کاش حیات ہم میں زندہ رہے



ہمیں موت کا ادراک نہیں کہ اس کی وحشت دراصل ہوتی کیا ہے۔ موت کا ادراک ہوگا بھی کیسے جب اس کا مزہ چکھا نہیں اور جب چکھ لیا تو ادراک کی وقعت کیا رہ جائے گی؟ موت کا اندازہ شاید مر کر ہی لگایا جا سکتا ہے لیکن اس کا ستم ہی یہی ہے کہ ادراک کے باوجود کچھ کیا نہیں جا سکتا۔ زندگی کی اصل قیمت تو مر کر ہی معلوم ہوتی ہوگی۔

آپ ریاستی طاقت اور حب الوطنی کے نشے میں دھت ہو کر کسی انسان کو مار دیں تو کتنی ہی گریہ، فریادیں، آہ و زاری، دعائیں نہ کر لی جائیں آٹھ گولیاں کھا کر مرجانے والا تاقیامت دوبارہ زندگی کی سانس نہیں بھر سکتا۔ ایسی ضدی ہوتی ہے موت۔ کسی کی نہ سننے والی۔ ممکنات کی حدود سے کوسوں دور جمی ہوئی ہٹ دھرم چٹان کی طرح۔ ساکت، جامع، بے احساس، بے رحم۔ موت نہیں دیکھتی کہ مرنے والی یا مرنے والا مستقبل کے لئے کیسے سہانے خواب سجائے ہوئے تھے۔

موت کو اس سے کیا لگے یا موت کے گھاٹ اتارنے والے کو بھی کیا لگے کہ کون کیا ہے یا کیا چاہتا تھا۔ اس سے منسلک بیسیوں محبت کی سچی کہانیاں ہوں گی، اس کی کتنی حسرتیں، امیدیں اور آرزوئیں ہوں گی۔ کتنے دل اس کی محبت کی مدحت کرتے ہوں گے۔

موت سب کچھ طوفاں کی طرح لے اڑتی ہے، سیلاب کی مانند امنگوں اور محنتوں کو بہا لے جاتی ہے۔ ایک بہت وسیع اختتام جس کے پیچھے تو خوبصورت زندگی تھی مگر اس کے روبرو اور ہمراہ کچھ نہیں۔ موت ہونے کو نہ ہونا بناتی ہے۔ مختصراً کوئی بھی موت کی حقیقت بدل نہیں سکتا۔ حیات بلوچ کے گھر کی ماتم کرتی دیواروں اور نوحہ کناں پیاروں کے مابین براجمان ہو کر تعزیت کی جتنی برکھا نہ برسا دیں، حیات کی موت کو حیات میں اب رہتی دنیا تک بدلا نہیں جا سکے گا۔ دنیا کی ساری دولت یا وحشت بھی اس کی ماں کی آغوش میں سما دی جائے تب بھی حیات زندہ نہیں ہوگا۔ آٹھ گولیاں نکال کر واپس بے لگام بندوقوں کی نالیوں میں ڈال دی جائیں، تب بھی موت کی تحریر مٹ نہیں سکتی۔ ایسی ہوتی ہے موت۔ اس لئے تکلیف دیتی ہے موت۔

اناؤں کی بے رحم گٹھری سے غرور و جلال کی ابلتی ہوئی گولیوں نے حیات کی حیات بھی قاتل انگشتوں کے دوش ختم کر دی۔ یہ لوگ کہاں سے اس قدر وحشت سمیٹ لیتے ہیں؟ کیسے ان کے دل و دماغ سے رحمت کی روشنی چھن جاتی ہے؟ کسی کو موت کے حوالے بھی کوئی کیسے کر سکتا ہے؟ افسوس اور پچھتاوے کی دیوی سے خوف نہیں کھاتے؟ یہ دہشت جو غریبوں کے سینوں پر اتارتے نہیں تھکتے، بازار سے سستے دام ملتی ہے یا کوئی ان کو سکھا کر جاتا ہے؟

اب بھی ہر ظلم کے بعد وہی زنگ آلود قومیت کی تعفن زدہ نظریاتی دلیل کے حضور حیات کی موت پر بے باک اور بے رحم قومی اساس کے بچاؤ کے تبصرے کرتے یہ ناآشنائے انسانیت لوگ ڈر کیوں نہیں رہے؟ اور باقی کچھ آنسو بہانے والے حیات کے غم میں اس لئے غمزدہ ہیں کہ کہیں خاکم بدہن حیات کا آبائی خطہ ہمارے وطن ہم سے الگ نہ ہو جائے؟ ان کو صرف اور صرف حیات کی موت کا غم کیوں نہیں کھائے جا رہا؟ کہ کیوں حیات کی جان لی؟

حیات کی موت، اس کی بے بسی، اس کا بہتا اور جمتا گرم لہو، اس کی کلائی پر بندھا عقیدت و محبت کا سیاہ دھاگا، زمیں چومتا اس کا رخ بھی بھلا ہی دیا جائے گا۔ کچھ ہی لمحوں کی نحیف سی ہلچل ہے اور پھر نام گونجے گا زمینی و قومی خداؤں کا، قومی اساس کا جو ہمہ وقت خطروں میں گھری رہتی ہے۔

منتیں کرتے سرفراز شاہ کے قاتل چین سے ہیں۔ خروٹ آباد کے ظالم بھی مطمئن ہیں۔ رہی بات کشمیر و فلسطین کی تو سنی تو ان کی بھی نہیں گئی۔ اس بے رحم اور موت کے جواز تلاشنے والے قومی ہجوم کی بے وقعت حمایت سے دن ان کے بھی نہیں بدلے نہ بدل سکتے ہیں۔

دکھ تو بس یہی ہے کہ حیات کی فریاد کرتی ماں کی آہوں اور سسکیوں سے عرش نہیں ہلا، نہ فرش تنگ ہوا۔ سب معمول کے مطابق ہے۔ کار ہائے قدرت میں جنبش نہیں آئی نہ ہی اس قدر ستم پر آسماں سے بجلیاں گریں۔ زمیں پھٹی نہ آسماں۔ عرش بھی ان ماؤں کی فریادوں سے ہلتے ہیں جن کے لخت جگر کی موت سے ریاست کے ضمیر میں ہلچل مچتی ہے۔ ان ناپسندیدہ ماؤں کی گریہ زاری سے آسماں چاک ہوتے ہیں نہ زمیں دو لخت۔ دو لخت دل ہوتے ہیں تو ماؤں کے، پیاروں کے، محبت کی کہانیوں سے منسلک انسانوں کے۔ وطن کے نام پر بیٹے لٹا کر شکر کرنے والے کبھی نہیں سمجھ پائیں گے کہ موت مسلط کرنے کا غم کیا ہوتا ہے۔

بس افسوس ہے تو ہمارے حیات پر جس کے سب خواب ادھورے، خواہشیں نامکمل اور عمر بھر کی ریاضت زائل ہوگئی۔ آہ حیات آہ! تم اور تم جیسے ہم ہار گئے اور ظالم جیت گئے جو ہر طرح کا بہانہ بنیں گے کہ تمہارا مر جانا کس قدر برحق تھا اور ہمارا نہ مرنا برحق ہوگا۔ خدا کرے کہ یہ وطن سلامت رہے اور تمھارا مر جانا صدیوں بھلائے نہ بھولے۔ تمہارا مر جانا امر ہو جائے۔ کاش تم ہم میں کبھی نہ مر پاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).