جنسی ہراسانی: پردے میں رہنے دو


خاموش خبردار جو تم نے اس بات کا ذکر اپنے باپ سے کیا، تمہارا یونیورسٹی جانا بند ہو جائے گا۔ دیکھنا تمہارے بھائی کو بھنک نہ پڑے ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا،

چپ کر جاؤ، سہ لو ابھی تمہاری شادی ہونی ہے کوئی رشتہ نہیں آئے گا لوگ تمہیں پر انگلیاں اٹھائیں گے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لڑکی نے بھی کچھ نہ کچھ کیا ہوگا۔

یہ ہیں وہ سب باتیں یا اس سے ملتی جلتی بے شمار نصیحتیں جو ہمارے suffocated اور گل گھوٹو معاشرے میں جنسی ہراسانی کا شکار لڑکیوں کو سننی پڑتی ہیں۔

گلی محلوں، بازاروں سے لے کر یونیورسٹیوں تک ہماری اکثر خواتین کن کن چیزوں کا سامنا کرتی ہیں یہ یا تو خدا جانتا ہے یا وہ خواتین کیونکہ اگر کبھی کوئی حوا کی بیٹی ہمت کرکے اپنے سر اور کندھوں پر پڑے اس بد نما بوجھ کو اظہار کی شکل میں اتارنے کی کوشش کرے تو بوم رینگ کی طرح واپس اسی کے منہ پر آ کر پڑتا ہے اور اس کا زخم اتنا گہرا ہوتا ہے جو ساری عمر نہیں بھر پاتا۔

ہماری مڈل اور لوئر مڈل کلاس تو ویسے ہی بہت سے معاشی مسائل کا سامنا کر رہی ہوتی ہے اس پر معاشرے کا دباؤ لوگ کیا کہیں گے کا خوف اور سفید پوشی انہیں بزدل ترین شہری بنا دیتی ہے یہ بزدلی مسائل کم کرنے کی بجائے اس میں بے پناہ اضافے کا باعث بنتی ہے اور نتیجہ ذہنی اور جسمانی بیماریاں اور ایسی خودکشیاں جن کا کبھی پتہ نہیں چل پاتا، کیونکہ وہی سفید پوشی آڑے آتی ہے۔ ان کا لڑکیوں کو یونیورسٹی بھیجنے کا مقصد اعلی تعلیم نہیں بلکہ اچھے رشتوں کا حصول ہوتا ہے کہ پڑھی لکھی برسرروزگار لڑکی کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔

پچھلے دنوں یونیورسٹی کی ایک طالبہ جو پی ایچ ڈی کر رہی تھی کی خود کشی کی خبر نے بہت ڈسٹرب کیا، میں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جو پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی میں استاد ہیں، میرے استفسار پر انہوں نے ایسے ایسے قصے سنائے کہ میں رات بھر سو نہیں پایا۔ ان کے مطابق یونیورسٹیوں میں انٹرنل سسٹم کی وجہ سے اساتذہ کا کنٹرول بہت بڑھ گیا ہے کم و بیش پچاس فیصد اساتذہ فیمیل اسٹوڈنٹس کو مختلف بہانوں سے اپنے آفس کے چکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر یہ مطالبات بڑھتے چلے جاتے ہیں زیادہ تر طالبات اسی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں (خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیز میں ) جن کو بچپن سے ہی ہر بات پر پردہ ڈالنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اس طرح بہت سے sexual harassment کے حادثات منظرعام پر نہیں آتے۔

یاد رہے اس رویہ سے ان واقعات میں کمی نہیں بلکہ اور اضافہ ہوتا ہے کیونکہ ایسے خبیث النفس اساتذہ کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ میرے دوست کے مطابق اگر کلاس میں کوئی گوڈ لوکنگ اور آؤٹ سپوکن لڑکا ہو تو یہ ادھیڑ عمر روحانی والد اس سے حسد شروع کر دیتے ہیں اور حیلے بہانوں سے لڑکیوں کے سامنے اسے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، صرف یہ بتانے کے لئے کہ اختیار ہمارے ہاتھ میں ہے۔

ہماری شوبز انڈسٹری بھی اس سے پاک نہیں لیکن شوبز میں لڑکیاں نسبتاً brave ہوتی ہیں خاص طور پر جو اچھے اور بڑے گھرانوں سے آتی ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی ایک مثال ہماری مشہور گلوکارہ و اداکارہ میشا شفیع نے قائم کی جس میں انہوں نے اپنے ایک ساتھی گلوکار پر sexual harassment کا الزام لگایا، ان کے الزام میں کتنی صداقت ہے، کون سچا ہے کون جھوٹا اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں،

اس واقعے کو لے کر سب سے alarming بات ہمارے معاشرے کا خوف ناک رد عمل تھا جس میں لوگوں نے اس کے لباس سے لے کر اس کی شکل، کردار اور نہ جانے کس کس چیز کو ہدف تنقید بنایا۔ زیادہ تر لوگوں نے اسی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ گلوکارہ پر کیچڑ اچھالنے والے لوگوں میں بہت بڑی تعداد مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی تھی۔ میں یہ اکثر سوچتا ہوں کہ ہو سکتا ہے میشا شفیع کی آواز ان کی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی آواز ہو جو ان کے اس رویے کی وجہ سے باہر نہیں آ پاتی۔

ہم بحیثیت قوم illusion میں رہتے ہیں کہ جو آگ باہر لگی ہے وہ ہمارے در و دیوار پار نہیں کر سکتی حالانکہ ہم سب اس کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا یا ہم اس کا ادراک لینا ہی نہیں چاہتے۔

ہماری حکومت بھی اسی گل گھوٹو معاشرے کی نمائندہ ہے۔ 14 اگست پر علی ظفر کے لئے پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعلان اپنے آپ میں harassment سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).