور کالج بنانے چاہیے تاکہ مملکت خداداد کا کوئی بچہ زیور تعلیم سے محروم نہ ہو اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).